پانچ اور چھ مئی کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اسلام آباد تا لاہور جی ٹی روڈ پر پچیس گھنٹے کے سفر میں جس انداز کی عوامی پذیرائی ملی اس کے نتیجے میں مشرف حکومت اور اتحادی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کو غالباً یہ فرض سونپا گیا ہے کہ وہ اب کھل کے سامنے آئیں اور چیف جسٹس کے حق میں امڈنے والی لہر کو روکنے کے لیے پوری طاقت اور وسائل بروئے کار لائیں۔
سرکاری وکلاء نے نہ صرف عدالت کے اندر جارحانہ رویہ اختیار کر لیا ہے بلکہ مظاہرے کا جواب مظاہرے سے اور جلسے کا جواب جلسے سے دینے کی حکمتِ عملی پر بھی عمل شروع ہوگیا ہے۔ پہلے مرحلے میں اردو میں شائع ہونے والے بڑے قومی اخبارات میں پہلے اور آخری صفحے پر سات مئی سے ایم کیو ایم لیگل ایڈ کمیٹی کے علاوہ عدلیہ تحفظ کمیٹی اور غیر جانبدار وکلاء کے نام سے چوتھائی صفحے کے اشتہارات شائع کرائے جا رہے ہیں۔
اس بات کا امکان کم ہے کہ یہ اشتہارات انفرادی سطح پر شائع کیے جا رہے ہوں کیونکہ فرنٹ پیج پر چوتھائی اشتہار کا نرخ ایک اخبار میں آٹھ لاکھ روپے اور دوسرے اخبار میں دو لاکھ ساٹھ ہزار روپے کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ بیک پیج کا نرخ ایک اخبار میں سوا پانچ لاکھ روپے اور دوسرے اخبار میں ایک لاکھ اسی ہزار روپے ہے اور روزانہ دو بڑے اخبارات میں اتنی قیمت کے اشتہار شائع کروانا کسی ایک فرد کے لیے خاصا مشکل ہے۔
عدلیہ تحفظ کمیٹی کے اشتہار کا لبِ لباب یہ ہے کہ چیف جسٹس نادانستہ طور پر اعتزاز احسن، منیر ملک، رشید رضوی اور حامد خان جیسے وکلاء کے ذریعے بے نظیر بھٹو کے لیے استعمال ہورہے ہیں جن کی حکومت سے ڈیل ہورہی ہے۔ غیر جانبدار وکلاء کے نام سے جو اشتہارات شائع کرائے جا رہے ہیں ان میں چیف جسٹس سے پوچھا گیا ہے کہ جو سیاستدان اس وقت آپ کے ہاتھ چوم رہے ہیں اور جو وکلاء آپ کا مقدمہ لڑ رہے ہیں یا جو وکلاء آپ کے مخالف فریق کی جانب سے پیش ہورہے ہیں۔اگر ان میں سے کسی کا مقدمہ آئندہ آپ کی عدالت میں آتا ہے تو بحیثیت انسان اور جج کیا آپ انصاف کر پائیں گے۔
ایم کیو ایم لیگل ایڈ کمیٹی کے نام سے شائع ہونےوالے تفصیلی اشتہار میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے نام پر سیاست اور عدالتی بائیکاٹ کے نتیجے میں لاکھوں سائلوں پر انصاف کے دروازے بند ہو چکے ہیں لہٰذا یہ کھیل بند کیا جائے اور عدالت کی بات عدالت میں ہی کی جائے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ق) نے اسلام آباد میں بارہ مئی کو لاکھوں افراد جمع کرنے کے لیے پارٹی اور حکومت کے تمام ضروری وسائل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔امکان ہے کہ صدر مشرف بھی ریلی سے خطاب کریں گے۔جبکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اعلان کیا ہے کہ بارہ مئی کو کراچی کی سڑکیں ان کے حامیوں سے بھر جائیں گی۔ چیف جسٹس کی حامی وکلاء قیادت تو پہلے ہی کراچی میں چیف جسٹس کے استقبال کے شیڈول اور جلوس کے روٹ کا اعلان کر چکی ہے۔
مبصرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں اگر اس موقع پر کوئی فریق اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آتا اور بلا لچک رویے کے نتیجے میں تصادم ہوتا ہے تو پھر حکومت کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور بنیادی حقوق معطل کرنے کا جواز ہاتھ آ سکتا ہے۔اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ یا تو رب جانے یا مشرف جانے۔
بارہ مئی کا جلسہ ایک دم فضول اور واہیات ڈرامہ ہوگا اور مجھے امید ہے کہ لاکھ جتن کرنے پر بھی الطاف حسین کوئی خاص پرفارمنس نہ دے سکے گا۔
نعمان صاحب
اگر الطاف حسین کی جماعت بڑا جلوس نکالنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اس کی قدر نہیں ہو گی کیونکہ اس میں سرکاری بجٹ اور اثرورسوخ بے تحاشہ استعمال کیا جائے گا ۔
کل کے اخبارات میں چیف سیکریٹری سندھ نے چیف جسٹس سے اپیل کی کے وہ اپنی کراچی آمد مؤخر کردیں تاکہ تصادم کی صورت حال سے بچا جا سکے۔ لطیفہ دیکھیں کے انتظامیہ بجائے اس کے کہ اپنے جلسے کو مؤخر کریں اپوزیشن سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اپنا جلسہ مؤخر کریں۔۔
راشد کامران صاحب
اسے پنجابی میں کہتے ہیں ۔ نالے چور نالے چتّر ۔ اور اُردو میں کہتے ہیں ۔ خود میاں فصیحت اور دوسروں کو نصیحت
i know that when you will push the cat to the wall she(well! he can be a he too ) will attack back at you ….
but still even after all of this … i dont think that being chief justice, iftikhar should use politics …
(and being an army person sharfoo ( musharaf
) should have also not use politics at first place )
عمیر صاحب
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پولیٹِکس کا مطلب کیا ہے اور یہ لفظ کہاں سے آیا ؟ یہ یونانی زبان کے ایک لفظ پولِس سے بنا ہے جس کا مطلب ہے شہر یا ریاست ۔ اور پہلی بار پولِٹیکا کا لفظ ارسطو نے ریاست اور اس میں بسنے والوں کے حوالہ میں استعمال کیا ۔ جو بھی بات یا عمل یا چیز شہر یا ریاست سے یا اس میں بسنے والوں سے متعلق ہو گی وہ پولیٹِکس کہلائے گی ۔ عدالت اور جج کا تعلق براہِ راست ریاست یا شہر اور ریاست یا شہر میں بسنے والوں سے ہوتا ہے تو پھر عدالت یا جج پولیٹِکس سے باہر کیسے رہ سکتا ہے ؟
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سرٹیفیکیٹ بہت سے لوگوں نے لے رکھے ہیں مگر تعلیم یافتہ بہت کم ہیں ۔ خدا را جاہلوں کے نعروں پر نہ جائیں اور علم حاصل کریں ۔