اسکول کی ایک معصوم طالبہ ایمان یوسف نجانے کیوں احساس جُرم کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ اسلام آباد کے ایک انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتی ہے۔ اس نے ای میل کے ذریعے مجھے بتایا ہے کہ اسلام آباد میں ایک چینی مساج سینٹر کے خلاف شکایت لے کر وہی مولانا عبدالعزیز کے پاس لال مسجد گئی تھی۔ ایمان لکھتی ہے کہ اس کے ہمراہ اس کی کچھ سہیلیاں بھی تھیں جن کا خیال تھا کہ چینی مساج سینٹر میں غلط کام ہو رہے ہیں اور ان سب نے مولانا عبدالعزیز سے درخواست کی تھی کہ پولیس ان غلط کاموں کو نہیں روکتی تو پھر آپ ہی کچھ کریں۔ ایمان اور اس کی سہیلیوں کی شکایت پر لال مسجد والوں نے مساج سینٹر پر چھاپہ مارا، چینی خواتین کو اغوا کیا، اغواء شدگان کو ایک رات جامعہ حفصہ میں رکھا اور اگلے دن وارننگ دے کر چھوڑ دیا۔
ایمان لکھتی ہے کہ اس واقعے کے کچھ دنوں بعد لال مسجد میں جو کچھ ہوا وہ ناقابل یقین تھا اور شاید یہ سب کچھ اسی کی وجہ سے ہوا، نہ وہ مولانا عبدالعزیز کے پاس جاتی، نہ چینی مساج سینٹر کی شکایت لگاتی، نہ چینی خواتین اغواء ہوتیں اور نہ ہی لال مسجد کے خلاف آپریشن کے حالات پیدا ہوتے۔ آخر میں اس نے لکھا ہے کہ کاش آپریشن کے آخری دن وہ بھی لال مسجد میں ہوتی اور وہ بھی بہت سے دوسروں کے ساتھ اس ظالم دنیا کو چھوڑ کر چلی جاتی۔ ایمان یوسف کے خیالات نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک انگریزی میڈیم اسکول کی معصوم سی طالبہ موت کی خواہش کیوں کر رہی ہے؟
میرے پاس جامعہ حفصہ کی ایک طالبہ کا ایس ایم ایس پیغام بھی محفوظ ہے۔ یہ طالبہ چھ جولائی کو اپنی پرنسپل اُمُ حسّان کے اصرار پر مدرسے سے باہر آ گئی تھی لیکن اب بے چین ہے۔ 16 جولائی کو اس طالبہ نے اپنے پیغام میں کہا ہے”دعا کریں اللہ مجھے شہادت عطا فرمائے، جینے کی کوئی تمنا باقی نہیں رہی ساری خوشیاں ہم سے چھین لی گئیں“۔ 17 جولائی کی رات اسی طالبہ نے ایک اور پیغام میں لکھا ہے ”میرا لہو کل بھی بہہ رہا تھا، میرا لہو اب بھی بہہ رہا ہے، یہی لہو ابتدا تھی میری اور یہی لہو انتہا ہے میری“
سوچنے کی بات ہے کہ یہ طالبہ لہو میں نہانے کی خواہش کیوں رکھتی ہے؟ اس خواہش کے پیچھے جنت میں جانے کی تمنا سے زیادہ مایوسی اور انتقام کا جذبہ ہے۔ اگر طالبات کی یہ سوچ ہے تو نوجوان طلباء کی کیا سوچ ہو گی؟ ان طلباء میں آج کل عبدالرشید غازی کی ایک نظم بہت مقبول ہے۔ غازی نے یہ نظم چند سال قبل بڑے ترنم سے گائی تھی اور اس کی کسیٹیں دینی مدارس کے طلباء و طالبات میں بڑی مقبول ہوئی تھیں۔ اس نظم کا پہلا مصرعہ یہ تھا
”شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں لہو ہمارا بُھلا نہ دینا۔“
