لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران منگل کو باہر آنے والی طالبات کا کہنا ہے کہ آٹھ روزہ آپریشن کے دوران انہوں نے ہر لمحہ موت کا ذائقہ چکھا ہے اور انہیں درختوں کے پتے کھاکر گزارا کرنا پڑا۔
گزشتہ ایک سال سے اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ جامعہ حفصہ میں زیر تعلیم نزہت جمیل نے بتایا کہ مدرسوں میں تو وہ پہلے بھی پڑھتی رہی ہیں مگر اس طرح کی صورتحال کا سامنا انہیں پہلی مرتبہ ہوا۔ آپریشن کے دوران یہ طالبات کیسے اور مدرسے کے کس حصے میں قیام کئے ہوئے تھیں اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کمروں کی بجائے چھوٹے چھوٹے سٹورز میں چلے گئے تھے۔ ہر سٹور میں تقریبا پندرہ پندرہ لڑکیاں تھیں ۔لیٹنے کی جگہ نہیں تھی ہم بس سیدھی بیٹھی رہتی تھیں۔باہر دھماکوں کی آوازیں سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم فلسطین میں ہوں۔ تیسرے دن پانی بجلی اور گیس سب کچھ بند ہوگیا تھا لہذا مشکل اور بڑھ گئی تھی۔‘
جامعہ حفصہ میں موجود یتیم بچیوں کے بارے میں نزہت جمیل کا کہنا تھا ’ہمیں اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں۔ البتہ باقی جو چھوٹی بچیاں ہمارے ساتھ تھیں وہ کچھ بھی نہیں بولتی تھیں۔ نہ کھانے کو کچھ مانگتی تھیں اور نہ ہی پینے کو۔ان کا بڑا حوصلہ تھا۔ پولیس والوں کو جب بھی کہیں برقعہ نظرآتا تھا تو وہ بہت بمباری شروع کر دیتے تھے۔‘
غسل خانوں کی سہولت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پانی نہیں آرہا تھا اور صفائی نہ ہونے کی بناء پر بہت بدبو پھیلی ہوئی ہوتی تھی لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
یہ پوچھنے پر کہ کیا آپریشن کے دوران طالبات جاں بحق ہوئیں اور کیا انہیں مدرسے کے احاطے میں دفن کیا گیا، کشمیر کے علاقے باغ سے تعلق رکھنے والی نزہت نے کہا کہ ’تیس شہید طالبات کو بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں ڈال دیا گیا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے کشمیر میں زلزلہ آنے کے بعد کیا گیا تھا۔‘ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی قبر نہیں ملی۔ ’ہمیں ان کے جنازے کے حوالے سے کچھ پتہ نہیں ۔ہمیں تو مجاہد بھائیوں کا بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں کہاں ہیں ۔کبھی کبھی ایک دو نظر آجاتے اور پھر غائب ہو جاتے تھے۔‘
عائشہ لیاقت جامعہ حفصہ کی معلمہ ہیں اور ان کا تعلق ملتان سے ہے۔ آٹھ روز مسلسل محاصرے میں رہنے کے بعد اب وہ اپنے گاؤں روانہ ہو چکی ہیں۔رابطہ کرنے پر ان کی آواز سے ان کے رتجگوں کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ جامعہ حفصہ کے اندر گزری آخری رات کا حال بتا تے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ بڑی خاموش رات تھی۔کوئی گولہ باری نہیں ہوئی۔جب یہ سلسلہ طویل ہوا تو میں نے اپنی ساتھی طالبات کو یہ مصرع سنایا
جو آج کی شب سکوں سے گزری تو کل کا موسم خراب ہوگا۔
اور پھر میں نے کہا ’مجھے اس خاموشی کے بعد کے کل سے ڈر لگ رہا ہے۔اور پھر اگلی صبح ٹھیک پونے چار بجے ہماری آنکھ سیکیورٹی فورسز کے حملے سے کھلی۔گولوں کی آوازیں بہت قریب سے آرہی تھیں۔‘ ’میں تو بس دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔چھ بجے مجھے لگا کہ فوجی اندر آگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مجاہد بھائیوں کی آوازیں بھی آئیں کہ اندر مت آؤ ورنہ گولی مار دیں گے۔ آخر کار ہمیں باہرآنے کو کہا گیا اور فورسز نے ہمیں کہا کہ اب نقاب اُلٹ دیں۔ ہم نے ان کو اللہ کا واسطہ دیا کہ ہمیں بے پردہ مت کریں ۔شکر ہے انہوں نے پھر زیادہ زور نہیں دیا۔‘
