سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صَدَقَ اللہُ العَظِیم
ترجمہ ۔ تیری ذات پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو تُو نے ہمیں سِکھایا ہے، بیشک تُو ہی جاننے والا حکمت والا ہے
میں نہ تو عالِمِ دین ہوں اور نہ ہی ایسا سوچ سکتا ہوں لیکن اللہ کے فضل ہے کہ جو بات میری سمجھ میں آتی ہے اس کو لکھنے سے پہلے میں حتٰی الوسع تحقیق کرنے کا عادی ہوں ۔ اصولِ فقہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن شریف سے رجوع کیا جائے ۔ جو چیز قرآن شریف میں نہ ملے اسے سنّت میں تلاش کیا جائے ۔ جب کوئی چیز قرآن اور سنّت میں نہ ملے تو اصحابہ مقربین میں تلاش کیا جائے ۔ اگر اصحابہ مقربین کے قول و فعل سے بھی وہ چیز نہ ملے تو پھر علماء دین کا اجماع کیا جائے ۔ جو حُکم قرآن شریف سے مل جائے اسے پھر کہیں اور ڈھونڈنے کی حاجت نہیں رہتی اور جو حُکم قرآن شریف میں واضح ہو اس پر کسی انسان کی رائے مقدم نہیں ہو سکتی ۔ اختلاف رائے انسان کا حق صرور ہے لیکن اختلاف کی بنیاد علم کا حصول ہو تو صحتمند بحث ہوتی ہے ورنہ فضول تکرار ۔ ملاحظہ ہو کہ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے کیا فرمایا ہے ۔
سُورة ۔ 2 ۔ الْبَقَرَة ۔ آیة ۔ 221
وَلاَ تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلاَ تُنكِحُواْ الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُواْ َلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُوْلَـئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللّهُ يَدْعُوَ إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
ترجمہ ۔ اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بیشک مسلمان لونڈی [آزاد] مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے، اور [مسلمان عورتوں کا] مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقیناً مشرک مرد سے مؤمن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے، وہ [کافر اور مشرک] دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اﷲ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
سُورة ۔ 5 ۔ الْمَآئِدَة ۔ آیة ۔ 5
الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ ۔ آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ جنہیں کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، [مگر شرط] یہ کہ تم [انہیں] قیدِ نکاح میں لانے والے بنو نہ کہ اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص َحکامِ الٰہی پرایمان [لانے] سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا
مندرجہ بالا پہلی آیت کے مطابق مسلمان مردوں کا نکاح مشرک عورتوں سے اور مسلمان عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے ممنوع قرار دے دیا گیا جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں ۔ دوسری آیت کے مطابق صرف مردوں کو اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی بشرطیکہ وہ پاکدامن ہوں لیکن پہلی آیت والی شرط بہرصورت موجود رہے گی یعنی وہ مشرک نہ ہوں اور اگر تھیں تو نکاح سے قبل مسلمان ہو جائیں ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان مرد اہل کتاب عورت سے شادی کرسکتا ہے مگر مسلمان عورت اہل کتاب مرد کیساتھ نکاح نہیں کرسکتی۔
ایک سوال پوچھنا تھا۔ مغرب میں عرب مسلمانوں کے نزدیک میکڈونلڈ وغیرہ سے چکن کھانا حلال سمجھا جاتا ہے اور ان کے سارے عالم اسے حلال سمجھتے ہیں مگر پاکستانی انڈین مسلمان اسے حلال نہیں سمجھتے۔ ذبیحہ کے بارے میں اگر آپ کچھ تحقیق کرکے لکھ سکیں تو عنایت ہوگی۔ یعنی ذبیحہ کا شریعت ميں کیا حکم ہے اور کیا واقعی قرآن و حدیث میں ذبیحہ کی خاص ترکیب بتائی گئ ہے۔ دراصل عربی علما کے نزدیک غیرمسلموں کا وہ گوشت حلال ہے جو اللہ نے حلال قرار دیا ہے چاہے انہوں نے اسے جس طریقے سے بھی ذبح کیا ہو۔ کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ غیرمسلموں کا حلال قرار دیا ہوا جانور بسمہ اللہ پڑھ کر کھانے سے ذبیحہ کی شرط پوری کردیتا ہے۔