آخری دن عبدالرشید غازی نے سہ پہر ساڑھے تین بجے ہمارے صحافی ساتھی عبدالسبوخ سیّد سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ روزے سے ہیں اور افطار شہادت سے کریں گے۔ انہوں نے ایک اور صحافی دوست سے رابطہ کیا اور آخری فرمائش کے طور پر اسے کہا کہ وہ شراب پینا چھوڑ دے۔ آخری وقت میں انہوں نے کسی سے زندگی بچانے کی درخواست نہیں کی بلکہ وہ زیادہ تر اپنے ساتھیوں اور دوستوں سے رابطے کرتے رہے۔ ان کے اکثر ساتھی اور دوست عبدالرشید کی موت کے بعد مایوسی اور انتقام کے جذبے کا شکار ہیں۔ ان کے ایک دوست ندیم حسین نے مجھے لکھا ہے کہ چند سال قبل عبدالرشید غازی نے اپنے بیٹوں ہارون اور حارث کو مارشل آرٹس کی تربیت دلوائی۔ غازی صاحب اپنے بیٹے حارث کی پھرتی دیکھ کرکہتے تھے کہ میں اپنے اس بیٹے کو فوجی کمانڈو بناؤں گا۔ ندیم حسین کہتے ہیں کہ حارث کا باپ انہی فوجی کمانڈوز کے آپریشن میں اپنی جان سے گیا اور جب مجھے اپنے دوست کی شہادت کی خبر ملی تو میرے ذہن میں عبدالرشید غازی کے یہ الفاظ گونجنے لگے کہ ”میرا بیٹا کمانڈو بنے گا“۔ آخر میں انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا واقعی اب حارث فوجی کمانڈو بننا پسند کرے گا؟ اس سوال میں بھی مایوسی ہے۔
آج پاکستانی معاشرے کو بڑھتے ہوئے تشدد اور خون ریزی سے بچانے کے لیے یہ مایوسی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ مایوسی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بے گناہوں اور معصوموں کے خلاف ریاستی طاقت استعمال نہ کی جائے۔ امریکا کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ قبائلی علاقوں میں بمباری کرے ۔ روشن خیالوں اور انتہاپسندوں کی تقسیم ختم کی جائے۔ سب سے بہتر تو یہ ہو گا کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے پاکستان کو علیحدہ کر دیا جائے کیونکہ اس جنگ نے پاکستان کو مزید دہشت گردی اور خود کش حملوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ علماء کے فتوؤں، فلموں اور ڈراموں سے خودکش حملے ختم نہیں ہوں گے۔ یہ خود کش حملے جن پالیسیوں کا ردعمل ہیں اُن پالیسیوں کو ختم کرنا ضروری ہے۔ یہ پالیسیاں اُسی وقت ختم ہو سکتی ہیں جب فیصلے کا اختیار کسی ایک فردکی بجائے عوام کی منتخب اور خود مختار پارلیمنٹ کے پاس آ جائے گا۔ جس ملک کی پارلیمنٹ بے اختیار ہو وہاں قانون و انصاف کی بالادستی قائم نہیں ہو سکتی، جہاں انصاف نہیں ہو گا وہاں مایوسی ختم نہیں ہو گی اور جہاں مایوسی ختم گی نہیں ہو گی وہاں خون کی برساتیں نہیں تھم سکتیں۔
یہ کس قسم کے صحافی ہیں؟ پہلے آگ لگاتے ہیں، پھر جلتی پر تیل ڈالتے ہیں جب تباہی ہو چکتی ہے تو ماتم کرنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ سب پہلے کیوں نہیں بولتے۔ اگر یہ اتنے ہی باخبر تھے پہلے حقائق عوام سے سامنے کیوں نہ لائے ؟ اسطرح کے جذباتی کالموں سے جذباتی تسکین تو شاید ہی ہو مزید آگ لگانے کا کام ضرور ہوگا۔۔
راشد کامران صاحب
