کچی عمروں میں یقینا اِن کی آنکھیں بھی خواب دیکھتی ہوں گی ۔ اِن کا دل بھی کبھی اچھے رشتوں کی آس میں دھڑکتا ہو گا ۔ اِن کا بھی عید پر نئے کپڑے سلوانے ۔ ہاتھوں میں حِنا سجانے اور چوڑیاں پہننے کو جی للچاتا ہو گا ۔ لیکن آرزوئیں،خواہشات اور تمنائیں ناکام ہو کر برقعوں کے پیچھے اس طرح جا چھپیں کہ پھر نہ چہرے رہے۔۔ نہ شناخت صرف آوازیں تھیں۔۔ جو اب تک میرے کانوں میں گونجتی ہیں اِنہی میں ایک چھوٹی بچی ۔ یہی کوئی آٹھ دس برس کی ۔ حجاب میں اس طرح ملبوس کی چہرہ کُھلا تھا ۔ گفتگو سے مکمل ناواقفیت کے باوجود مسلسل ہنسے جاتی تھی کہ شاید یہی ۔ مباحثہ ۔ اُس کی تفریح کا سبب بن گیا تھا ۔ “بیٹی آپ کا نام کیا ہے ؟” میرے سوال پر پٹ سے بولی “اسماء ۔ انکل” پیچھے کھڑی اس کی بڑی بہن نے سر پر چپت لگائی”انکل نہیں ۔ بھائی بولو ۔ “خُدا جانے اس میں ہنسنے کی کیا بات تھی کہ چھوٹے قد کے فرشتے نے اس پر بھی قہقہہ لگا کر دہرایا”جی بھائی جان”۔ “آپ کیا کرتی ہیں؟” میں نے ننھی اسماء سے پوچھا ۔ “پڑھتی ہوں”۔ “کیا پڑھتی ہو بیٹا ؟” جواب عقب میں کھڑی بہن نے دیا “حفظ کر رہی ہے بھائی”۔ “اور بھی کچھ پڑھا رہی ہیں؟” میں نے پوچھا ۔ “جی ہاں کہتی ہے بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی” بہن نے جو کہ یہی کچھ پندرہ سولہ برس کی مکمل حجاب میں ملبوس تھی، جواب دیا ۔ “آپ دو بہنیں ہیں؟” میں نے سوال کیا ۔ “جی ہاں بھائی” بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں لیتے ہوئے کہا “تین بھائی گاؤں میں ہیں ۔ ہم بٹہ گرام سے ہیں نا ۔ کھیتی باڑی ہے ہماری”۔
میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کی سلسلے میں موجود تھا۔۔طالبات اور عبدالرشید غازی صاحب سے گفتگو کے بعد میں نے بچیوں کو خُدا حافظ کہہ کر غازی صاحب کے ساتھ اُن کے حجرے کی طرف قدم بڑھایا تو ننھی اسماء پیچھے بھاگتی ہوئی آئی “بھائی جان ۔ آٹوگراف دے دیں”۔ ہانپ رہی تھی “میرا نام اسماء اور باجی کا نام عائشہ ہے”۔ میں نے حسبِ عادت دونوں کیلئے طویل العمری کی دُعا لکھ دی ۔ آگے بڑھا تو ایک اور فرمائش ہوئی”بھائی جان ۔ اپنا موبائل نمبر دے دیں ۔ آپ کو تنگ نہیں کروں گی”۔ نہ جانے کیوں میں نے خلافِ معمول اُس بچی کو اپنا موبائل نمبر دے دیا ۔ اُس کی آنکھیں جیسے چمک اُٹھیں ۔ اسی دوران غازی صاحب نے میرا ہاتھ کھینچا “ڈاکٹر صاحب یہ تو ایسے ہی تنگ کرتی رہے گی”۔ [واپسی پر] دروازے سے باہر قدم رکھتے وہی شیطان کی خالہ اسماء اچھل کر پھر سامنے آ گئی”بھائی جان ۔ میں آپ کوفون نہیں کروں گی ۔ وہ کارڈ باجی کے پاس ختم ہو جاتا ہے نا ۔ ایس ایم ایس کروں گی ۔ جواب دیتے رہیے گا ۔ پلیز بھائی جان”۔ اُس کی آنکھوں میں معصومیت اور انداز میں شرارت کا امتزاج تھا ۔ “اچھا بیٹا ۔ ضرور۔۔۔اللہ حافظ”۔ جاتے جاتے پلٹ کر دیکھا تو بڑی بہن بھی روشندان سے جھانک رہی تھی کہ یہی دونوں بہنوں کی کُل دُنیا تھی ۔
گزرے تین ماہ کے عرصے میں وقفے وقفے سے مجھے ایک گمنام نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوتے رہے ۔ عموماً قرآن شریف کی کسی آیت کا ترجمہ یا کوئی حدیثِ مبارکہ یا پھر کوئی دُعا ۔ رومن اُردو میں ۔ اور آخر میں بھیجنے والے کا نام ۔ “آپ کی چھوٹی بہن اسماء” یہ سچ ہے کہ ابتداء میں تو مجھے یاد ہی نہیں آیا کہ بھیجنے والی شخصیت کون ہے؟ لیکن پھر ایک روز پیغام میں یہ لکھا آیا کہ “آپ دوبارہ جامعہ کب آئیں گے؟” تو مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی چھوٹی نٹ کھٹ ۔ حجاب میں ملبوس بچی ہے ۔ جس سے میں جواب بھیجنے کا وعدہ کر آیا تھا ۔ میں نے فوراً جواب بھیجا “بہت جلد”۔ جواب آیا “شکریہ بھائی جان”
