ایک ماہ سے زائد گذر گیا شعیب صفدر صاحب نے “دامن تر” کے عنوان سے ڈاکٹر شبیر احمد کا مضمون نقل کیا تھا ۔ میں نے اس پر اپنے مشاہدات لکھنے کا ان سے وعدہ کیا تھا ۔ پانچ ہفتے یوں گزر گئے کہ پہلے میں دس دن بیمار رہا ۔ پھر میرے پھوپھی زاد بھائی جو دودھیال میں میرے اکلوتے بھائی ہیں اور میرے بچپن سے دوست ہیں کو دل کا دورا پڑا اور اچانک آپریشن کرانا پڑا ۔
چاہے مرد ہو یا عورت شرم و حیاء بذاتِ خود ایک لباس ہے جب اسے اُتار دیا جائے تو پھر کسی چیز کی شرم نہیں رہتی اور انسان پھر انسان نہیں رہتا بلکہ جانور بن جاتا ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں انسانوں کو شہروں کے باغیچوں میں اور شہروں سے منسلک جنگلوں میں کھُلے عام جانوروں کی طرح جنسی ہوّس پوری کرتے دیکھا جا سکتا ہے ۔ بوس و کنار اور عورت مرد یا لڑکے لڑکی کا آپس میں چپکنا تو ہر جگہ دیکھنے میں آتا ہے ۔ سمندر کے کنارے چلے جائیں تو کئی عورتیں ۔ مرد ۔ لڑکیاں اور لڑکے بالکل ننگے نہا رہے ہوتے ہیں یا ریت پر لیٹے اپنی جلد کا رنگ گہرا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔ اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ یہ ان کی خصلت بن چکی ہے ۔ یہ وہ آزادی ہے جو حقوق کے نام پر حاصل کی گئی ہے لیکن جس نے انسان اور جانور میں فرق مٹا دیا ہے
ابھی تک امریکی حکومت نے پچھلے دو سال کے اعداد و شمار شائع نہیں کئے ۔ 2004 عیسوی میں امریکہ میں 15 لاکھ بچے کنواری یعنی غیر شادی شدہ ماؤں کے ہاں پیدا ہوئے ۔ یہ کل پیدا ہونے والے بچوں کا 35.7 فیصد بنتے ہیں ۔ خیال رہے کہ بہت سے مانع حمل نسخے کئی دہائیاں قبل ایجاد ہو چکے ہیں جو نہ ہوتے تو بغیر شادی کے ماں بننے والیوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہوتی ۔
امریکہ میں شادی شدہ جوڑوں کی تعداد 25 سال قبل 75 فیصد تھی جو کم ہو کر 56 فیصد رہ گئی ہے ۔ صرف ماں کے ساتھ رہنے والے بچوں کی تعداد 417 فیصد بڑھ گئی ہے اور اکیلے رہنے والے بچوں کی تعداد 1440 فیصد بڑھ کر 2 کروڑ 20 لاکھ ہو گئی ہے ۔ صرف 3 کروڑ 64 لاکھ بچے والدین کے ساتھ رہتے ہیں جو کہ کل بچوں کا 51 فیصد ہیں ۔
میرے انگریزی بلاگ [حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے] کی ایک 50 سالہ امریکی قاری لکھتی ہیں کہ اپنی جوانی کے تلخ تجربہ کے نتیجہ میں اس نے اپنی اکلوتی اولاد 18 سالہ بیٹی کی عفت کی حفاظت بہت زیادہ مشکلیں برداشت کر کے کی ۔ لکھتی ہیں کہ جب لڑکی 12 سال کی ہو گئی تو لڑکی کا دادا اسے اپنے پاس بلا کر کہتا رہتا “جاؤ کسی لڑکے کو دوست بناؤ اور زندگی کے مزے لوٹو”۔ لڑکی کا باپ کمپیوٹر پر عورتوں کی بے حیائی کی ننگی تصاویر بیٹی کمرے میں آ جائے تو بھی دیکھتا رہتا ہے ۔ مزید لکھتی ہیں کہ پورے شہر میں اسے اور اس کی بیٹی کو اُجڈ سمجھا جاتا ہے اور کوئی بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا ۔ اس کی بیٹی کے سکول میں ہر سال حکومت کی طرف سے کچھ لیکچرز کا انتظام ہوتا ہے جس میں جنسی ملاپ کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ اپنی سوسائٹی کے متعلق لکھتی ہیں کہ 14 سالہ لڑکیوں سے لے کر 60 سالہ عورتوں تک سب جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں اور وہ اپنی عیاشیوں کے قصے مزے لے لے کر سناتی ہیں ۔
یہ ہے اس معاشررے کی ایک چھوٹی سی جھلک جس معاشرے کو دُور سے دیکھتے ہوئے ہمارے لوگوں کے دل للچاتے ہیں ۔