حالات و واقعات ۔ ایک محقق شیخ محمد علی صاحب کی نظر میں
آپریشن سے قبل بھی اور بعد میں بھی سرکار و حلیفان سرکار کی جانب سے بھانت بھانت کی وجوہات پیش کی جا رہی ہیں، کہیں زمینوں پر قبضے کی بات ہے تو کہیں شریعت کے ازخود نفاذ کی بات یا پھر اندر اسلحہ و غیرملکیوں کی موجودگی کی، لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ سچ کیا ہے، کیا یہ سچ نہیں کہ ان معصوموں کی اموات کے فیصلے کہیں اور ہوئے تھے اور جن پر عملدرآمد اسی پالیسی کا حصہ ہے جو آج اقوام مغرب نے اسلام و مسلمان دشمنی کے تناظر میں ہر سمت جاری کر رکھی ہے۔ امریکا بہادر نے عراق پر ہاتھ ڈالنے کے لئے آخر یہی تو جواز تراشا تھا کہ وہاں بڑی مقدار میں کیمیاوی ہتھیار موجود ہیں لیکن ایک بڑی تباہی و بربادی کے بعد وہاں سے کیا برآمد کیا؟ یہ صرف مخالفین کو دبانے اور تباہ و برباد کر دینے کے ہتھکنڈے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔ افسوس تو ان علماء پر بھی ہے جو اگر چاہتے تو شاید یہ نوبت نہ آنے پاتی لیکن آج اس خون ناحق پر بھی سیاست کی بساط بچھا لی گئی ہے، کہیں جوڈیشنل انکوائری کی بات ہو رہی ہے تو کہیں مذمت۔ اسلام نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں سے عمل کا مطالبہ کیا ہے اور اس خصوصی معاملے میں عمل وہی قبول تھا جس سے ان کی جانیں بچ سکتیں اگر یہ علماء اور یہاں کے مسلمان یہ نہیں کرسکے تو ہزار مذمتیں کریں، ہزار انکوائریوں کا مطالبہ کریں انہیں بھی اس خون ناحق کا حساب دینا ہوگا۔ بشری زندگی کا ہر موضوع اور ہر پہلو اسلام کی گرفت میں ہے اور سیاست و سیادت کا ایک واضح و نمایاں خاکہ بھی اس نے پیش کیا ہے۔
ان واضح و بیّن احکامات کی موجودگی میں کسی کج بحثی کی گنجائش نہیں اور نہ میں اس حوالے سے کسی لمبی بحث میں الجھنا چاہتا ہوں، وہ لوگ جو لال مسجد والوں کے مطالبات، نفاذ شریعت کورٹ کی آڑ میں غلط قرار دیتے ہیں اور اپنے مباحثوں میں یہ فرماتے ہیں کہ کسی فرد یا ٹولے کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ جب چاہے ایسے مطالبات لے کر اٹھ کھڑا ہو اور حکومت کی رِٹ کو چیلنج کرے انہیں دلوں میں خوف پیدا کرنا چاہئے اور اعمال میں اصلاح کی فکر بھی کیونکہ ان کا یہ ارشاد سراسر اسلامی سیاست و شریعت کے خلاف ہے۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلامی تاریخ لاتعداد ایسی نظیریں پیش کرتی ہے جہاں فرد سے لے کر افراد تک اور افراد سے لے کر گروہوں تک نے نفاذ شریعت کا مطالبہ بھی کیا اور اس کے لئے حاکموں، جابروں اور آمروں سے ٹکر بھی لی، خود واقعہ کربلا سے بڑھ کر اس کی مثال کیا ہوگی کہ بہتّر افراد کے ٹولے نے محض شریعت کی سربلندی کے لئے بدترین آمر سے ٹکر لی اور خود تو دنیوی اعتبار سے ختم ہوگئے لیکن اپنی سنت پر چلنے کا ایک واضح اصول چھوڑ گئے۔ حکومت کی رِٹ کا فلسفہ گھڑنے والے اور اس کے خلاف ایسی آوازوں کو ناپسند کرنے والے کیا واقعہ کربلا کو بھی خاکم بدہن ایسا ہی کوئی واقعہ قرار دیں گے؟
سچ صرف ایک ہے کہ کھوٹ سارا ہمارے اپنے دلوں میں ہے، ہم نفس کے غلام، بے حمیّت اور ایمانی حوالوں سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں دشمنان اسلام اسلامی عقائد کے خلاف اپنی گندی زبانیں استعمال کر رہے ہیں، پیغمبر اسلام پر ہرزہ سرائی ہو رہی ہے، کفر و الحاد پرست انہیں زر و جواہر میں تول رہے ہیں جو ایسے رذیل و قابل گرفت کام انجام دے رہے ہیں اور ہم صرف زبانی کلامی بڑھکیں مار رہے ہیں۔ اب تو لال مسجد و مدرسہ حفصہ کے اندوہناک سانحے نے ہمارے ایمان کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور ہمیں اپنی ہی نظروں میں شرمندہ و نیچ ٹھہرا ڈالا ہے اور ہم یہ جان چکے ہیں کہ دعویٰ ایمانی کے تناظر میں ہم کتنے پانی میں ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے اس کمرشل دور میں جبکہ لوگ محض دنیوی کامیابیوں اور فراوانی دولت کی خاطر تعلیم کے مختلف میدان اپنے بچوں کے لئے منتخب کر رہے ہیں ان بچوں سے یہ بدترین انتقام کیا معنی رکھتا ہے جو دین کی محبت میں ان مدرسوں کا رخ کر رہے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ یہ سودا دنیوی کامیابی کا نہیں بلکہ آخری کامیابی و سرفرازی کا ہے۔ کاش کہ طوق غلامی گردنوں سے اتار کر حکام وقت یہ سوچ سکیں کہ وہ کتنے بدترین خساروں کا سودا کر رہے ہیں۔ بے شک اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں
تحریر ۔ شیخ محمد علی ۔ یہ مضمون دو قسطوں میں تھا جو میں نے قارئین کی سہولت کیلئے چار اقساط میں لکھا ۔ اصل مضمون کی پہلی قسط یہاں کلک کر کے دیکھ سکتے ہیں اور دوسری قسط یہاں پر کلک کر کے