آپ کو معلوم ہی ہے کہ مغرب میں جانور اور پرندے مسلمانوں کے ذبیحہ والے طریقے سے ذبح نہیں کئے جاتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عربی علما کا یہ استدلال ٹھیک ہے کہ نہیں۔
السلام علیکم،۔
یہ بات تو درست ہے کہ کٔی عربی لوگ مکڈونلڈ وغیرہ کو حلال سمجھتے ہیں اور اس کے لیے وہ عرب کے علماء کا ریفرنس بھی دیتے ہیں۔ ایک دو برس قبل مجھے بھی یہ جاننے کا اشتیاق ہوا کہ عرب علماء کا اس بارے میں فتوٰی کیا ہے۔ زیادہ تر عربی لوگ شیخ صالح بن عثیمین کا نام لے کر کہتے ہیں کہ انہوں نے مکڈونلڈ وغیرہ کو جأیز قرار دیا ہے۔ یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ علماء اور خاص طور پر وہ جو شمالی امریکہ میں نہیں رہتے وہ کسی بھی سوال کا جواب صرف اس معلومات کی بنا پر دے سکتے ہیں جو ان کو سوال کرنے والے نے مہیا کیں۔ اب اگر سوال کرنے والا ایسی تصویر کشی کرے کے کھانے کا گوشت بالکل مہیا نہیں ہے اور کؤی صورت نہیں ہے جس سے حلال گوشت حاصل کیا جا سکے تو اس کا جواب بھی ویسا ہی آٔیگا۔
عرب کے نامور علماء جن میں شیخ صالح بن عثیمین کے علاوہ صالح الفوزان، صالح المنجد ، شیخ حامد العلی اور کٔی دوسرے شامل ہیں ان کے نزدیک ذبیحہ کا طریقہ کار وہی ہے جو برصغیر کے علماء کے نزدیک ہے۔ اب جو کہا جاتا ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تسمیہ کی شرط پوری ہو جاتی ہے، یہ میں نے بلا واسطہ کسی عربی عالم سے نہیں سنا۔ ہاں رسول اللہ کی ایک حدیث کا عموماً حوالہ دیا جاتا ہے کہ کچھ نٔے صحابی رسول اللہ کے پاس آٔے اور عرض کیا کہ ہمیں کچھ اعرابی ، جنہوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا ، نے گوشت بھیجا ہے تو کیا ہم اس کو کھا لیں یا پھینک دیں۔ اس پر رسول اللہ نے کہا کہ بسم اللہ پڑھو اور کھا لو۔
علامہ ابن حجر اسقلانی اس حدیت کی تشریح میں کہتے ہیں کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حرام گوشت کو حلال کر دیا گیا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ اعرابی مسلمان ہیں اس لیے ان پر شک کرنے کی گنجأیش نہیں ہے۔ صحابیوں کو شک تھا کہ یہ اعرابی نٔے مسلمان ہوے ہیں اور انہیں شاید ذبہیحہ کا طریقہ کار نہ آتا ہو۔ چنانچہ رسول اللہ نے فرمایا کہ بسم اللہ پڑھو اور کھا لو۔
اس کے علاوہ ذبیحہ کی جو شرأیط شریعت میں ہیں وہ ایک بیان میں بہت اچھی طرح سے مولانا الیاس بیان کرتے ہیں۔ اس بیان کا حوالہ میں دے دیتا ہوں جو ہماری فریڈریکٹن کی مسجد میں دیا گیا۔ مولانا الیاس ریجأینہ، سسکاچوان کی مسجد کے امام ہیں۔
http://www.fianb.com/Downloads/3rdHidayaForum/Shaykh%20Ilyas%20-%20Dec%202206%20-%20Zabeeha%20In%20Islam.mp3
اس بیان میں جو ایک خاص چیز بیان کی گٔی وہ یہ تھی کہ جو بھی شرأیط ہیں ذبیحہ کی، ان کے کرنے والے کا مسلمان ہونا لازمی نہیں ہے بلکہ یہ شرأیط مسلمانوں کے علاوہ اہل الکتاب پر بھی صادق آتی ہیں۔ یعنی اگر ایک اہل کتاب بھی ان شرأیط کو پورا کرے تو شریعت کے حساب سے گوشت حلال تصور ہو گا۔ چاہے وہ اہل کتاب اللہ کے بارے میں صحیح عقیدہ رکھے یا نہ رکھے۔ اس نقطے پر میری مفتی ابراہیم ڈیسأی سے بھی بات ہؤی اور انھوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ۔
ذبیحہ کے لیے تین شرأیط کا ہونا لازمی ہے:۔
ایک یہ کہ ذبح کرتے وقت چار میں سے تین شہ رگ کٹنی چاہییں۔ امام شافعی کے مطابق سانس کی نالی بھی کٹنی لازمی ہے۔
دوسرا یہ کہ اللہ کا نام لینا ذبح کے وقت لازمی ہے۔ تسمیہ کے بغیر جانور حرام ہو گا ہاں اگر بھولے سے نام لینا رہ گیا ہو تو جانور حلال ہو گا۔
تیسرا یہ کہ ذبح کرنے والا یا تو مسلمان ہو یا اہل الکتاب میں سے ہو۔
ان تمام شرأیط کے حوالہ جات قرآن سنت یا أیمہ اربعہ کے اجتہاد میں موجود ہیں۔
اگر ضرورت پڑیں تو وہ بھی پوسٹ کر دوں گا انشاءاللہ۔
والسلام
Ajmal bhai, the comments have digressed to zdbiha but I am glad you placed the two ayat together.
