ایک محاورہ سکول کے زمانہ میں پڑھا تھا “ایک نہ اور سو سُکھ” مگر جب ہمارے کمانڈو صدر صاحب کو آدھی رات کے وقت امریکی وزیر کولن پاول کا ٹیلیفون آیا تو پوری قوم کو تڑیاں دینے والا ڈھیر ہو گیا اور سب شرائط بلا چوں و چرا مان لیں ۔ اس وقت محبِ وطن پاکستانیوں نے کہا تھا کہ امریکہ کی بات ماننا نہیں چاہیئے تھی کہ ایک غلط مطالبہ مان لیا جائے تو پھر مطالبے کبھی ختم نہیں ہوتے اور اگر کسی وقت امریکہ کی بات نہ مانی گئی تو وہ پاکستان سے بھی افغانستان جیسا سلوک کرے گا ۔ کچھ تو کہتے تھے کہ افغانستان کے بعد ہر صورت امریکہ کسی نہ کسی بہانے پاکستان پر حملہ کرے گا ۔ حکومت کے اہلکاروں نے ان باتوں پر کان نہ دھرا اور اب وہی کچھ ہو رہا ہے جو کہا گیا تھا ۔ قبائلی علاقہ میں امریکہ نے دینی مدرسوں اور شہری آبادیوں پر کتنے ہی حملے کئے ۔ چند با اپنی خجلت مٹانے کی ناکام کوشش میں حکومت نے یہ حملے اپنے کھاتے میں ڈالے ۔ ملاحظہ ہوں امریکہ کے حوالہ سے تین خبریں
پہلی خبر ۔ امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر امریکی حملہ خارج از امکان نہیں ہے ۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان ٹونی اسنو نے پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے کبھی بھی اس آپشن کو رد نہیں کیا جس میں مزاحمت کاروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان سے جب پوچھا گیا کہ ایسی کارروائی سے پہلے صدر بش پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف سے کارروائی کی اجازت طلب کریں گے تو انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات کو عوامی سطح پر موضوع بحث بنانا مناسب نہیں۔ دوسری جانب امریکی فارن انٹیلی جنس ایڈوائزری بورڈ نے بش انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں القاعدہ جنگجوؤں اور مشتبہ تربیتی کیمپوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا جائے وائٹ ہاؤس کے ترجمان ٹونی اسنو نے کہا کہ صدر پرویزمشرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکاکے اہم اتحادی رہے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی خطرات میں ڈال رکھی ہے۔ یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ طالبان اور القاعدہ نے شمال مغربی علاقوں اور فاٹا میں کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے جس سے حکومت پاکستان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ صدر مشرف کو اب ان علاقوں میں کارروائی کے لئے جارحانہ رویہ اپنانا ہوگا اور وہ مزید فورسز روانہ کرکے اسی رویئے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ امریکی فارن انٹیلی جنس ایڈوائزری بورڈ نے بش انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں القاعدہ جنگجوؤں اور مشتبہ تربیتی کیمپوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا جائے۔ صدر کے سولہ رکنی فارن انٹیلی جنس ایڈوائزری بورڈ کے رکن لی ہملٹن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا امریکی افواج کو افغانستان سے بھاگ کر پاکستان میں داخل ہونے والے القاعدہ جنگجوؤں کی گرفتاری کے اختیارات سونپے جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ امریکاکیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں جانے کے قابل ہو۔
دوسری خبر ۔ ایک پاکستانی بریگیڈیئر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ”اب تمام قبائلی علاقوں میں طالبان کے خفیہ اڈوں کے خلاف ایک فل اسکیل ملٹری آپریشن ہوگا“ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس پاکستانی بریگیڈیئر نے اپنا نام شائع کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پوسٹ نے ایک دوسرے بریگیڈیئر کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان آرمی کو ریاست ہائے متحدہ امریکا سے طالبان کے خلاف فوجی مدد مل رہی ہے۔ امریکا نے پاکستان کو ڈرون [drone] طیارے فراہم کئے ہیں جن کے ذریعے باغیوں کا پتہ چلانے میں مدد ملتی ہے [ نوٹ ۔ ایسا طیارہ لال مسجد کے اندر طالبات اور طلباء کی موجودگی معلوم کرنے کیلئے استعمال کر کے آگ لگانے والے گولے پھینک کر سب کو جلا دیا گیا تھا] ۔ ان بریگیڈیئر صاحب نے بھی اپنا نام ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ یاد رہے کہ اس نامہ نگار کی رپورٹ بدھ کے روز شائع ہوئی تھی جس میں واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کے حوالے سے اس فل اسکیل ملٹری آپریشن کی اطلاع دی گئی تھی اور یہ بھی کہ اس سلسلے میں امریکی ایئرفورس کی مدد شامل ہوگی اور آپریشن کی صورت میں امریکی شاید بمباری بھی کریں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستانی فوجی حکام نے کہا ہے کہ پاکستان اب بھی میانہ رو قبائلی لیڈروں سے مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کرے گا اور یہ کوشش بھی کرے گا کہ یہ میانہ رو لیڈر انتہاپسندوں کا ساتھ دینا چھوڑ دیں۔
تیسری خبر ۔ القاعدہ نے پاکستان، افغانستان سرحد کے ساتھ ساتھ محفوظ اڈے بنا لئے ہیں جہاں سے دہشت گرد نیٹ ورک کے لیڈر امریکہ اور پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عراق میں اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے القاعدہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرزمین پر 9/11کی طرح کا ایک حملہ کرنیوالی ہے۔ یہ انکشاف امریکہ کی سالانہ انٹیلی جنس رپورٹ میں کیا گیا ہے جو منگل کو جاری ہوئی ہے اور اس حوالے سے امریکی ٹی وی ایک جامع رپورٹ منگل کی صبح کو دے چکا ہے۔ رپورٹ کے تجزیئے میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے دوبارہ نمودار ہونے کے موضوع پر بھی بات کی گئی ہے۔ رپورٹ کا دعویٰ ہے کہ القاعدہ دہشت گرد اور طالبان قبائلی علاقوں میں ازسرنو منظم ہوگئے ہیں،جس کے باعث قبائلی علاقوں میں بڑے فوجی آپریشن کا امکان ہے ۔ ایک غیر ملکی سفارتی ذرائع نے رپورٹ کے اجراء سے ایک روز پہلے ”نمائندہ جنگ“ کو بتایا تھا کہ شمالی وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں ایک بڑا ملٹری آپریشن متوقع ہے جس میں امریکی فضائیہ کی بمباری بھی شامل ہوگی۔ ایک اور ذریعہ نے مبینہ طور پر متوقع امریکی بمباری کے لئے ”کارپیٹ بمباری“ کی اصطلاح بھی استعمال کی تھی۔ اس مبینہ متوقع حملے میں گراؤنڈ پر پاکستان آرمی اور دوسری سیکوریٹی فورسز استعمال کی جائیں گی۔
ایک اور غیر ملکی سفارتی ذرائع نے بتایا کہ صدر جنرل پرویز مشرف اب اپنے قریب ترین مشیروں سے بھی مشورہ نہیں کرتے اور اپنے اقدامات کو آخروقت تک خفیہ رکھتے ہیں۔ لال مسجد کے واقعے میں مذاکرات کے دوران اچانک انہوں نے ملٹری ایکشن کا حکم دیا تھا۔ شمالی وزیرستان میں اگرچہ ”مذاکرات“ پر زور دیا جارہا ہے لیکن اس کے ساتھ فوجیں بھی صوبہ سرحد میں جمع ہو رہی ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان امریکا کا مشترکہ آپریشن جولائی کے تیسرے یاآخری ہفتے میں اور یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے وقت کے قرب وجوار میں ہوگا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ القاعدہ آئندہ 2 ماہ میں اہم سیاسی، اقتصادی اورانفراسٹرکچر ٹھکانوں پر حملے کرے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ مالی اور جانی نقصان پہنچایا جاسکے۔ رپورٹ کے مطابق ”القاعدہ روایتی چھوٹے ہتھیاروں اور گھر میں بنائے ہوئے دھماکہ خیز مواد کے استعمال میں مہارت رکھتی ہے اور وہ سیکورٹی رکاوٹوں کو عبور کرنے کی نت نئی ترکیبوں کی بھی ماہر ہے“۔ رپورٹ کے مطابق 9\11کے بعد القاعدہ نے اپنی صلاحیت کے وہ تمام کلیدی عناصر بحال کردیئے ہیں جو امریکی سرزمین پر حملہ کرنے کیلئے ضروری ہیں۔ ان میں اہم ترین چیز پاکستانی قبائلی علاقوں میں محفوظ ٹھکانے اور حملے کرنیوالے نئے لیڈر ہیں، یہ گروپ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا چونکہ امریکی سرزمین پر حملے کی پیش گوئی کی گئی ہے اور اس حملے کی منصوبہ بندی کرنیوالے 9\11 کی طرح اس وقت پاکستانی قبائلی علاقوں میں مبینہ طور پر موجود ہیں۔ لہذا پاکستانی سرزمین پر فوری ملٹری آپریشن کا جواز پیدا ہوگیا ہے اور منطق یہ ہے کہ اگر 9/11کے بعد امریکا نے افغانستان پر شدید بمباری کی تھی تو ایک اور 9/11کو روکنے کیلئے اتنی ہی شدید بمباری کی جائے گی۔ ایک ہفتہ قبل ایک امریکی ٹی وی نے اطلاع دی تھی کہ القاعدہ کا ایک خصوصی حملہ آور گروپ امریکہ پر حملے کیلئے روانہ ہوچکا ہے یا امریکہ میں داخل ہوگیا ہے اور صدر جارج بش نے اس صورتحال پر غور کرنے کیلئے ایک ہنگامی اجلاس بلایا ہے لیکن وہائٹ ہاؤس نے اس خبر کی تردید کردی تھی