اِسے جہالت کہا جائے ہَڈدھرمی کہا جائے یا معاندانہ پروپیگینڈا ؟ میں پچھلے پانچ چھ سال سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ملکی اخباروں میں جب بھی قبلۂِ اوّل یعنی مسجدالاقصٰی کی خبر کے ساتھ تصویر چھاپی جاتی ہے تو وہ مسجد الاقصٰی کی نہیں ہوتی بلکہ قبة الصخراء کی ہوتی ہے ۔
میں نے ماضی میں دی نیوز اور ڈان جن میں مسجدالاقصٰی کے حوالے سے قبة الصخراء کی تصویر چھپی تھی کے مدیروں کو خطوط لکھے اور ساتھ دونوں مساجد کی تصاویر بھیجیں کہ وہ تصحیح کریں لیں نہ تو تصحیح کی گئی نہ مستقبل میں اس پر کوئی عمل ہوا اور نہ ہی میرے خطوط مدیر کی ڈاک میں شامل کئے گئے ۔ کچھ عرصہ بعد پھر اخبار میں جب مسجد الاقصٰی کا ذکر آیا تو ساتھ تصویر قبة الصخراء کی چھپی ۔
میں نے اپنے ملک میں کئی گھروں میں قبة الصخراء کی تصویر یا ماڈل رکھا ہوا دیکھا جسے وہ مسجدالاقصٰی بتاتے تھے ۔ یہی نہیں میں نے قبة الصخراء کے پلاسٹک ماڈل سعودی عرب میں معمولی قیمت پر عام بِکتے دیکھے ہیں جو کہ ہند و پاکستان کے زائرین قبلہ اول یعنی مسجدالاقصٰی سمجھ کر خرید لاتے ہیں
یہ ہے مسجد الاقصٰی کی تصویر
اور یہ ہے قبة الصخراء کی تصویر
نیچے داہنی جانب قبة الصخراء ہے اور بائیں جانب مسجد الاقصٰی ہے
كچھ لوگوں كا خيال ہے كہ يہ انتہائي جامع منصوبہ كا حصہ ہے چناچہ جب كبھي بھي مسجد اقصٰي كو گرانے كي سازش كامياب ہوگي مسلمانوں كي اكثريت گنبد سخرا كو سلامت ديكھ كر اس كو جھوٹ سمجھے گي كيونكہ پاكستان ميں ملنے والي عموما جائے نماز پر گنبد سخرا كو ہي قبلہ اول كے طور پر دكھايا جاتا ہے۔
Perhaps you have not seen the sidebar of my blog. I have put those images to correct this mistake.
راشد کامران صاحب
آپ کا خیال درست ہو سکتا ہے ۔ میں نے دو سال قبل یہ تحریک اُٹھائی تھی کیونکہ کچھ عرصہ سے پروپیگنڈہ شدت اختیار کئے ہوئے تھا ۔ میرے پاس سلائڈ شو ہے جس میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے ۔ آپ کہیں تو آپ کو بھیج دوں ۔
قدیر احمد صاحب
آپ کی سائڈبار دیکھ کر ہی میں مجبور ہوا اس کام کیلئے ۔ وجہ ؟ ایک تو مسجد الاقصٰی کی تصویر جو آپ نے شائع کی ہے وہ واضح نہیں ہے دوسرے آپ نے ایک قابلِ احترام مسجد القُبة السخراء پر کاٹا لگا دیا ہے ۔ مسجد القُبة السّخراء اس مقام کے ساتھ بطور یادگار بنی ہوئی ہے جہاں معراج پر تشریف لیجاتے ہوئے سیّدنا محمد صلّی اللہُ علَیہِ و آلِہِ و سَلَّم نے جماعت کرائی تھی اور پھر بلندیوں کی طرف روانہ ہو گئے تھے
اور بلّی ۔ ایہہ انگریزی اجکل بڑی اُبلدی پیئی اے ۔ سانوں پتہ اے کہ تُسی گریجوئٹ سٹوڈنٹ ا و ۔
السلام علیکم!
ہفت روزہ “ضرب مومن” بھی قبہ ۃ الصغریٰ کی تصویر اخبار کے اوپر والے حصہ میں چھاپتا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہی مسجد اقصیٰ ہے۔ تاہم انہوں نے اکثر مواقع پر صحیح مسجد اقصیٰ کی نشاندہی بھی کی ہے۔
ساجد اقبال صاحب
ہماری قوم کے اکثر افراد کا خاصہ ہے کہ امتحان پاس کرنے کیلئے جتنی کم سے کم کتابیں پڑھنا پڑیں اتنی ہی پڑھتے ہیں اور فارغ وقت میں بے مقصد ناول پڑھتے ہیں ۔ ان کی معلومات کا حال ابتر ہے لیکن غلط بات پر اڑنے کی عادت بڑی پکی ہے ۔
برِصغیر کے زیادہ تر مسلمان مسجد الحرام کو قبلہ الاولی کی بہ نسبت معراج کے واقعے سے جانتے ہیں، ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے ۔۔۔ لیکن بہرحال دونوں کا فرق اور حقیقت معلوم ہونی چاہئیے ۔۔۔ جزاکم اللہ۔
A post I found with few other images.