جس عمل کا مجرم آپ متعلقہ صحافی کو ٹھہرا رہے ہیں اسکے مجرم دراصل آپ خود ہیں ۔ جو کچھ میں لکھتا جا رہا ہوں یہ اب نازل نہیں ہوا یہ سب کچھ متعلقہ ٹی وی پر بتایا گیا ۔ اپنے ذرائع سے حاصل کردہ حقائق کی جھلک میں بھی پیش کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ شائد آپ لوگ جاگ جائیں مگر آپ لوگوں نے حقائق پر آنکھیں اور کان بند کئے ہوئے تھے ۔ جابر حکمران کی مصنوئی خبروں میں آپ کو دلچسپی تھی ۔
کچھ لوگ میری تحاریر کو بودے طریقوں سے چیلنج کرتے رہے ۔ گستاخی معاف ۔ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھئے کہ کہیں آپ بھی ان میں شامل تو نہیں تھے ؟
اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے 1400 سال پہلے ہی ہمیں مطلع کر دیا تھا “یہ کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں لیکن ایمان درحقیقت ان کے دلوں میں نہیں اترا “
“ایمان لکھتی ہے کہ اس کے ہمراہ اس کی کچھ سہیلیاں ”
Aimaan ko kesay maaloom hua kay wahan galt kaam hota hai? Is hud tak to us kee harkat tuhmat lagany main aatee hai. Baherhal jab chaapa para to MMA hee kay du afraad baraamad hui. Ab pakarnay walay bhee molvi aur “maalish” karwanay walay bhee molvi…to kia karay ga qazi..:)
میسناٹُو صاحب
ایمان کو کیسے پتہ چلا یہ آپ ایمان سے پوچھ لیجئے ۔ ویسے اس مساج سنٹر کے متعلق اس کے پڑوس میں رہنے والے سب لوگوں کو شکائت تھی ۔ باقی مساج سینٹر سے ایم ایم اے کے افراد برآمد نہیں ہونے کی خبر من گھڑت تھی ۔ لیکن اگر ایم ایم اے کے بھی ہوتے تو بھی غلط کام غلط ہی ہوتا ہے ۔
اجمل یہ تو مجھے سمجھ نہیں آیا کے میرے جیسے لوگ جو اس وقت روشن خیال فوج اور خود کش بمبار انتہا پسند ملا کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں اور دونوں میں سے کسی کے انتہائی اقدام کے ساتھ قدم ملانے کو تیار نہیں ان کو قصور وار کیوں ٹہرایا جارہا ہے ۔۔ کیا میرا اسلام اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا یا میری آنکھیں اس وقت تک نہیں کھلیں گی جب تک میں لال مسجد والوں کے بیہودہ اور غیر انسانی فعل کی تائید نہ کروں؟ اور صحافیوں کو تجزیہ کرتے وقت جذباتی باتیں ایک حد تک کرنی چاہیں کے رائے عامہ بنانے میں انکا کردار ہوتا ہے ۔۔ اسطرح کی کہانیاں بچوں کے جنگ میں تو اچھی لگتی ہیں ۔۔ لیکن رائے سازی میں احتیاط کی ضرورت ہے ۔۔ قوم مزید حرام موت مرنے والے خود کش شہیدوں کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتی
راشد صاحب آپ خود ایک انتہا پر ہیں اس لیے آپ کو اپنی عینک سے دوسری طرف انتہا ہی نظر آئے گی اور الفاظ کا استعمال آپ کی شائستگی اور متانت کا کھلا ثبوت دے رہا ہے۔ بیہودہ اور غیر انسانی حرکت شاید آپ کی نظر میں ‘معصوم‘ اور بھولی بھالی آنٹی شمیم کو اٹھا لینا اور پھر توبہ کروا کر چھوڑ دینا تھا یا شاید مساج پارلر میں جاری ‘بے ضرر ‘ مالشیں تھیں۔ آپ واقعی کافی پھنسے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کہ کہاں جائیں نہ اسلام چھوٹتا ہے آپ سے نہ شوق دنیا۔