My intention was not to start discussion of What is meant by ahl-i-kitab but generally Jews and Christians are the ones considered so and no other.
Please see Aya 156 of Sura Al-An’am where the two, Yehud and Nasara are considered (and no others therefore will be) ahl-ekitab,
Yehud and Nasara are translated as Jews and Christians. There is no doubt that Qur’an declares them Mushrik yet they are given that title and treated as different from other mushriks so much so that Qur’an lets you as Muslim marry the women from them.
I dont wish to drag it further but the story of Umar RA sending order to the newly appointed governer Huzdaifa to divorce the Jew woman is well-known.
My point was that let the persons make their decision. Qur’an does not mention in the Aya they must not be Mushrik ahl-el-kitab.
Incidentally I follow the same teachings that you follow.
The two ayat are very clear by themselves anyway.
افضل صاحب
آیت سے یہی واضح ہوتا ہے کہ اجازت صرف مرد کو دھ گئی ۔ کچھ اور بات بھی کی گئی ہے جس سے خاص ماحول کا اشارہ ملتا ہے یعنی کھُلی یا پوشیدہ بے راہروی نہ کرو ۔ مزید مطالع کے بغیر میں اپنے آپ کو کچھ لکھنے کے قابل نہیں پاتا ۔
یہ مسئلہ تو نکاح سے شروع ہوا تھا ۔ ۔ ۔ مرغی یا گوشت میکڈونلڈ میں ہو یا نہ ہو شرطِ حلال تو قائم رہتی ہے جو کہ آیت میں واضح ہے ۔ بغیر تفصیلی مطالعہ میں سوائے اسکے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے بزرگوں سے سُنا تھا کہ یہودی اُن دنوں [ساٹھ سال سے زائد پہلے] اللہ کا نام لے کر شاہ رگ کاٹتے تھے ۔
ابو حلیمہ صاحب ۔ السلام علیکم و رحمة اللہ
بات اہلِ کتاب سے شادی کی ہو رہی تھی ۔ موضوع بدل گیا ۔ خیر کوئی بات نہیں ۔ آپ نے کافی تفصیل بیان کی ۔ جزاک اللہ خیر ۔ شیطان نے انسان کو بہکانے کا حلف اٹھا رکھا سوائے اس کے جو اللہ میں کامل یقین رکھے ۔ بہت سے لوگ پہلے اپنا مقصد سامنے رکھ کر اس کیلئے جواز ڈھونڈتے ہیں ۔
یہ چار میں سے تین شاہرگ کاٹنے والے مسئلہ کچھ مشکل ہے ۔ جہاں تک میرا علم ہے کہ شاہرگ کاٹنا ضروری ہے اور ایک دم سے پوری گردن نہیں کاٹنا ۔ ایک دم سے پوری گردن کاٹی جائے تو خون بہنا رُک جاتا ہے ۔
اجمل صاحب! اہلِ کتاب سے شادی والا موضوع بہت اہمیت کا حامل ہے اور ماشاء اللہ آپ نے بہت جامع تحریر کیا ہے تاہم اس سلسلہ میں مشرک والی شرط کی احتیاط بھی لازم ہے۔ مسلمان مرد کو اہلِ کتاب عورت سے شادی کی اجازت تو دی گئی ہے لیکن یہ شرط ہے کہ وہ اہلِ کتاب عورت بھی مشرک نہ ہو۔ موجودہ دور میں عیسائیوں کی اکثریت حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتی ہے (نعوذ باللہ) اور یہودیوں کے کچھ فرقے حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے ہیں اور یہ صریح شرک ہے۔ سو ایسے عقائد رکھنے والے اہلِ کتاب سے شادی کی اجازت نہ ہوگی۔ (واللہ اعلم)۔