بہت اچها
میں نے بهی ایک سال پہلے اس کے متعلق لکها تها ـ
ایسی چیزوں کی نشاندهی کرتے رہنا چاهیے ـ
اسی کا نام بلاگنگ ہے که جو بات میڈیا لوکےن کو نه بتائے اس کو اجاگر کریں ـ
http://khawarking.blogspot.com/2006/05/blog-post_114872623924875266.html
اسماء صاحبہ
حوالے کا شکریہ
خاور صاحب
شکریہ ۔
اجمل صاحب آپ نے ایک نہایت اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے ، یہ غلط فہمی کافی پرانی اور اس کے خاتمے کےلئے واقعی سنجیدہ کوششیں نہیں ہورہی ہیں ۔
میں نے بھی کچھ عرصہ قبل اس بارے میں ایک کالم لکھا تھا ۔
میرے خیال میں یہ نام القبتہ السخرا نہیں بلکہ قبتہ الصخرا ہے ۔ صخرا کے معنی ہیں چٹان اور اس مقام کو انگریزی میں بھی dom of the rock کہا جاتا ہے ۔ اس مقام پر وہ پتھر پڑا ہوا ہے جس کو مسلمان اور یہودی دونوں مقدس مانتے ہیں اور اس کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ بہرحال یہ سنہری گنبد اسی پتھر پر اموی خلیفہ عبدالمالک نے تعمیر کروائی تھی اور یہ کوئی مسجد نہیں بلکہ جب آپ مسجد الاقصیٰ میں نماز کےلئے قبلہ رو ہوں تو آپ کی پشت اس عمارت کی طرف آئے گی ۔
روغانی صاحب ۔
ہِجّے کی تصحیح کا شکریہ ۔ آپ نے درست لکھا ہے لیکن یہ مسجد ہی ہے اور بنائی ہی خلیفہ عبدالمالک نے تھی اس سے پہلے وہاں کوئی عمارت نہ تھی ۔ روائت ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم نے معراج پر روانہ ہوئے تو آسمان کی طرف سفر سے پہلے اس مقام پر جماعت کرائی تھی اور پھر ایک پتھر پر سے روانہ ہوئے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس مقام کو تلاش کر کے وہاں سے مٹی اُٹھوائی اور اس پتھر کو نمایاں کیا ۔
My detail column on the issue is available on the following link:
http://alqamar.org/column/urdu/roghani/view.asp?27-08-06
وقار علی روغانی صاحب
آپ صحافی ہیں جب کہ میں ایک عام آدمی اور ازل سے ابد تک طالبِ علم ہوں ۔ میں نے آپ کے دیئے ہوئے رابطہ پر آپ کا تحریر کردہ مضمون پڑھا ہے ۔ کعبہ کو قبلہ بنانے کا حُکم آنے سے پہلے مسجد الاقصٰی کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی کیونکہ باقی اہلِ کتاب اسی طرف رُخ کر کے عبادت کرتے تھے جو کہ موجودہ قبلہ رُخ کا بالکل مخالف رُخ ہے ۔ اور اگر آپ پہلے والے رُخ پر کھڑے ہوں تو جغرافیائی لحاظ سے آپ کا رُخ قُبة الصخراء کی طرف بھی ہوتا ہے ۔
لو جی ہن تصویر دی نکڑاں تے کاٹے لا دتے آ ، تے نال اس پوسٹ دا ربط وی دے دتا ہے ۔
جناب تہانوں پتہ ہے کہ میں انگریزی سیکھ ریا واں ، مینوں طعنے کیوں مار رہے ہو؟
قدیر احمد صاحب
بہت شکریہ آپ کا ۔
سوہنیوں سجنوں جم جم سِکھو انگریزیاں ۔ اساں تہانوں ٹھاکیا تے نئیں پر ساڈے اُردو روزنامچے تے انگریزیاں تے نہ چا مارو ۔
انگریزی سیکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انگریزی کتابیں پڑھیں اور انگریزی لکہیں لیکن ایک کمپوزیشن کی کتاب اور ایک اچھی ڈکشنری خرید لیں کہ جب پڑھنے یا لکھنے بیٹھیں تو دونوں پاس ہوں اور ان میں گرامر کے اصول اور ترجمے دیکھتے جائیں ۔
The final link of my english blog is
http://en.bayaaz.com
:P
قبۃ الصخرۃ اور مسجد اقصی القدس شہر میں واقع دو الگ الگ مقامات ہیں جن میں سے مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔
اس
دونوں کے بارے میں مختصر معلومات درج ذیل ہے:
685ء سے 691ء کے درمیان تعمیر کروائی۔ طرز تعمیر کا اعلی ترین شاہکار ہے اور تمام مسلمانوں کے قابل تعظیم بھی کیونکہ یہ عین اس جگہ پر تعمیر کی گئی ہے جہاں سے براق پر سوار ہو کر عالم بالا کی سیر کو گئے۔
اس کے بارے میں معلومات اس ربط پر دیکھیے http://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%A8%DB%83_%D8%A7%D9%84%D8%B5%D8%AE%D8%B1%DB%83
مسجد اقصی مسلمانوں کاقبلۂ اول اور تیسرا مقدس ترین مقام ہے جو قبۃ الصخرہ کے قریب یروشلم کے اس حصے میں واقع ہے جو اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ یہ القدس کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔
اس بارے میں مزید معلومات اس ربط پر دیکھیے
http://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B3%D8%AC%D8%AF_%D8%A7%D9%82%D8%B5%DB%8C
ہم کسی بھی اسلام عمارت کی توہین برداشت نہیں کر سکتے
کاشف صاحب
تبصرے کا شکریہ