میں اپنے موبائل فون سے پیغام مٹاتا چلا گیا تھا چنانچہ چند روز قبل جب لال مسجداور جامعہ حفصہ پر فوجی کارروائی کا اعلان ہوا تو میں نے بے تابی سے اپنے فون پر اُس بچی کے بھیجے پیغامات تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بد قسمتی سے میں سب مٹا چُکا تھا ۔ اُمید تھی کہ اسماء بڑی بہن کے ساتھ نکل گئی ہو گی لیکن پھر بھی بے چینی سی تھی ۔ کوئی آیت،حدیث،دُعا بھی نہیں آ رہی تھی ۔ اس تصور کے ساتھ خود کو تسلی دی کہ ان حالات میں، جب گھر والے دور گاؤں سے آ کر دونوں کو لے گئے ہوں گے تو افراتفری میں پیغام بھیجنے کا موقع کہاں؟ جب بھی اعلان ہوتا کہ “آج رات کو عسکری کارروائی کا آغاز ہو جائے گا”۔ “فائرنگ،گولہ باری کا سلسلہ شروع”۔ “مزید طالبات نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا”۔ “ابھی اندر بہت سی خواتین اور بچے ہیں”۔ “یرغمال بنا لیا گیا ہے” وغیرہ وغیرہ تو میری نظر اپنے موبائل فون پر اس خواہش کے ساتھ چلی جاتی کہ کاش! وہ پیغام صرف ایک بار پھر آ جائے ۔ میں نے جسے کبھی محفوظ نہ کیا ۔
آخر 8 جولائی کی شب اچانک ایک مختصر ایس ایم ایس موصول ہوا “بھائی جان ۔ کارڈختم ہو گیا ہے ۔ پلیز فون کریں”۔ میں نے اگلے لمحے رابطہ کیا تو میری چھوٹی پیاری اسماء زاروقطار رو رہی تھی “بھائی جان، ڈر لگ رہا ہے ۔ گولیاں چل رہی ہیں ۔ میں مر جاؤں گی”۔ میں نے چلا کر جواب دیا “اپنی بہن سے بات کراؤ”۔ بہن نے فون سنبھال لیا “آپ دونوں فوراً باہر نکلیں ۔ معاملہ خراب ہو رہا ہے ۔ کہیں تو میں کسی سے بات کرتا ہوں کہ آپ دونوں کو حفاظت سے باہر نکالیں”۔ دھماکوں کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔ مجھے احساس ہوا کہ بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں چھپا رکھا ہے لیکن چھوٹی پھر بھی بلک رہی ہے ۔ رو رہی ہے”۔
“بھائی وہ ہمیں کیوں ماریں گے؟ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ۔ وہ بھی کلمہ گو ہیں ۔ اور پھر ہمارا جُرم ہی کیا ہے؟ آپ تو جانتے ہیں بھائی ۔ ہم نے تو صرف باجی شمیم کو سمجھا کر چھوڑ دیا تھا ۔ چینی بہنوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا بھائی ۔ یہ سب ان کی سیاست ہے ۔ ہمیں ڈرا رہے ہیں”۔ بہن پُر اعتماد لہجے میں بولی ۔ “دیکھیں ۔ حالات بُرے ہیں ۔ میں بتا رہا ہوں ۔ آپ فوراً نکل جائیں خدا کیلئے”۔ مجھے احساس ہوا کہ میں گویا اُنہیں حکم دے رہا ہوں ۔ “بھائی ۔ آپ یونہی گھبرا رہے ہیں ۔ غازی صاحب بتا رہے تھے کہ یہ ہمیں جھکانا چاہ رہے ہیں ۔ باہر کچھ بھائی پہرہ بھی دے رہے ہیں ۔ کچھ بھی نہیں ہو گا، آپ دیکھیے گا ۔ اب فوج آ گئی ہے ۔نا ! یہ بدمعاش پولیس والوں کو یہاں سے بھگا دے گی ۔ آپ کو پتہ ہے ۔ فوجی تو کٹر مسلمان ہوتے ہیں ۔ وہ ہمیں کیوں ماریں گے ۔ ہم کوئی مجرم ہیں ۔ کوئی ہندوستانی ہیں ۔ کافر ہیں ۔ کیوں ماریں گے وہ ہمیں !”۔ بہن کا لہجہ پُر اعتماد تھا اور وہ کچھ بھی سُننے کو تیار نہ تھی ۔ “ڈاکٹر بھائی مجھے تو ہنسی آ رہی ہے کہ آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں ۔ آپ کو توپتہ ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے ۔ یہ اسماء تو یونہی زیادہ ڈر گئی ہے”۔ “اور ہاں آپ کہیں ہم بہنوں کا نام نہ لیجئے گا ۔ ایجنسی والے بٹہ گرام میں ہمارے والد،والدہ اور بھائیوں کو پکڑ لیں گے ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا بھائی ۔ وہ ہمیں کبھی نہیں ماریں گے”۔
