عمار ضیاء خان صاحب کی ایک تحریر نے مجھے میرے ماضی کے کچھ واقعات یاد دِلا دیئے ۔
بچپن میں ہمارا معمول ہوتا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں مجھ سے بڑی میری بہن اور میں سارے گھر کی فرش سے چھت تک اچھی طرح صفائی کرتے ۔ جب میں گیارہویں یا بارہویں جماعت میں تھا ہم اسی طرح صفائی کر رہے تھے کہ مہمان آ گئے ۔ امی نے کہا “بوتلیں لے آؤ”۔ میں نے سر پر لپیٹا ہوا کپڑا کھولا اور بوتلیں لینے بھاگ پڑا ۔ راستہ میں دو لڑکے کھڑے تھے ۔ انہوں نے انگریزی میں کہا “کیسا بیوقوف لگ رہا ہے”۔ جب میں نے ان سے انگریزی میں کہا “آئیندہ خیال رکھیئے گا کیونکہ پاکستان میں انگریزی سمجھنے والے بہت ہیں”۔ تو انہیں پریشانی ہوئی ۔
اگر راستہ میں چھلکا یا پتھر پڑا ہو تو میں اُٹھا کر ایک طرف کر دیتا ہوں یا اگر قریب کوڑا کرکٹ کا ڈبہ ہو تو اس میں ڈال دیتا ہوں ۔ ایک راہداری پر پڑے کیلے کے چھِلکے میں نے اُٹھا کر قریبی ڈبے میں ڈالے ۔ دو خوش پوش نوجوان راہگیروں نے مجھے نفرت سے گھورتے ہوئے انگریزی میں کہا “کتنا گندھا ہے”۔ میں نے تیزی سے قریب جاتے ہوئے کہا “میں یا چھلکے پھینکنے والے”۔ یہ چھلکے انہوں نے پھینکے تھے۔
میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ایم آئی ایس کا سربراہ تھا ۔ اپنی سرکاری کوٹھی میں ایک اتوار باڑ کٹوانے کیلئے آدمی بلائے مگر نہ آئے ۔ میں تھوڑے سے حصہ میں باڑ کاٹ رہا تھا تاکہ اپنے ملازم کو سمجھا دوں کہ ان سے باڑ کی اتنی اُونچائی رکھوانا ۔ اسی دوران ایک شخص کوٹھی کے پھاٹک پر آیا ۔ میں نے پوچھا کس سے ملنا ہے تو میرا نام لیا ۔ میں نے کام پوچھا تو کہنے لگا “آپ اپنی باڑ خود کاٹ رہے ہیں؟” میں نے جواب میں کہا “اس میں کیا ہرج ہے”۔ تو وہ واپس چلا گیا ۔ بعد میں مجھے ایک ساتھی نے بتایا کہ اس نے اُسے بھیجا تھا اور واپس جا کر اس نے کہا “جو اپنی کوٹھی کی باڑ نہیں کٹوا سکتا وہ میرا کام کیا کرے گا”۔
وسط 1966ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ابھی رائفل جی تھری کا پروجیکٹ پلاننگ اور ڈویلوپمنٹ سے گذر کر باقاعدہ پیداواری مرحلہ میں گیا ہی تھا کہ مجھے قائم مقام ورکس منیجر بنا کر مشین گن پلاننگ ۔ ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کا پراجیکٹ دے دیا گیا ۔ بعد میں ایک سینئر جنرل منیجر صاحب کو میرا افسر بنا دیا گیا جنہیں ویپنز پروڈکشن کا کوئی تجربہ نہ تھا ۔ میرا افسر بننے کے چند ماہ بعد ایک دن وہ صاحب میرے دفتر میں آئے اور کہا “آپ کو اپنے افسر کا وفادار ہونا چاہیئے”۔ میں خاموش رہا تو اُنہوں نے یہ جملہ تین بار دہرایا ۔ میں نے عرض کیا “سرکاری قواعد و ضوابط کے مطابق ہر افسر پر لازم ہے کہ وہ صرف مُلک [پاکستان] کا وفادار ہو اور اگر کوئی افسر اپنے ماتحت کو کوئی ایسا حُکم دے جو مُلک کے مفاد میں نہ ہو تو وہ ایسا حُکم نہ مانے” ۔ اس پر میرے افسر نے کہا ” تم اپنی بات کرو”۔ تو میں نے کہا “میں چونکہ مسلمان ہوں اسلئے سب سے پہلے اپنے دین اسلام کا وفادار ہوں اس کے بعد میں اپنے پیارے مُلک پاکستان کا وفادار ہوں ۔ اسکے بعد میں اس ادارے [پاکستان آرڈننس فیکٹریز} کا وفادار ہوں کہ اس ادارے کو اللہ نے میرے رزق کا ذریعہ بنایا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ اسی میں پوری طرح شامل ہیں لیکن اگر نہیں ہیں تو میں قانون کا تابع دار ہوتے ہوئے آپ سے معذرت خواہ ہوں”۔ وہ صاحب اُس دن کے بعد میرے ساتھ ناراض ہی رہے گو وہ سارا کام مجھ ہی سے کرواتے رہے مع انکے اپنے دفتر کی ڈاک کے ۔ [تتمہ ۔ یہ قوائد و ضوابط ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے نافذ کردہ ایڈمنسٹریٹو ریفارمز کی نذر ہوگے اور نااہلی کا فروغ شروع ہوا]
ملازمت کے دوران جو میرے قریبی ساتھی تھے وہ مجھے کہا کرتے تھے “تم میں ترقی کی نشانیاں نہیں ہیں” ۔ وجہ یہ تھی کہ میرے ماتحتوں میں جو دیانتداری اور محنت سے کام کرتے تھے میں ان کی سالانہ رپورٹس خراب نہیں ہونے دیتا تھا جس کے نتیجہ میں بعض اوقات میری اپنی رپورٹ گڑبڑ ہو جاتی تھی اور نہ میں اپنے سینئر افسر کو خوش کرنے کیلئے جھوٹ بولتا تھا ۔ میں حق کی خاطر کاغذی جنگ لڑتا رہتا تھا جس کی وجہ سے کوئی مجھے بیوقوف اور کوئی پاگل کہتا تھا ۔
میرا بهی کچھ ایسا هی حال هے اور میں اس کو خودداری کا نام دیتا هوں ـ
لیکن کبهی کبهی خیال آتا ہے که کہیں یه بے جا انا تو نہیں ہے؟؟
باقی کجھ لوگ ساری زندگی کچھ لوگوں کے چمچے بن کر اور کچھ لوکوں کو چمچه بنا کر گزار دیتے هیں ـ
ان میں برابری کی بنیاد پر دوستی کرنے کی صلاحیت نهیں هوتی
اور اعلی ظرف لوگ ماتحتوں سے پیار سے ملتے هیں اور بڑوں سے وقار کے ساتھ
We just launched a mega event with the name “I Still Love Pakistan Do You !” at BuzzVines.com, and would love if you join up and spread the word around. we are inviting all the bloggers of Pakistan so hurry join up!
PS: this is not spam i visited your website personally to leave the message.
زمانہ کتنی تیزی سے بدل چکا ہے۔ پہلے محلے میں پٹواری، پولیس والے اور نمبرداروں کے گھر پہچانے جاتے تھے اب شریف اور نیک آدمی کا گھر دور سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے آدمیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
میرے خیال میں ظاہر کو باطن کا معیار بنالینا جہالت ہے۔ میں نوٹ کرتا ہوں کہ اکثر ظاہر کو دیکھتے ہوئے لوگ انتہائی عجیب عجیب تاثرات دیدیتے ہیں اور پھر جب حقیقتِ حال کا علم ہوتا ہے تو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔
(پہلا والا واقعہ اچھا لگا)۔
افضل صاحب
معاشرے کو ٹیک کرنے کی کوئی تحریک ہونا چاہیئے
راہبر صاحب
آجکل تو اُردو بولنے والے کم ہو گئے ہیں ۔ یہ اس زمانہ کا واقعہ ہے جب انگریزی بولنے والے کم ہوتے تھے
Comment about “Istill love Pakistan, do you”
My suggestion (I know it is late)is :it should be “I love Pakistan, do you”. The word “still” suggests all kind of wrong things.