میرے خیال میں مسلمان کی اہل کتاب سے شادی کے حکم کو بھی موجودہ دور کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ وہ دور اور تھا جب عورت مرد کے رحم و کرم پر ہوتی تھی اور سفر بھی بہت زیادہ مشکل ہوتے تھے، آج تو مسلمان مرد ناروے اور کینیڈا کے شمالی علاقوں تک میں جا کر “اہل کتاب” خواتین سے شادیاں رچا رہے ہیں اور پھر ان ممالک کے پاسپورٹ حاصل کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کہ جب عورت جس معاشرے میں رہتی ہے وہ مکمل طور پر غیر اسلامی معاشرہ ہے اور وہ عورت بھی اللہ پر ایمان نہیں رکھتی، اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ بچوں کی صحیح خطوط پر تربیت کرے گی؟۔ ہاں اللہ اگر کسی کو ہدایت دے تو الگ بات لیکن عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ باہر ممالک میں جا کر شادی کرنے والوں کے بچے والدہ کے دین پر ہی قائم رہتے ہیں اگر وہ اپنے ظاہری طور پر اپنے والد کے دین پر قائم بھی رہیں تب بھی ان کے بنیادی ایمانی عقائد کمزور ہوتے ہیں۔ ایک واضح مثال یہ لے لیں کہ کیا عمران خان کے بچے اپنی والدہ جمائما خان سے اسلام کے بنیادی عقائد سیکھیں گے؟
میرے خیال میں موجودہ دور میں تو مرد کی بھی کسی غیر مسلم خاتون سے شادی درست فیصلہ نہیں قرار دیا جا سکتا کجا یہ کہ مسلم عورت کی شادی کسی غیر مسلم کے ساتھ شادی کے ناقص و فضول دلائل پیش کیے جائے۔
راہبر صاحب
میں آپ کے خیال سے متفق ہوں ۔
راہبر آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے حضرت محمد کے زمانے میں عیسائی حضرت عیسٰی کو خدا کا بیٹا نہیں سمجھتے تھے جبکہ قراآن اور تاریخ سے واضح ہے کہ عیسائی انہیں خدا کا بیٹا مانتے تھے۔ اس کے باوجود خدا نے قرآن میں یہ اجازت دی۔
دوسری بات عزیر والی تو اس کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ ویسے میں آج تک کسی یہودی سے نہیں ملا جو حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا مانتا ہو۔
زکریا بیٹے
یہ صحیح ہے کہ یہ سب علم ہمیں قرآن شریف سے ہی ملا ۔ رہا شرک تو صرف کسی کو اللہ کا بیٹا کہنے کے علاوہ اور بھی کئی عوامل شرک ہیں ۔
میں نے زکریا بھائی کے اعتراض پر مختلف جگہ سے معلوم کرنے کی کوشش کی۔ ایک جگہ سے یہ پتا چلا کہ جن مشرکین سے نکاح کی ممانعت ہے، وہ نرے مشرک ہیں۔ اور یہ اہلِ کتاب اگرچہ مشرک ہیں لیکن نرے مشرک نہیں اور ان سے نکاح روا رکھا گیا۔
اس نکتہ کی میں نے کئی دوسری جگہوں سے تصدیق کی کوشش کی لیکن اکثریت اس مسئلہ سے ناواقف ہے۔
راہبر صاحب
مشرک تو مشرک ہی ہوتا ہے خواہ وہ اہلِ کتاب ہو ۔ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا بھی اگر شرک میں ملوّث ہو تو وہ مشرک ہو گا ۔ مثال کے طور پر سجدہ صرف اللہ کے حضور جائز ہے اور کسی دوسرے کے آگے سجدہ کرنا شرک ہے ۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے لیکن کسی انسان کی قبر کو سجدہ کرے تو وہ مشرک ہو گیا ۔ پھر جب تک وہ دل سے توبہ نہ کرے مسلمان نہیں ہو گا ۔ اہلِ کتاب کا مطلب ہے کہ جو کتاب ان پر اتاری گئی اس کو مانیں یعنی اس میں لکھے پر عمل کریں ۔
السلام علیکم،۔
معذرت کے میں اس گفتگو میں پہلے حصہ نہ لے سکا۔ دو دن کے لیے میں شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔
ذبیحہ میں جو میں نے کہا کے چار میں سے تین رگیں کاٹی جأیں، یہ امام ابو حنیفہ کا اجتہاد ہے۔ دوسرے فقہ میں ہے کہ زیادہ تر رگیں کٹیں اور امام شافعی کے نزدیک اگر سانس کی نالی نہ کاٹی گٔی تو جانور حلال نہ ہو گا۔
