اسکول کی ایک معصوم طالبہ ایمان یوسف نجانے کیوں احساس جُرم کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ اسلام آباد کے ایک انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتی ہے۔ اس نے ای میل کے ذریعے مجھے بتایا ہے کہ اسلام آباد میں ایک چینی مساج سینٹر کے خلاف شکایت لے کر وہی مولانا عبدالعزیز کے پاس لال مسجد گئی تھی۔ ایمان لکھتی ہے کہ اس کے ہمراہ اس کی کچھ سہیلیاں بھی تھیں جن کا خیال تھا کہ چینی مساج سینٹر میں غلط کام ہو رہے ہیں اور ان سب نے مولانا عبدالعزیز سے درخواست کی تھی کہ پولیس ان غلط کاموں کو نہیں روکتی تو پھر آپ ہی کچھ کریں۔ ایمان اور اس کی سہیلیوں کی شکایت پر لال مسجد والوں نے مساج سینٹر پر چھاپہ مارا، چینی خواتین کو اغوا کیا، اغواء شدگان کو ایک رات جامعہ حفصہ میں رکھا اور اگلے دن وارننگ دے کر چھوڑ دیا۔
ایمان لکھتی ہے کہ اس واقعے کے کچھ دنوں بعد لال مسجد میں جو کچھ ہوا وہ ناقابل یقین تھا اور شاید یہ سب کچھ اسی کی وجہ سے ہوا، نہ وہ مولانا عبدالعزیز کے پاس جاتی، نہ چینی مساج سینٹر کی شکایت لگاتی، نہ چینی خواتین اغواء ہوتیں اور نہ ہی لال مسجد کے خلاف آپریشن کے حالات پیدا ہوتے۔ آخر میں اس نے لکھا ہے کہ کاش آپریشن کے آخری دن وہ بھی لال مسجد میں ہوتی اور وہ بھی بہت سے دوسروں کے ساتھ اس ظالم دنیا کو چھوڑ کر چلی جاتی۔ ایمان یوسف کے خیالات نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک انگریزی میڈیم اسکول کی معصوم سی طالبہ موت کی خواہش کیوں کر رہی ہے؟
میرے پاس جامعہ حفصہ کی ایک طالبہ کا ایس ایم ایس پیغام بھی محفوظ ہے۔ یہ طالبہ چھ جولائی کو اپنی پرنسپل اُمُ حسّان کے اصرار پر مدرسے سے باہر آ گئی تھی لیکن اب بے چین ہے۔ 16 جولائی کو اس طالبہ نے اپنے پیغام میں کہا ہے”دعا کریں اللہ مجھے شہادت عطا فرمائے، جینے کی کوئی تمنا باقی نہیں رہی ساری خوشیاں ہم سے چھین لی گئیں“۔ 17 جولائی کی رات اسی طالبہ نے ایک اور پیغام میں لکھا ہے ”میرا لہو کل بھی بہہ رہا تھا، میرا لہو اب بھی بہہ رہا ہے، یہی لہو ابتدا تھی میری اور یہی لہو انتہا ہے میری“
سوچنے کی بات ہے کہ یہ طالبہ لہو میں نہانے کی خواہش کیوں رکھتی ہے؟ اس خواہش کے پیچھے جنت میں جانے کی تمنا سے زیادہ مایوسی اور انتقام کا جذبہ ہے۔ اگر طالبات کی یہ سوچ ہے تو نوجوان طلباء کی کیا سوچ ہو گی؟ ان طلباء میں آج کل عبدالرشید غازی کی ایک نظم بہت مقبول ہے۔ غازی نے یہ نظم چند سال قبل بڑے ترنم سے گائی تھی اور اس کی کسیٹیں دینی مدارس کے طلباء و طالبات میں بڑی مقبول ہوئی تھیں۔ اس نظم کا پہلا مصرعہ یہ تھا
”شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں لہو ہمارا بُھلا نہ دینا۔“
آخری دن عبدالرشید غازی نے سہ پہر ساڑھے تین بجے ہمارے صحافی ساتھی عبدالسبوخ سیّد سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ روزے سے ہیں اور افطار شہادت سے کریں گے۔ انہوں نے ایک اور صحافی دوست سے رابطہ کیا اور آخری فرمائش کے طور پر اسے کہا کہ وہ شراب پینا چھوڑ دے۔ آخری وقت میں انہوں نے کسی سے زندگی بچانے کی درخواست نہیں کی بلکہ وہ زیادہ تر اپنے ساتھیوں اور دوستوں سے رابطے کرتے رہے۔ ان کے اکثر ساتھی اور دوست عبدالرشید کی موت کے بعد مایوسی اور انتقام کے جذبے کا شکار ہیں۔ ان کے ایک دوست ندیم حسین نے مجھے لکھا ہے کہ چند سال قبل عبدالرشید غازی نے اپنے بیٹوں ہارون اور حارث کو مارشل آرٹس کی تربیت دلوائی۔ غازی صاحب اپنے بیٹے حارث کی پھرتی دیکھ کرکہتے تھے کہ میں اپنے اس بیٹے کو فوجی کمانڈو بناؤں گا۔ ندیم حسین کہتے ہیں کہ حارث کا باپ انہی فوجی کمانڈوز کے آپریشن میں اپنی جان سے گیا اور جب مجھے اپنے دوست کی شہادت کی خبر ملی تو میرے ذہن میں عبدالرشید غازی کے یہ الفاظ گونجنے لگے کہ ”میرا بیٹا کمانڈو بنے گا“۔ آخر میں انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا واقعی اب حارث فوجی کمانڈو بننا پسند کرے گا؟ اس سوال میں بھی مایوسی ہے۔
آج پاکستانی معاشرے کو بڑھتے ہوئے تشدد اور خون ریزی سے بچانے کے لیے یہ مایوسی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ مایوسی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بے گناہوں اور معصوموں کے خلاف ریاستی طاقت استعمال نہ کی جائے۔ امریکا کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ قبائلی علاقوں میں بمباری کرے ۔ روشن خیالوں اور انتہاپسندوں کی تقسیم ختم کی جائے۔ سب سے بہتر تو یہ ہو گا کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے پاکستان کو علیحدہ کر دیا جائے کیونکہ اس جنگ نے پاکستان کو مزید دہشت گردی اور خود کش حملوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ علماء کے فتوؤں، فلموں اور ڈراموں سے خودکش حملے ختم نہیں ہوں گے۔ یہ خود کش حملے جن پالیسیوں کا ردعمل ہیں اُن پالیسیوں کو ختم کرنا ضروری ہے۔ یہ پالیسیاں اُسی وقت ختم ہو سکتی ہیں جب فیصلے کا اختیار کسی ایک فردکی بجائے عوام کی منتخب اور خود مختار پارلیمنٹ کے پاس آ جائے گا۔ جس ملک کی پارلیمنٹ بے اختیار ہو وہاں قانون و انصاف کی بالادستی قائم نہیں ہو سکتی، جہاں انصاف نہیں ہو گا وہاں مایوسی ختم نہیں ہو گی اور جہاں مایوسی ختم گی نہیں ہو گی وہاں خون کی برساتیں نہیں تھم سکتیں۔