ایک صاحب [جنہوں نے کئی بار درخواست کرنے پر بھی مجھے اپنا نام نہیں بتایا] نے پوچھا ہے “خدا کیا ہے ؟” یعنی اللہ کیا ہے ؟ میرا جواب چونکہ طویل ہے اور اپنی زندگی کے تجربات پر مبنی ہے اسلئے میں جواب اپنے روزنامچہ میں لکھ رہا ہوں ۔ اُن صاحب سے معذرت کے ساتھ ۔
ایک نظم میں نے ساتویں جماعت میں پڑھی تھی آج سے ستاون سال پہلے ۔ اس وقت اتنے ہی مصرعے دماغ میں آئے ہیں
خدا پوچھے گا
بتا اے خاک کے پتلے کہ دنیا میں کیا کیا ہے
بتا کہ دانت ہیں منہ میں تیرے کھایا پیا کیا ہے
بتا کہ خیرات کیا کی راہِ مولا میں دیا کیا ہے
بتا کہ عاقبت کے واسطے توشہ لیا کیا ہے
اللہ کیا ہے ؟ جس دن مجھے صحیح پتہ چل جائے گا اُس دن سے میں بہترین انسانوں میں سے ہوں گا اور مجھے دنیا کی کسی چیز کا ڈر رہے گا نہ ہوّس ۔
رہی میری عقل اور عملی زندگی تو میں نے اللہ کو ہمیشہ اپنے اتنا قریب پایا ہے کہ اس سے زیادہ قریب اور کوئی شے نہیں ہو سکتی ۔ 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد میں اور میری دونوں بہنیں سرحد پار گھر والوں سے بچھڑ گئے ۔ اُن کے 6 ہفتے بعد ہم بچوں کا بحفاظت پاکستان پہنچ جانا معجزہ سے کم نہ تھا اور یہ صرف اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہی کر سکتا ہے ۔ ان چھ ہفتوں میں ہمارے غم میں ہماے بزرگ اپنے حواس تقریباً کھو چکے تھے ۔
سال 1951ء میں بائیسائکل پر ناشتہ کا سامان لینے جا رہا تھا ۔ بائیسائیکل فُل سائیز تھا اور میری ٹانگیں چھوٹی تھیں ۔ صبح کا وقت تھا ابھی سورج نہ نکلا تھا ۔ سڑکیں خالی تھیں ۔ اچانک پیچھے سے گھوڑے دوڑنے کی آوازیں آئیں ۔ کئی ٹانگے دوڑ لگاتے ہوئے سرپٹ بھاگتے آ رہے تھے ۔ ایک ٹانگہ میری بائیں جانب سے بالکل قریب سے گذرا ۔ فوراً ہی ایک داہنی جانب اتنا قریب سے گذرا کہ اسکا پہیہ میرے بائیسائیکل کو شدید ٹکر مارتا ہوا نکل گیا ۔ میں بائیسائیکل سمیت زمین پر گرا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اور ٹانگہ تیز بھاگتا آ رہا ہے اور اس کا پہیہ میری گردن کے اوپر سے گذرنے والا ہے ۔ اچانک میرے اللہ نے میرے بائیسائیکل کو حرکت دی اور میرا سر گھوم کر ایک طرف ہو گیا اور پہیہ میرے سر کے بالوں کو چھُوتا ہوا گذر گیا ۔ یہ منظر ایک راہگیر بھی دیکھ رہا تھا وہ بھونچکا رہ گیا اور چند منٹ بعد مجھے زمین سے اُٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا اور میرے کان میں کہا “بیٹا ۔ گھر جاتے ہی کچھ اللہ کے نام پر دینا ۔ آج اللہ نے خود تمہیں پہیئے کے نیچے سے کھیچ لیا” ۔
اگست 1964ء میں ایک ٹریفک کے حادثہ کے بعد میں موت کے قریب تھا پھر موت طاری ہونے لگی ۔ اردگرد کھڑے لوگوں نے کلمہ طیّبہ بآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا لیکن کچھ دیر بعد جب جمع لوگوں کے مطابق میں مر چکا تھا میرے سوہنے اللہ نے مجھے اُٹھا کر بٹھا دیا ۔
دسمبر 1964ء میں مجھے بیہوشی کی حالت میں ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ۔ میرے جسم کے اندر کوئی خون کی نالی یا نالیاں پھٹ جانے سے دو دن میں میرا اتنا خون بہہ گیا تھا کہ ہیموگلوبن 14 سے کم ہو کر 7 گرام رہ گئی تھی ۔ ڈاکٹر میری زندگی سے نا اُمید ہو گئے تھے ۔ لیکن اللہ اُن پر مسکرا رہے تھے کہ “اے بندو ۔ تمہاری زندگی اور موت میرے ہاتھ میں ہے ۔ 84 گھنٹے میں بیہوش رہا اس کے بعد 10 دن بستر سے سر بھی نہ اُٹھا سکا ۔ اور صرف 30 دن دفتر سے غیرحاضر رہنے کے بعد اللہ کی مہربانی سے کام میں ہمہ تن گوش ہو گیا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا ۔
میں نے جون 1965ء میں ڈوبتے ہوئے ایک بچے کو بچانے کیلئے تیرنا نہ جانتے ہوئے دل میں کہا “یا اللہ اس بچے کو بچا” اور 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی ۔ میرے پیارے اللہ نے مجھے تیرا کر باہر نکال لیا اور بچے کو بھی بچا دیا ۔
اللہ ہی اللہ کیا کرو اور دُکھ نہ کسی کو دیا کرو
انکل اللہ جسے چاہے زندگی دے اور جسے چاہے موت۔۔۔
یہ سب پڑھ کر ایمان اور مضبوط ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ہے میرا ایمان اپنے اللہ پر بہت ذیادہ ہے، جو مانگا ہے اس سے ملا ہے اللہ کا شکر :)۔
عائشہ صاحب
بلا شُبہ اللہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت میں ڈبو دے جسے چاہے زندگی دے اور جسے چاہے موت لیکن اللہ کسی سے زیادتی یا بے انصافی نہیں کرتا بلکہ رحم و کرم زیادہ کرتا ہے ۔
السلام و علیکم
میں نے ان محترم کا بھی بلوگ پڑھا۔ صرف اتنا سمجھ پائی کہ جناب اب آہستہ آہستہ امریکہ کہ رنگ میں ڈھل رہے ہیں۔ میں لکھ کر دے دوں، آئیندہ ان کا سوال ہوگا، کیا واقعی خدا ہے؟
فی امان اللہ
صبا سیّد صاحبہ
اُن کی بہتری کیلئے دعا کیجئے
Undoubtedly a beautiful post …!
We actually recognize Allah and his love and his care from such incidents in our and other lives … Usually we take Allah for granted but a little bit of pondering over how easily our bigger problems, little depressions get resolve is all but Allah’s undue blessings and shower of bounties… !
Actually it may all look the explosion of wordiness, but from my personal experiences I’ve learnt this much … !
At times, I do a lot of “gilla shikwas ” to allah too but I guess all goes when its the relationship of love and friendship :>
اسماء صاحبہ
آپ نے درست کہا ۔ اللہ کو اس کی صفات سے پہچانا جاتا ہے ۔ صحیح انسان وہی ہے جو اپنے تجربہ سے سیکھے ۔ اللہ مہربان ہی رہتا ہے مگر انسان پر لازم ہے کہ کفر اور شرک نہ کرے ۔
Pingback: ماوراء » بلاگ ریویو