جنگ آن لائین کے مطابق عبدالستار ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی صاحبہ نے کہا کہ لال مسجد کے سانحے میں بے دریغ طاقت کا بے جا استعمال کیا گیا ہے، اگر یہ معاملہ پہلے ہی ہمارے سپرد کردیا جاتا تو ہم بغیر خون کا ایک قطرہ بہائے یہ معاملہ حل کرسکتے تھے، لگتا تھا کہ کوئی نادیدہ قوت تصفیے کی تمام کوششیں ناکام بنا رہی تھی۔ مذاکرات سے قبل بہت بڑے آپریشن کی تیاریاں کرلی گئی تھیں اور فوج نے بڑے پیمانے پر مورچے بنا رکھے تھے۔ بلقیس ایدھی نے کہا کہ تمام تیاریاں میری سمجھ سے بالاتر تھیں۔ لال مسجد کے اندر موجود عبدالرشید غازی سمیت کسی سے براہ راست بات نہیں ہوئی ۔ ہمیں اعجاز الحق سمیت وزراء بتا رہے تھے کہ یہ پیغام آیا ہے اور یہ دھمکی دی گئی ہے ، جب بھی کسی کے موبائل فون کی گھنٹی بجتی تھی وہ برق رفتاری سے فون سننے دور فاصلے پر چلا جاتا تھا۔ سانحہ لال مسجد اسلامی تاریخ کا بدترین سیاہ باب ہے جس میں ایک طرف تو لچک کا مظاہرہ کیا گیا دوسری طرف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایدھی صاحب تو بعد میں پہنچے مگر میں نے فوج اور لال مسجد کے اندر موجود افراد سے چیخ چیخ کر اپیل کی کہ نرمی اختیار کی جائے مگر میری کسی نے بھی نہیں سنی ۔ ایک سوال کے جواب میں بلقیس ایدھی نے کہا کہ مجھے مولانا عبدالرشید دہشت گرد نہیں لگتے۔ دہشت گردوں کی تو صورت ہی علیحدہ ہوتی ہے
عبدالستار ایدھی نے کہا کہ مجھے لگتا تھا کہ مولانا عبدالرشید غازی شاید بے بس ہوں اور یرغمال ہوں مگر یہ محض ہمارا خیال ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی چیزیں پراسرار تھیں، مذاکرات ہورہے تھے اور اخبار نویسوں پر وہاں جانے پر مکمل پابندی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مذاکرات سے قبل ہی یہ فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ آپریشن کرنا ہے اور یہ سب کچھ ختم کردینا ہے اور پھروہی ہوا آپریشن ہوا سب کچھ ختم ہوگیا۔ میں نے میگا فون پر اعلان کیا تھا کہ عبدالرشید غازی اگر سرینڈر کردیں تو ایدھی فاؤنڈیشن کروڑوں روپے خرچ کرکے لال مسجد کا انتظام سنبھالے گی، مگر باہر بھی خوف کی فضا تھی اور ہر طرف مورچے تھے جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