عوامی تحریک کے رہنماء رسول بخش پلیجو نے اپنے خطاب میں کا کہا “پاکستان ابھی تک غلام ہے۔ ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر امریکہ کی غلامی میں چلے گئے ہیں، اس سے اچھی تو انگریزوں کی غلامی تھی جس میں ہمیں کم سے کم غلام کی حثیت تو دی گئی تھی۔ لیکن اب تو ظلم یہ ہے کہ ہمیں غلام بھی بنا رکھا ہے اور تسلیم بھی نہیں کرتے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ہم بھی امریکہ کے غلام ہیں، ہمیں بھی غلاموں کا درجہ دیا جائے۔ غلاموں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، موجودہ حیثیت میں تو ہمیں وہ حقوق بھی نہیں مل رہے”۔
انہوں نے کہا “سب سے بڑا چیلنج پاکستان کو آزاد کروانا ہے اور اس سلسلے میں وکلاء کی تحریک بہت خوش آئند ہے۔ چھوٹے صوبے ہمیشہ پنجاب کو اسٹیبلشمنٹ کا ساتھی قرار دیتے رہے ہیں، لیکن پنجاب کے عوام نے عدلیہ کی آزادی کی اس تحریک میں جو کردار ادا کیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے”۔
اسی کی مناسبت سے ہم نے یہ شعر کہا ہے۔
جو آزاد ہو کر بھی غلام رہے
اس قوم کا حکمراں دلال ہے
Dikhata hay rang aasman kaisay kaisay
‘Ghulami’ kay hain hukmaran kaisay kaisay
افضل صاحب
آپ نے اچھا شعر بنایا ہے مگر ہمیں تو شیروں کی ضرورت ہے ۔
آپ نے غور نہیں کیا کہ یہ بیان پنجابیوں کے متعلق کس نے دیا ہے ۔
بھائی وہاج احمد صاحب
شعر میں آسماں ہی تھا مگر میں نے زمانہ بنا دیا تھا