شریف برادران اور حکومت کے مابین ایسی کوئی”ڈیل“موجود نہیں جس کے تحت شریف برادران پر کسی معینہ مدت تک سیاست میں حصہ لینے پرپابندی، ان کی واپسی کے ٹائم فریم یا انکو جلاوطن کرنے کی بات کی گئی ہو۔ ایک چار صفحات کی دستاویز جس پر نوازشریف، شہباز شریف، عباس شریف اورحسین نواز شریف نے دستخط کئے تھے کے سوا ایسا کوئی کاغذ موجود نہیں جس پرشریف برادران نے دستخط کئے ہوں اور جس میں دونوں فریقوں کے مابین کسی معاہدے کی عکاسی ہوتی ہو، لیکن ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سعودی حکومت نے ایک ثالث سعیدالحریری، جو رفیق الحریری کے بھائی ہیں، کے توسط سے شریف برادران کو راضی کیا کہ وہ دستاویز پر دستخط کر دیں۔ تاہم اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اس سلسلے میں جدّہ یا اسلام آباد کے مابین کوئی معاہدہ ہوا ہو۔ رفیق تارڑ جو جون 2001ء تک صدر تھے، سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ شریف خاندان کی جانب سے چارصفحات کی درخواست کے علاوہ حکومت کے پاس اورکوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ جدّہ اور اسلام آباد کے مابین کسی معاہدے پردستخط ہوئے تھے انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے تحت کسی بیرونی ریاست سے معاہدے کیلئے ضروری ہے کہ صدر اس کی توثیق کرے اور انہوں نے ایسے کسی معاہدے کی توثیق نہیں کی۔
جب حکومتی ترجمان اور وزیراطلاعات محمدعلی درانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ ان کے پاس اس سلسلے میں کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ ایک ممتاز وفاقی وزیر نے جو میڈیا میں ”ڈیل“ کا دفاع کرتے رہے ہیں، اس نمائندے کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے شریف خاندان اورحکومت اور اسلام آباد یاجدّہ کے مابین کوئی معاہدہ نہیں دیکھاحتیٰ کہ ان کوچار صفحات کی دستاویز کے مندرجات کا بھی کوئی علم نہیں۔
صدر کے نام تحریرکی گئی متذکرہ چارصفحات کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نمبر ایک (نوازشریف) پر چار دیگر افراد کے ہمراہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 109۔ 120 بی۔ 121 اے۔ 123۔ 212۔ 324۔ 365۔ 402 بی اور انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 6/7 کے تحت انسدادِ دہشتگردی عدالت نمبر 1 ۔ کراچی میں مقدمہ چلایا گیا تھا، درخواست گزار نمبر ایک کے شریک ملزمان کو بری کر دیا گیا لیکن درخواست گزار نمبر ایک کو دفعہ 402 بی کے تحت عمرقید بامشقت۔ 5 لاکھ روپے جرمانہ اور تمام جائیداد کی ضبطی کی سزا دی گئی ۔ انسدادِ دہشتگردی کی دفعہ 7 کے تحت عمرقید بامشقت۔ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی ضبطی جس کی مالیت 50 کروڑ روپیہ تک ہو کی سزا دی گئی۔ اس کے علاوہ نیشنل اکاؤنٹی بلیٹی بیورو نے اٹک قلعہ میں 14 سال قید با مشقت۔ 2 کروڑ روپے جرمانہ اور حکومت پاکستان کے کسی بھی سطح کے عہدے کیلئے 21 سال تک منتخب ہونے یا کام کرنے کے لئے نااہل قرار دیا تھا، اوریہ کہ اب درخواست گزار نمبر ایک کو صحت کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ لہٰذا درخواست گزار نمبر ایک کی مندرجہ بالا گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے اوریہ کہ درخواست گزار کے خلاف ماضی کے کسی مبینہ طرز عمل پر عدالتی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
اس درخواست پر 9 دسمبر 2000ء کو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو سیکرٹریٹ نے چیف ایگزیکٹو ۔ چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کے دستخط سے صدرکو ایک سفارش تحریرکی جس کا عنوان ’گرانٹ آف پارڈن‘ تھا اور صدر نے اس پر10 دسمبر 2000ء کو ’منظور‘ اور ‘سزائیں معاف کی جاتی ہیں’ تحریرکرنے کے بعد اپنے دستخط کئے۔ اور اُسی رات شریف خاندان سعودی عرب پرواز کرگیا۔
تبصرہ
مجھے 12 اکتوبر 1999 کو شام 5:55 بجے جی 9 مرکز میں ایک شخص ملا جو پریشان لگ رہا تھا ۔ اُس نے بتایا “میں وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے آ رہا ہوں ۔ فوج وزیرِ اعظم ہاؤس کے اندر داخل ہو گئی ہے ۔ اللہ خیر کرے نواز شریف کی”۔ اُسے وزیرِاعظم ہاؤس سے وہاں پہنچنے اور کار پارک کرنے میں کم از کم 10 منٹ لگے ہوں گے ۔ نواز شریف ۔ شہباز شریف ۔ اُن کے قریبی ساتھیوں اور اسی دن بنائے گئے نئے چیف آف آرمی سٹاف ضیاء الدین بٹ کو گرفتار کرنے کے بعد شام 7 بجے پاکستان ریڈیو ۔ پی ٹی وی ۔ پی ٹی سی ایل کے ٹیلیفون اور سارے موبائل فون بند کر دئیے گئے اور اس کے بعد بجلی بھی بند کردی گئی تھی [کم از کم اسلام آباد اور راولپنڈی میں] ۔
جنرل پرویز مشرف جس ہوائی جہاز میں سری لنکا سے واپس آ رہا تھا وہ پاکستان کی فضا میں 7:55 پر داخل ہوا ۔ اور کراچی کی ایئرپورٹ کے اُوپر 8:15 پر پہنچا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پرویز مشرف کے ہوائی جہاز کو اُترنے سے نواز شریف یا اُس کے کسی آدمی نے نہیں روکا تھا کیونکہ وہ اور شہباز شریف 6:30 بجے گرفتار ہو چکے تھے اور 7 بجے تک پورے پاکستان پر فوج کا قبضہ مکمل ہو چکا تھا ۔ چنانچہ متذکرہ بالا مقدمے اور ان کے نتیجہ میں دی جانے والی سزائیں سو فیصد غلط تھیں ۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بغاوت کر کے نواز شریف کی منتخب حکومت کو ختم کیا اور اس دوران ملک سے باہر اسلئے چلا گیا تھا کہ اگر بغاوت ناکام ہو گئی تو وہ پاکستان واپس نہیں آئے گا