جاوید ہاشمی وہ شخص ہے جو پاکستان ٹوٹنے سے چند ماہ قبل ڈھاکہ جا پہنچا۔ وہ ناراض بنگالی نوجوانوں سے ملنا چاہتا تھا، انہیں بتانا چاہتا تھا کہ مغربی پاکستان کے عوام کی اکثریت فوجی جرنیلوں کو پسند نہیں کرتی لیکن جاوید ہاشمی سے کہا گیا کہ بنگالیوں سے دور رہو وہ تمہیں گولی مار دیں گے۔ یہ دیوانہ شخص چاک گریبان کے ساتھ سینے پر گولی کھانے کیلئے تیار ہو گیا۔ اس نے کہا کہ اگر میرے لہو سے کسی کی نفرت کی آگ بجھتی ہے اور پاکستان بچ جاتا ہے تو میں گولی سے نہیں ڈرتا۔ [حامد میر کے قلم کمان سے اقتباس ۔ ۔ ۔ جاری ہے]
پاکستان کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کی خواہش رکھنے والے اس شخص کو موجودہ دور حکومت میں غدّار قرار دیا گیا۔ بغاوت کا مقدمہ بنانے والوں کو بھی پتہ تھا کہ جاوید ہاشمی غدّار نہیں۔ اسے کہا گیا کہ اگر وہ نواز شریف کے ساتھ غدّاری پر راضی ہو جائے تو اسے سیاسی شان و شوکت سے مالا مال کر دیا جائے گا لیکن اسے یہ شوکت کبھی عزیز نہیں رہی۔ وہ انکار کرتا رہا۔ اعلیٰ عدالتوں سے اس کی درخواست ضمانت مسترد ہوتی رہی لیکن آخر کار 3 اگست کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اور تاریخی فیصلے کے ذریعہ جاوید ہاشمی کو رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ افسوس صد افسوس کہ جاوید ہاشمی چار سال تک پابند سلاسل رہا لیکن قومی اسمبلی کے اسپیکر چوہدری امیر حسین نے ایک مرتبہ بھی جاوید ہاشمی کو اسمبلی کے اجلاس میں لانے کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے۔
یہ درست ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد موجودہ قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے لیکن اسمبلی کی تاریخ کا یہ واقعہ شرمناک ہے۔ اس اسمبلی کا ایک رکن چار سال تک جیل میں تھا ، اس کی رکنیت برقرار رہی لیکن اسے اسمبلی کے اجلاس میں حاضر کرنے کا حکم صادر نہ ہو سکا ؟ اس ایک مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک کمزور اسمبلی تھی، اس اسمبلی نے جاوید ہاشمی کو کوئی عزت نہیں دی لیکن جاوید ہاشمی جیسے بہادر شخص کی رکنیت کے باعث اس اسمبلی کو عزت ضرور ملی ہے۔
اسیّ سالہ بھارتی دانشور کلدیپ نیّر پاکستانیوں پر حیران ہیں۔ پاکستان بنا تو ان کی عمر 24 سال تھی۔ وہ سیالکوٹ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر دہلی پہنچے تو انہیں یقین نہیں تھا کہ پاکستان قائم رہے گا۔ انہیں دہلی پہنچے 60 سال گزر گئے لیکن پاکستان بدستور قائم ہے۔ وہ حیران ہیں کہ 60 میں سے 32 سال تک پاکستان پر فوجی سربراہوں نے حکومت کی۔ سیاسی حکومتوں کا دورانیہ 28 سال رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔
کلدیپ نیّر مزید حیران ہونے والے ہیں کیونکہ پاکستان میں آئین اور جمہوریت کیلئے جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ منزل بہت دور ہے۔ ایک جاوید ہاشمی تو رہا ہو گیا لیکن ابھی جاوید ہاشمی کو اختر مینگل اور ان کے کئی دیگر ساتھیوں کی رہائی کیلئے مزید جدوجہد کرنی ہے۔ ان سب پر بھی بغاوت کے مقدمے ہیں۔ ابھی تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی رہا کروانا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی پر پاکستان کے دشمن خوش نہیں ہوں گے اور اسی لئے مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے دشمن اس ملک میں حقیقی جمہوریت اور قانون کی بالادستی نہیں چاہتے۔ کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا دشمن جاوید ہاشمی کا بھی دشمن ہے ؟ کیا دونوں غدّار ہیں ؟ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کر دیا کہ جاوید ہاشمی غدّار نہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کے بعد تاریخ کو بھی ایک فیصلہ کرنا ہے۔ یہ فیصلہ انہیں نظر بند کرنے والوں کے بارے میں ہو گا اور اس فیصلے کا وقت بھی قریب ہے۔