میں نے دونوں کو دُعاؤں کے ساتھ فون بند کیا اور نمبر محفوظ کر لیا ۔ اگلے روز گزرے کئی گھنٹوں سے مذاکرات کی خبریں آ رہی تھیں اور میں حقیقتاً گُزرے ایک ہفتے سے جاری اس قصے کے خاتمے کی توقع کرتا، ٹی وی پر مذاکرات کو حتمی مراحل میں داخل ہوتا دیکھ رہا تھا کہ احساس ہونے لگا کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے چند شخصیات کو اسلام آباد فون کر کے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ معاملہ بگڑنے کو ہے تو جواباً ان خدشات کو بلا جواز قرار دیا گیا لیکن وہ دُرست ثابت ہوئے اور علماء کے وفد کی ناکامی اور چوہدری شجاعت کی پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی وہ عسکری کارروائی شروع ہو گئی جس کی قوت کے بارے میں، موقع پر موجود ایک سرکاری افسرکا بیان تھا “لگتا ہے پوری بھارتی فوج نے چھوٹے ملک بھوٹان پر چڑھائی کر دی ہے ۔ فائرنگ ۔ دھماکے ۔ گولہ باری ۔ شیلنگ ۔ جاسوس طیارے ۔ گن شپ ہیلی کاپٹرز ۔ خُدا جانے کیا کچھ! اور پھر باقاعدہ آپریشن شروع کر دینے کا اعلان ۔
اس دوران عبد الرشید غازی سے بھی ایک بار ٹی وی پر گفتگو کا موقع ملا ۔ اور پھر پتہ چلا کہ اُن کی والدہ آخری سانسیں لے رہی ہیں ۔ اور تبھی صبح صادق فون پر ایس ایم ایس موصول ہوا “پلیز کال”۔ یہ اسماء تھی ۔ میں نے فوراً رابطہ کیا تو دوسری طرف چیخیں ۔ شور شرابہ ۔ لڑکیوں کی آوازیں “ہیلو۔۔اسماء ۔ بیٹی ! ہیلو”۔ خُدا جانے وہاں کیا ہو رہا تھا ۔ “ہیلو بیٹی آواز سُن رہی ہو ؟” میں پوری قوت سے چیخ رہا تھا “بات کرو کیا ہوا ہے ؟” وہ جملہ آخری سانسوں تک میری سماعتوں میں زندہ رہے گا ۔ ایک بلک بلک کر روتی ہوئی بچی کی رُک رُک کر آتی آواز “باجی مر گئی ہے ۔ مر گئی ہے باجی”۔ اور فون منقطع ہو گیا۔
اسٹوڈیوز سے کال آ رہی تھی کہ میں صورتحال پر تبصرہ کروں لیکن میں بار بار منقطع کال ملانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔ کچھ کہنے یا سُننے کی ہمت نہ تھی ۔ کسی کمانڈو جیسی طاقت، اعجازالحق جیسی دیانت اور طارق عظیم جیسی صداقت نہ ہونے کے باعث مجھے ٹی وی پر گونجتے ہر دھماکے میں بہت سی چیخیں ۔ فائرنگ کے پیچھے بہت سی آہیں اور گولہ باری کے شور میں”بھائی جان ! یہ ہمیں کیوں ماریں گے؟” کی صدائیں سُنائی دے رہی تھیں ۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں دھواں بھر گیا ہو گا ۔ اور باہر فائرنگ ہو رہی ہو گی ۔ بہت سی بچیاں تھیں ۔ فون نہیں مل رہا تھا ۔ پھر عمارت میں آگ لگ گئی ۔ اور میں اسماء کو صرف اُس کی لا تعداد دُعاؤں کے جواب میں صرف ایک الوداعی دُعا دینا چاہتا تھا ۔ ناکام رہا ۔ فجر کی اذانیں گونجنے لگیں تو وضو کرتے ہوئے میں نے تصور کیا کہ وہ جو سیاہ لباس میں ملبوس مجھ سے خواہ مخواہ بحث کر رہی تھیں ۔ اب سفید کفن میں مزید خوبصورت لگتی ہوں گی ! جیسے پریاں۔
قحبہ خانوں کے سر پرستوں کو نوید ہو کہ اب اسلام آباد پُر سکون تو ہو چکا ہے لیکن شاید اُداس بھی ! اور یہ سوال بہت سوں کی طرح ساری عمر میرا بھی پیچھا کرے گا کہ وہ کون تھیں ؟ کہاں چلی گئیں؟
دونوں مرحوم بچیوں سے وعدے کے مطابق اُن کے فرضی نام تحریر کر رہا ہوں ۔ ڈاکڑ شاہد مسعود
پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑھئے