طالبِ علم تو میں اب بھی ہوں لیکن باقاعدہ طالب علمی کے زمانہ میں ۔ ہپناٹزم کی کتابیں پڑیں اور ماہرینِ فن سے استفادہ بھی کیا ۔ ہوا یوں کہ سکول کے زمانہ میں معمول بنا مگر عامل مجھے سُلانے میں کامیاب نہ ہو سکا اور اُس نے مجھے بعد میں ملنے کا کہا ۔ جب میں اُسے ملا تو اُسں نے کہا “تمہاری قوتِ ارادی بہت مضبوط ہے ۔ تم دوسرے کے زیرِ اثر آنے کی بجائے اپنی عقل سے فیصلہ کرتے ہو”۔ دراصل میں ٹھہرا “جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں” میں یقین رکھنے والا ۔ پھر میرے سوالات کے جواب میں اُنہوں نے بتایا “کچھ ایسے عمل ہوتے ہیں جو کسی کو بہت عزیز ہوتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی عمل کے خلاف مطالبہ کیا جائے تو معمول پر ہپناٹزم کا اثر ایکدم ختم ہو جاتا ہے”۔ مثال یہ دی کہ اگر ایک آدمی ننگا ہونا بہت بُرا سمجھتا ہے ۔ اُسے ہپناٹئز کر کے سُلا دیا جائے اور شلوار یا پتلون اُتارنے کا کہا جائے تو وہ ایک دم اُٹھ کر کھڑا ہو جائے گا”۔
لال مسجد ۔ جامعہ حفصہ اور قبائلی علاقوں میں حکومت کی طرف سے ناجائز قتلِ عام کے نتیجہ میں لگتا ہے کہ حکومتی اہلکاروں کا بھی ہپناٹزم اُترنے لگا ہے ۔ کچھ حکومتی اہلکار پہلے اسمبلی سے باہر بول چکے ہیں اور اب ملاحظہ ہو اسمبلی کے اندر کی تازہ کاروائی ۔
خبر ۔ حکومتی رکن قومی اسمبلی اور دفاع کے پارلیمانی سیکرٹری میجر [ریٹائرڈ] تنویر حسین نے کہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں مقیم چینی باشندوں کے قتل میں امریکا اور بھارت کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ تنویر حسین نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد اختیارکی گئی پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور امریکا کے ساتھ یہ جھوٹا ”معاشقہ“ ختم کیا جائے اور ایسی امداد جس سے ہم اپنی نظروں سے گر جائیں تھوک دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے ساتھ برسر پیکار طالبان کی ہمارے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے، وہ امریکہ کے دشمن ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چینی باشندوں کو کوئی پاکستانی نہیں مار سکتا۔ حکومتی رکن تنویر حسین سیّد نے مزید کہاکہ کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے بھارت اب امریکا کے ساتھ گٹھ جوڑ کررہا ہے تو ہمیں بھی جہادیوں کو کھُلی چھوٹ دینی چاہئے اور امریکا کو سبق سکھانے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان ایران، چین اور روس سے روابط بڑھائے۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے لہٰذا اس کی پالیسی کا منبع قرآن کو ہونا چاہئے اور وزیرستان سے لے کر کشمیر تک ایک ہی آواز ہے اور وقت کی بھی یہی آواز ہے ”الجہاد، الجہاد، الجہاد“
انکل جی روشن خیالی کا بھوت ٹھس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔اور۔۔۔۔۔۔۔اگر یہ کہا جائے کہ عقل ٹھکانے پر آرہی ہے تو بھی بے جا نہ ہو گاویسے آپ تجزیہ بھی کیا خوب ہے کہ حکوتی اہلکاروں کا ہیپناٹیزم اترنے لگا ہے بہرحال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکیم خالد میجر سید(ر)تنویر حسین گیلانی کو سلام پیش کرتا ہے کیوں کہ انہوں نے اٹھانوے فیصد پاکستانی عوام کے خیالات کی بھر پور نمائندگی کی ہے۔
محترم انکل جی
السلامُ عليکُم
اُميد ہے انکل آپ بخير ہوں گے آپ کے کالم باقاعدگی سے تو پڑھ رہی ہُوں ليکن کُچھ بھی لکھنے کو دل آمادہ نہيں ہو رہا ميری امّی کہا کرتی تھيں مامُوں کا مطلب ماں کا مُنہ ہوتا ہے اور پنجابي ميں خالہ کو ماسي اس لۓ کہتے ہيں کہ اُس کا مطلب ہوتا ہے ماں سی تو ميری ماں سی ان دنوں شديد بيمار ہيں کُچھ سمجھ ميں نہيں آيا تو سوچا آپ کو بھی دُعا کے لۓ کہُوں اللہ تعاليٰ اُنہيں صحت کاملہ و عاجلہ عطا کرے آمين
آپ کے اس بلاگ کا صرف يہی جواب ہے
ذرا نم ہو تو يہ مٹی بڑی زرخيز ہے ساقی
بس ذرا تطہير قلب کی ضرُورت ہے اور ايمان کو تازہ بتازہ رکھنا ہوگا ورنہ جو حالات ہيں وہ آج کے عاملوں کو بہت آسانی سے معمُول بنا سکتی ہيں جبکہ حرارت ايمانی کا تعلُق صرف جزبات سے ہی نہيں جوڑا جا سکتا دُعا ہے کہ ايمان کے يہ شعلے فروزاں رہيں
اپنا خيال رکھئے گا اور دُعاؤں ميں ياد رکھئے گا
اللہ حافظ
شاہدہ اکرم
شاہدہ اکرم صاحبہ
اللہ تعالٰی آپ کی خالہ کو جلد صحتِ کاملہ عطا فرمائے ۔ آمین ۔
کسی اخبار نے اس پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے “نزع کے عالم میں کلمہ پڑھنے کی کوشش”۔
ربط یہاں ملاحظہ کیجیے
http://www.jasarat.com/details.php?category=nation&date=08-08-2007