مصباح طارق کی عمر اٹھارہ سال ہے وہ پچھلے پانچ سال سے جامعہ حفصہ میں زیرتعلیم تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ شہادت کے جذبے سے سرشار آخری وقت تک جامعہ حفصہ کے اندر رہنا چاہتی تھیں لیکن اندر رہنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔انہوں نے بتایا ’ہمارے کھانے کے سٹور پر انہوں نے گولہ باری کی تو ہمارے پاس پتے کھانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ بعد میں مجاہد بھائی کہیں سے شہد لے آئے۔ ہم اس کا شربت بنا کر درختوں کے پتوں کے ساتھ پیتے رہے۔سات دن اسی طرح گزرے۔‘
’آخری دن ہمارا کمرہ دھوئیں سے بھر چکا تھا ۔ہمارا دم گھٹ رہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ گھٹ کر مرنے سے بہتر ہے کہ ہم سینے پر گولی کھا کر مر جائیں۔ مگر مجاہد بھائیوں نے ہمیں باہر نکلنے سے منع کر دیا۔ بعد میں پولیس والوں [فوجیوں] نے کہا کہ باہر آجاؤ ورنہ دب کر مر جاؤگے تو تب ہم باہر نکل آئے۔میں تو اب بھی یہ کہتی ہوں کہ یہ دن مجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔‘
سو ثابت ہوامجاہد بہایی بہنوں کو مروانا چاہتے تہے۔ اخر فوجی بہاییوں کے کہنے پر وہ باہر اًگیں ورنہ مر جاتیں۔ اگر واقعی مرنا چاہتیں تو باہر کیوں اًتیں۔ اللۃ ایسے اسلام مولانا اور مجاہدوں سے ہر ایک کو محفوظ رکہے جو عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنایں۔ اس میں قصور ان ایجنسیوں کو بھی ہے جنہوں نے نے اولا ان مجاہدوں کی پشت پناہی اپنے مفادات کے لیے کی۔ جو کام بہی اعتدال سے نہ کیا جایے اس کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ پیعمبر اسلام نے شب ابی طالب میں کیسے دن گزارے تھے سب جانتے ہیں مگر انہوں نے ہتیار نہیں اٹھایے تہے۔
جیم صاحب ماشاءللہ کیا انسانی ہمدردی کے جذبات ہیں آپ کے اور کتنی عمدگی سے تجزیہ کرتے ہیں آپ۔
عورتوں اور بچوں کا کس نے ڈھال بنایا تھا اور وہ ڈھال کہاں ہے اس وقت ، اس ڈھال میں سے کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا آپ صرف حکومتی پراپیگنڈہ کے زیر اثر بات کر رہے ہیں اور آپ نے بلاوجہ تکلف کیا مولانا اور مجاہدوں کا نام لینے کا صاف ہی کہہ دیتے کہ اسلام ہمیں ہماری مرضی کا چاہیے وہ نہیں جو علما سے پہنچے۔ ہتھیار کتنے تھے اور کس نے کس طرح استعمال کیے اس پر بھی آپ کی رائے یقینا حکومتی رائے سے مکمل اتفاق رکھتی ہوگی۔
اعتدال اور انجام کا جو نقشہ آپ نے کھینچا ہے وہ آپ کے فہم کا بہت عمدگی سے اظہار کرتا ہے اور معاملات کو کس سطحی نظر سے دیکھا ہے اس کا بھی اظہار ہوتا۔
جنجوعہ صاحب
مجھے توقع نہیں تھی کہ آپ کے خیالات اتنے سطحی ہوں گے ۔ محسوس ہوتا ہے کہ آپ ماضی قریب میں جتنا عرصہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہے آپ نے پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں لی ۔ آپ نے مثال صحیح نہیں دی ۔ آپ بتائیں کہ آپ اپنے گھر یا دفتر میں دوسرے لوگوں کے ساتھ موجود ہوں اور اچانگ گھیرا ڈال کر فائرنگ اور پھر آپ پر گولے برسائے جائیں جن میں ممنوعہ انسانوں کو جلا کر بھسم کرنے والے گولے بھی شامل ہوں تو کیا آپ حملہ آوروں کو خوش آمدید کہیں گے ؟
آپ نے ایجنسی والوں کا ذکر کیا ہے ۔ کیا ایجنسیاں حکومت بلکہ فوج کی نہیں ہیں ؟ اور کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ سادہ لوح انسانوں کو غلط راستہ پر لگا کر بات کو بڑھاتے رہے اور پھر اسی بہانے سے سینکڑوں بے قصور طلباء و طالبات کو ہلاک کر دیا اور اپنے آقا بُش سے شاباش لی ۔ کیا یہ سار کھیل پرویز مشرف کا کھیلا ہوا نہیں ہے ؟