راشد صاحب آپ خود ایک انتہا پر ہیں اس لیے آپ کو اپنی عینک سے دوسری طرف انتہا ہی نظر آئے گی اور الفاظ کا استعمال آپ کی شائستگی اور متانت کا کھلا ثبوت دے رہا ہے۔ بیہودہ اور غیر انسانی حرکت شاید آپ کی نظر میں ‘معصوم‘ اور بھولی بھالی آنٹی شمیم کو اٹھا لینا اور پھر توبہ کروا کر چھوڑ دینا تھا یا شاید مساج پارلر میں جاری ‘بے ضرر ‘ مالشیں تھیں۔ آپ واقعی کافی پھنسے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کہ کہاں جائیں نہ اسلام چھوٹتا ہے آپ سے نہ شوق دنیا۔
قوم مشرف کے لائے ہوئے روشن خیالی کے ایجنڈے کا بوجھ بھی مزید نہیں اٹھا سکتی جو ڈانسنگ کلب اور شراب خانے تو کھولنے میں آگے آگے ہیں اور ملک کی ترقی کے معاملے میں دور دور تک کہیں بھی نہیں۔
محب آنٹی شمیم اور مساج سینٹر سے باہر نکلیں ۔۔ میری نظر میں بیہودہ حرکت ریاست سے مسلح تصادم ہے جو کسی صورت ریاست اور مذہب دونوں کے استحکام میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرتا۔ مرجاؤ یا ماردو نہ رسول اللہ کا طریقہ ہے نہ اسلام کی تعلیمات۔۔۔ کروڑوں مسلمانوں کو خود کش حملوں کی دھمکی دینا اور ملک کے دارلحکومت میں ریاست کے اندر ریاست قائم کردینے کے عمل کو اگر کوئی بیہودہ اور غیر انسانی حرکت نا کہا جائے تو اسکے علاوہ میرے پاس اور کوئی الفاظ نہیں ہیں۔ اگر سنجیدگی اور متانت نام نہاد ملاؤں کو شہید کہنے میں ہے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔
راشد کامران صاحب
پہلے حالات کا صحیح ادراک کیجئے اور حقائق کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا کیجئے ۔ طیش میں آنا اور بغیر ثبوت کے دُشنام طرازی دین اسلام میں تو ممنوع ہے جبکہ آپ نے صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھ لیا ہے اور باقی سب کو جھوٹا ۔ کیا آپ کی تعلیم اور اعلٰی ظرفی نے یہی کچھ آپ کو سکھایا ہے جو آپ لکھ رہے ہیں ۔ اگر آپ نے بہت زیادہ علم حاصل کر لیا ہے تو کیا کسی کو مخاطب کرنے کا طریقہ اس علم میں شامل نہیں تھا ؟
محترم اجمل صاحب ، بات ہی کچھ ایسے موضوع پر چل رہی ہے کہ اس میں تلخی کا عنصر آ ہی جاتا ہے ۔ بہر حال ہم سب کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔
