جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کے خلاف فوجی کاروائی 11 جولائی کو مکمل ہو گئی تھی ۔ 14 جولائی کی صبح اردگرد کے رہائشی علاقہ سے کرفیو ختم کیا گیا تھا اور اعلان کیا گیا تھا کہ لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس اور اس کے اردگرد کے علاقہ بشمول کمیونٹی سنٹر ۔ انوائرمنٹ منسٹری اور انکم ٹیکس کے دفاتر اور آبپارہ سے میلوڈی مارکیٹ کی طرف جانے والی دونوں سڑکوں یعنی کوئی سات آٹھ سو میٹر لمبے اور پانچ سو میٹر چوڑے علاقہ میں مزید ایک ہفتہ کرفیو رہے گا ۔ یہ ایک ہفتہ 21 جولائی کی صبح کو پورا ہو گیا تھا ۔ اس خیال سے کہ کرفیو حسبِ وعدہ اُٹھا لیا گیا ہو گا آج صبح 9 بجے میں کسی کام سے آبپارہ مارکیٹ اور میلوڈی مارکیٹ کیلئے روانہ ہوا ۔ جب میں آبپارہ چوک سے میلوڈی مارکیٹ کی طرف جانے والی بڑی اور دوہری سڑک پر مُڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آبپارہ مارکیٹ کے فوراً بعد سڑک پر بڑے بڑے سیمنٹ کنکریٹ بلاک رکھ کر سڑک بند کی ہوئی ہے اور الِیٹ فورس کے مسلحہ کمانڈو کسی پیدل شخص کو بھی اُدھر نہیں جانے دے رہے ۔ مجھے آبپارہ مارکیٹ کے ساتھ ہی مڑنا پڑا اور پھر 12 فٹ چوڑی سڑکوں پر سے ہوتا ہوا جگہ جگہ رُکتا کیونکہ سامنے سے بھی ٹریفک آ رہی تھی 2 منٹ کا راستہ 40 منٹ میں طے کر کے میلوڈی مارکیٹ پہنچا ۔
میں تو خیر کبھی کبھار کسی کام سے ہی اُدھر جاؤں گا لیکن جو سڑکیں ابھی تک کرفیو میں ہیں اُن کے کنارے رہنے والے جو 3 جولائی سے 14 جولائی تک کرفیو کی وجہ سے گھروں میں قید تھے 14 جولائی سے اب تک گلیوں کے راستے پیدل اپنے گھروں سے دور سڑک پر نکلتے ہیں اور پھر کسی طرف جانے کے قابل ہوتے ہیں جو بیمار یا لاغر کیلئے بہت مشکل کام ہے ۔
لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس سے ملبہ ہٹانے پر مامور مزدوروں کو 22 جولائی کو ایک جلی ہوئی لاش ملی جس کے ٹکڑے ہو چکے تھے ۔ اس سے ایک دن پہلے جامعہ حفصہ کے قریب نالے میں طالبات کا سامان پھینکا ہوا پایا گیا تھا ۔ جو ملبہ بیکار سجھ کر فوجی افسروں نے باہر پھینکوا دیا تھا اس میں سے اسلام آباد کے ایک بچے فاروق الحسنین کا پاسپورٹ ملا ہے جس کی تاریخ پیدائش 14 فروری 2003 ہے اور پاسپورٹ کا اجراء 24 مارچ 2006 کو ہوا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ فاروق الحسنین کہاں ہے ؟ ابھی تو سب کچھ ایک بڑے علاقہ میں کرفیو لگا کر فوجی افسران کی نگرانی میں ہو رہا ہے تو یہ حال ہے ۔ منگل 10 جولائی سے لے کر آج تک ہر آنے والا دن حکومت کے کردار کو مشکوک سے مشکوک تر بنا رہا ہے ۔
اگر صرف لال مسجد یا جامعہ حفصہ کی مرمت ہی کرنا ہو تو اردگرد کے اتنے بڑے علاقہ میں کرفیو کی کیا ضرورت ہے ؟ صرف لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کی ناکہ بندی کافی ہے جو کہ موجودہ کرفیو والے علاقہ کا آٹھواں حصہ ہو گا ۔ پہلے آپریشن ختم ہونے کے بعد دو دن تک صحافیوں کو متاثرہ علاقہ میں نہ لیجانا ۔ پھر صحافیوں کو صرف لال مسجد کے ہال اور ابتدائی دنوں میں بنے ہوئے تنگ برآمدے تک محدود رکھنا اور اب تک اتنے بڑے علاقہ میں کرفیو رکھنے سے ذہن میں صرف ایک ہی بات آتی ہے کہ حکومت کی سفاکی اور 1000 سے 2000 بے گناہ طلباء و طالبات کے بیہیمانہ قتل پر پردہ ڈالنے کیلئے حکومت یہ سب اقدامات کر ہی ہے ۔ جلے ہوئے انسانی جسموں کو رات کی تاریکی میں ٹھکانے لگا دیا گیا لیکن ان کے چھوڑے ہوئے نشانات کو مٹانے میں کافی وقت لگتا ہے ۔ اسی طرح بموں سے عمارت کے اندر جب جسموں کے ٹکڑے اُڑتے ہیں تو جا بجا جسموں کی تعداد سے بہت زیاد نشانات چھوڑتے ہیں ۔ ان کو بھی ڈھونڈنے اور مٹانے میں کافی وقت لگتا ہے ۔
معروف بزرگ وکیل حشمت حبیب صاحب جو عدالتِ عظمٰی میں لال مسجد جامعہ حفصہ آپریشن میں گُم شدہ طلباء و طالبات کے وارثوں کے کیس کی پیروی کر رہے ہیں نے چیف کمشنر اسلام آباد کو ایک درخواست دی ہے جس میں لکھا ہے کہ آپریشن شروع ہونے کے وقت لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں 1200 طلباء اور 3500 طالبات موجود تھیں ۔ انہوں نے درخواست میں یہ بھی لکھا ہے کہ پولیس کی طرف سے عدالت میں بیان دیا گیا تھا کہ جب آپریشن سے قبل لال مسجد جامعہ حفصہ کمپلیکس کو گھیرے میں لیا گیا تھا تو 2000 سے زیادہ طالبات ڈنڈے لے کر باہر آئی تھیں ۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ حکومت نے ابھی تک چند سو کا حساب دیا ہے باقی طلباء اور طالبات کہاں ہیں ؟