اس بات پر تو چاروں مذاہب متفق ہیں کہ پوری گردن کاٹنے سے جانور حرام ہو جاتا ہے۔
ابو حلیمہ صاحب ۔ السلام علیکم و رحمة اللہ
معذرت کہ میں نے وضاحت نہ کی ۔ میں نے اپنی زندگی میں کم از کم بیس دُنبے اور درجنوں پرندے ذبح کئے ہیں کئے ہیں اور تین رگوں کے علاوہ ہوا کی نالی بھی کاٹتا رہا ہوں ۔ دراصل جب تین رگیں چھُری کو اُفقی رکھ کر کاٹی جائیں تو ہوا کی نالی کٹ جاتی ہے ۔ آپ نے فقہ کے لحاظ سے درست کہا تھا ۔ میں نے عام لوگوں اور قصائیوں کو ذبح کرتے دیکھا ہے جو اس بات کا خیال نہیں رکھتے ۔ میں نے اس لحاظ سے مشکل کہا تھا ۔ وجہ دین اور شرع سے ناواقفیت ہے ۔ اب تو دین اسلام کی دشمن حکومت ہمارے سر پر سوار ہے نمعلوم ہماری قوم کا مستقبل کیا ہو گا ۔ اللہ اپنا کرم کرے ۔
السلام علیکم،۔
اللہ تعالٰی ہمارے ملک کو اپنی امان میں رکھے ورنہ ان لوگوں نے تو کؤی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
اللہ تعالٰی ہم سب پر کرم فرمأے۔
آمین
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چا ہیئے کہ عمران خان نے جمائما سے شادی اچھی نیت سے کی تھی اور اُسے مسلمان بھی کیا تھا ۔ سو ہمیں اس بات پر اُسے تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیئے ۔
زیبا نورین صاحبہ
تبصرہ کا شکریہ ۔ اگر شادی کی شرط مسلمان ہونا رکھی گئی ہو یا اسی نیت سے شادی کی گئی ہو تو میرے خیال میں اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیئے
اگر اہل کتاب کی عورتوں میں بھی شرک کی شرط ہوتی تو اللّٰہ تعالیٰ خود ہی اس بات کو واضح کر دیتا لیکن ایسا نہیں ہے اللہ نے کوئی قید نہیں رکھی اور آیت میں صرف یہی ایا ہے “جن کو پہلے کتاب دی گئی” مزید یہ کہ قرآن نے جن سے خطاب کیا ان کیلئے اصطلاح استعمال کی ہے یعنی “اہل کتاب” اور “مشرکین” ان میں سے ایک ایک سے نکاح ممنوع قرار دیا ہے مشرکین سے اور دوسرے گروہ کی پاک دامن عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ہے، اگر اہل کتاب کو مسلمان کر کے ہی نکاح کرنے کا حکم ہوتا تو یہ حکم دینے کی اللّٰہ کو ضرورت ہی نہیں تھی، میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کیونکہ کہ اج تقریباً اکثر مسلمان فرقوں میں شرک موجود ہے تو جب ہم مسلمانوں میں اس بات کا خیال کئے بغیر ان سے نکاح کرتے ہیں تو پھر اہل کتاب سے کیسے کر سکتے ہیں اور کرنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ جب اللّٰہ نے اس کی اجازت دی ہے اور اگر ایسا ہی ہوتا جیسا کسی محترم بھائی نے کہاہے تو پھر صرف عورت سے اجازت نہیں بلکہ مرد سے بھی نکاح کی اجازت ہونی چاہیے تھی کیونکہ اصل مسئلہ تو شرک ہی ہے جس کی بناء پر اہل کتاب کے مردوں سے نکاح کی اجازت نہیں اور مشرکین کے عورت مرد دونوں ممنوع ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ میری بات اپ لوگوں پر واضح ہوگئی ہو
والسلام
محمد عاقب صاحب
میں نے اللہ کا فرمان نقل کیا ہے اور میں اس میں اضافہ یا کمی کی جُراءت نہیں کر سکتا ۔ کوئی اپنی طرف سے جو چاہے کرے اس کیلئے وہ اللہ کو جوابدہ ہیں ۔ جو لوگ کلمہ اللہ اور رسول کا پڑھتے ہیں اور شرک کرتے ہیں اُنہیں کس قانون کے تحت بری قرار دیا جا سکتا ہے ؟ کیا صرف اسلئے سؤر کا گوشت کھانا یا زنا جائز سمجھا جائے کہ کسی دوسرے کلمہ گو نے یہ فعل کیا اور کسی نے اُسے کچھ نہ کہا ؟