آپ کے بلاگ پر الفاظ کی تندی اور تیزی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر یکطرفہ ٹریفک کا نظام کار فرما ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو آپ کے خیالات سے اتفاق کر کے آپ کا ہم نوا بن جائے اس کے تو سب گناہ معاف ہیں بھلے وہ کسی پر کھلے عام دشنام طرازی کرے یا کسی پر کفر کا فتوی جڑ دیے اور جو آپ کے خیالات سے انحراف کرنے کی غلطی کر بیٹھے اس کی تعلیم اور تربیت کی چھان بین کرنا بھی فرض خیال کیا جاتا ہے۔ میں راشد کامران کو نہیں جانتا اور نہ ہی آج تک میرا ان سے رابطہ ہوا ہے۔ لیکن خدا لگتی بات کہوں تو جو دشنام طرازی کا الزام آپ ان پر لگا رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ سنگین الزامات اور الفاظ کا استعمال اس بلاگ پر آپ کے ہم خیال پہلے ہی کر چکے ہیں اور توجہ دلانے کے باوجود آپ نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ راشد کامران کا تبصرہ پڑھ کر میں سوچ ہی رہا تھا کہ ابھی تک یہ فتوے کی زد میں کیوں نہیں آئے۔ سو وہ بھی آ گئے۔
آپ کے روئیے پر میں اتنا ہی کہوں گا اِنا لِللہ وَ اِنا اِلیہِ رَاجِعُون۔
ساجد صاحب
میں نے کسی کے کردار کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ۔ اگر کوئی میرے روزنامچہ پر کئے گئے تبصرہ پر اظہارِ خیال کرتا ہے تو اس سے میرا کوئی سروکار نہیں ۔ کیونکہ یہ ایک کھُلا روزنامچہ ہے ۔
کوئی معاملہ تلخی سے سُلجھتا نہیں بلکہ بگڑتا ہے اور یہی پرویز مشرف اور اسکے مُہروں نے لال مسجد جامعہ حفصہ کے سلسلہ میں کیا ہے اور سینکڑوں بے قصور طلباء و طالبات کا خون کیا ہے ۔
رہی میرے روزنامچہ پر یک طرفہ ٹریفک تو اگر آپ حق کی بات کرنے اور ناحق کا ساتھ نہ دینے کو یک طرفہ ٹریفک کہتے ہیں تو آپ کو یا کسی اور کو خوش کرنے کی خاطر میں حق کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا ۔ نمعلوم آپ کن لوگوں کو میرا ہمنوا کہہ رہے ہیں ۔ میرے علم میں ابھی تک ایسا کوئی قاری نہیں ہے ۔
آپ مجھ پر الزام لگانے سے پہلے راشد کامران صاحب نے جو تبصرے کئے ہیں وہ ذرا غور سے پڑھ لیجئے ۔ شائد آپ کو کچھ سمجھ آ جائے ۔
اِنُّا لِلِہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون ۔ بے شک ہم اللہ کے لئے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ جانا ہے ۔ نمعلوم آپ نے یہ کس پیرائے میں لکھا ہے ؟
آپ نے لِلّہ غلط لکھا ہے اس کی آئیندہ کیلئے تصحیح کر لیجئے ۔
محترم اجمل صاحب ، کسی کے کردار کا ٹھیکہ کسی نے بھی نہیں لے رکھا ہوتا۔ میں بھی تو یہی بات کہتا ہوں کہ اگر آپ نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا تو آپ اپنے الفاظ کے مطابق کم از کم حق اور انصاف کا ہی ساتھ دیتے اور راشد کے الفاظ کو بھی اس کے ذاتی خیالات پر محمول کرتے۔ میں نے آپ پر کوئی الزام نہیں لگایا بلکہ اس بلاگ کے مالک ہونے کے ناطے آپ کی اخلاقی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے آپ کو۔
میں نے راشد کا تبصرہ پڑھنے کے بعد ہی رائے دی ہے۔ اور آپ کو بھی مجھے راشد کا تبصرہ پڑھنے کا مشورہ دینے سے پہلے ان تبصروں پر ایک نظر دیکھ لینا چاہئیے تھا جن میں مُشرک کے لفظ کا اطلاق سب پر کیا گیا ہے۔بقول آپ کے ہم تو ٹھہرے یورپی کلچر کے ڈسے ہوئے کم از کم آپ ہی اپنی اسلامی سوچ کے گھوڑے دوڑا کر اس بات کو سمجھتے کہ لاکھ اختلاف کے باوجود کسی کو مشرک کہنا اسلامی نقطہ نظر سے کتنا بڑا گناہ ہے۔ اور ایسا کرنے والے کی تصحیح کرنا ایک مسلم ہونے کے ناطے آپ کا فرض تھا۔ سانچ کو آنچ نہیں۔ اگر راشد کی پکڑ خود کش حملہ آوروں پر صرف ایک جملہ لکھنے پر ہو سکتی ہے تو دوسرے کی کسی کو بغیر کسی وجہ کے مشرک کہنے پر کیوں نہیں؟
محترم ، انا للہ و انا الیہ راجعون اس وقت بھی کہا جاتا ہے جب کوئی چیز گم ہو جائے اور میں نے بھی اسی حوالے سے یہاں اس کا ذکر کیا ہے کیوں کہ آپ کے بلاگ سے بھی ایک چیز گم ہو چکی ہے جس کو انصاف کہا جاتا ہے۔
ساجد صاحب
اخلاقی ذمہ داری کا احساس دلانے کا شکریہ ۔ راشد صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو میں نے اس کا جواب لکھا ۔ آپ یہ تو بتائے کہ میں نے کب اور کہاں کسی کو مشرک لکھا ؟ تاکہ میں اپنی اصلاح کروں اور اس شخص سے معافی مانگوں جسے میں نے مشرک کہا ۔ نمعلوم آپ کونسی بے انصافیوں کو لے بیٹھے ہیں کسی کا حوالہ تو دیں ۔
قبلہ اجمل صاحب ، میں نے یہ نہیں لکھا کہ آپ نے خود کسی کو مشرک کہا ہے۔ ایسا (خدانخواستہ) ہوتا تو میں آپ کو بلا واسطہ کہہ دیتا۔ اور پھر میں یہ بھی نہیں لکھتا کہ آپ کے بلاگ پر انصاف نہیں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب انجینئیر صاحب کے ذکر والی بحث میں خاور صاحب نے آپ کو مخاطب کر کے تحریر فرمایا۔۔۔۔۔“بس جی اگر آپ کہیں بہت سارے مشرکین میں پھنس جائیں تو جو حال آپ اکیلے توحید والے کا ہو گا۔۔۔۔۔ “۔ اور میں نے بھی ان کے الفاظ کا ذمہ دار آپ کو نہیں ٹھہرایا صرف یہ عرض کیا تھا کہ اجمل صاحب مبارک ہو آپ کو خاور صاحب سے توحید پرستی کا ڈپلومہ مل گیا۔۔ ان کو مخاطب کر کے اُنہی سے جواب مانگا تھا۔ اُن کا جواب تو موصول نہ ہوا لیکن آپ کا جواب ملا جس میں آپ نے فرمایا۔۔۔ “کمال تو یہ ہے کہ پاگل خانے بھیجنے کا کہنے پر آپ نے خاور صاحب کی سرزنش کی ہے۔اور خود ایک اچھے بھلے انجینئر کو پاگل کہہ رہے ہیں“۔۔۔‘یعنی غیر ارادی طور پر آپ خاور صاحب کی طرفداری کر گئے ۔ انجینئیر صاحب پر ایک لفظ لکھنے پر آپ اسقدر ناراض اور اس سے پہلے لکھے گئے سخت الفاظ پر چشم پوشی۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
اور خاور صاحب اس تحریر سے پہلے بھی میرے لئیے نازیبا الفاظ استعمال کر چکے تھے جو یقینا آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے۔ اگر آپ اسی وقت اس بات کو محسوس کرتے کہ خاور صاحب کتنا غلط لکھ چکے ہیں تو بلاگ کے مالک ہونے کے ناطے ان کی غلطی کی تصحیح فرماتے تا کہ ماحول مکدر نہ ہو۔ بہر حال بات ختم ہو گئی تھی کہ آج راشد صاحب صرف ایک جملہ جو آپ کے خیالات کے خلاف جاتا ہے اس پر دھر لئیے گئے تب مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ آپ کے علم میں لاؤں کہ اگر آپ کچھ لوگوں کو استثناء دیں گے اور کچھ کا احتساب کریں گے تو یہ پرویز مشرفی انصاف ہو گا اور ظاہر ہے یہ غلط ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ میں راشد کامران کے ان خیالات سے متفق بھی ہوں جن کا اظہار انہوں نے کیا ہے۔ ان کو اپنی رائے دینے کا پورا حق ہے اور ہمیں اختلاف کا حق ہے لیکن دونوں صورتوں میں اخلاقیات اور انصاف کا دامن ہم میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑنا چاہئیے۔
ساجد صاحب
میرا اصول ہے “نیکی کر دریا میں ڈال”۔ یہ میرے دادا [اللہ بخشے] کہا کرتے تھے جو 1955 میں فوت ہو گئے تھے ۔ میں نے کسی انسان سے بلائی کی اُمید کبھی نہیں باندھی پھر جب کوئی مجھ سے بھلائی کرتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے ۔ میرا دوسرا اصول یہ ہے کہ دوسروں کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کرو چاہے اس کے بدلے نقصان اُٹھانا پڑے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے بڑی مہربانی سے مجھے اس کی توفیق دی ہوئی ہے ۔ میرا طریقہ سمجھانے کا آپ کے طریقہ سے مختلف ہے ۔
دیانتدار ۔ امانتدار یا مؤمن ہونے کی سند کی مجھے کسی انسان سے ضرورت نہیں ۔ مجھے صرف اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی خوشنودی مطلوب ہے جس کے ملنے سے آخرت سنورتی ہے اور دنا میں بھی عزت ملتی ہے ۔ میں نے خاور صاحب کی طرفداری نہیں کی تھی ۔ بلکہ چاہا تھا کہ جو عمل ایک شخص خود کرے اُس سے وہ دوسرے کو نہیں روک سکتا ۔
آپ کا یہ استدلال نجانے کن معروضات پر مبنی ہے کہ میں سخت ناراض ہو گیا ۔ یہ آپ کا مفروضہ ہے کہ میں نے خاور ضاحب کی تصحیح نہیں کی ۔ میں ای میل اور ان کے روزنامچہ کے ذریعہ انہیں بھی سمجھاتا رہتا ہوں ۔
راشد صاحب نے میرے خلاف جو لکھا اس کی مجھے کوئی فکر نہیں لیکن اس نے کئی نیک ا شخاص جو کہ مر چکے ہیں کے کردار پر غلط بیانی کی ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مر جانے والے کے خلاف بات کرنا اسلام میں ممنوع ہے ۔ اور پھر ایسی بات بغیر تصدیق کےکرنا جھوٹ یا ظُلم کے ذمرے میں آتا ہے ۔ جذبات میں بہہ کر قلم کا بے قابو ہو جانا کون سے مذہب یا معاشرہ کے مطابق جائز ہے ؟
صحیح ہے کہ اخلاق اور انصاف چھوڑنا چاہیئے ۔ میں اسی لئے اپنے بچوں سے چھوٹی عمر کے لڑکے لڑکیوں کو بھی صاحب یا صاحبہ سے مخاطب کرتا ہوں اور جو بھی لکھتا ہوں اچھی طرح تحقیق کے بعد لکھتا ہوں کہ کسی کے ساتھ بے انصافی نہ ہو جائے ۔ خیال رہے کہ کسی کی بے جا تعریف بھی اس کے ساتھ بے انصافی ہوتی ہے ۔ اپنے عمل میں غلطی کا احساس ہوتے ہی میں معافی مانگ لیتا ہوں ۔
اعلٰی معیار کا دعوٰی کرنے والے چند لوگ مجھ سے ایسے مخاطب ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی جابر شخص اپنے غلام سے مخاطب ہوتا ہے لیکن میں پھر بھی انکے نام کے ساتھ صاحب ہی لکھتا ہوں ۔
راشد صاحب ،
آنٹی شمیم اور مساج سینٹر سے باہر نکل آؤ تو جی الیون ون میں چلے چلیں جہاں اسی طرح کا ایک اڈہ چند ہفتے پہلے کھلا ہے اور محلے والوں کی شکایت پر چند ‘بڑے‘ لوگوں کی کاروائی پر سب کو خاموش کروادیا گیا اور اب سر عام ایک رہائشی علاقہ کے محلہ میں وہ اڈہ چل رہا ہے اور کوئی کچھ نہیں کر سکتا اگر تو آپ یہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کی کاروائیوں پر قانون کی مدد مانگنے کے بعد الٹا دھمکیاں ملیں اور کہا جائے کہ آئیندہ کسی نے شکایت کی تو اسی کے خلاف سخت کاروائی ہوگی تو مجھے بتائیں کہ شریف لوگ کہاں جائیں۔ مسلح تصادم کی بات ہے جہاں تک تو ایک بھی ایسا واقعہ ثابت کر دیں آپ جہاں لال مسجد والوں نے اسلح استعمال کیا ہو یا کسی کو زخمی ہی کیا ہو تصادم تو دور کی بات ہے۔ خود کش حملوں کی افواہیں آتی رہی اور منسوب ہوتی رہیں مگر پورے آپریشن میں ایک بھی خود کش حملہ نہیں ہوا جبکہ اس کی سب سے زیادہ ضرورت بنتی تھی لال مسجد والوں کے لیے۔ ریاست قائم کرنے کا جو غلط تصور قائم کیا ہے حکومت اور میڈیا نے کیا حقیقتا ایسا ہوا تھا یا آپ اتنے سادہ ہیں کہ اس دعوی کو مان لیا آپ نے۔ لال مسجد کی کاروائی بھی لوگوں کے کہنے پر ہی ہوئی بلکہ خود پولیس نے معذوری ظاہر کی اور کہا کہ آپ کاروائی کریں پھر ہم کاروائی کریں گے ورنہ ان کے ہاتھ بہت اوپر تک ہیں اور ہم ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے ، اسے آپ کیا کہیں گے حکومتی رٹ یا حکومتی قانون کی کھلے عام دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور ان لوگوں کے خلاف کاروائی پر لوگوں کو سخت نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ چند لوگوں کے اغوا اور پھر چھوڑ دینے اور مطالبات پیش کرنے کے عمل کو اگر آپ ریاست کے اندر ریاست سمجھتے ہیں تو پھر تو پورے پاکستان میں ان گنت ریاستیں ہیں جہاں جاگیرداروں ، سرداروں اور سیاستدانوں کی اپنی ملکیتوں میں کوئی ان کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا اور حکومت نے کبھی مڑ کر انہیں پوچھا بھی نہیں ہے۔ جذباتیت ایک طرف رکھیں اور مسئلے کو سنجیدگی اور گہرائی سے دیکھیں اور پھر الفاظ کی نشست و برخاست بھی ملاحظہ کریں۔ نام نہاد کہہ لینا کافی آسان کام ہے اور کہنے اور لکھنے میں چند ہی سیکنڈ لگتے ہیں مگر برائی کے خلاف کام کرنا اور لڑنا انتہائی کٹھن اور مشکل کام ہے ، غلطیاں ہو جانا اور بات ہے مگر آپ تو ایک انتہا پر کھڑے ہو کر فیصلے سنا رہے ہیں اور اس قدر صریح ظلم کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ اسلام کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو کوئی شخص جو انسانیت کے لیے ذرا سا بھی درد رکھتا ہو اس واقعہ پر سوگوار اور رنجیدہ ہی ہوگا۔