ہمارے اربابِ اختيار انگريزی دانی پر تُلے رہتے ہيں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ انگريزی کے بغير ترقی نہيں ہو سکتی ۔ ہم لوگ “اپنے ملک پر انگریزوں کے قبضہ سے پہلے کے نظام” کو کوستے اور “ہمارے لئے انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی نظام” کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ۔ ملاحظہ ہو ایک تاریخی حقیقت جو شائد صرف چند ایک پاکستانیوں کے علم میں ہو گی ۔ لیکن پہلے ایک لطیفہ ۔ ايک اَن پڑھ ديہاتی کے بيٹے لندن ميں آباد ہو گئے ۔ جب اُن کا کاروبار چل پڑا تو اُنہوں نے اپنے والد صاحب کو بُلا کر برطانيہ کی سير کرائی ۔ چار ماہ بعد جب وہ واپس گاؤں پہنچے تو گاؤں کے لوگ ان سے ملنے آئے ۔ ايک نے کہا “سنا ہے برطانيہ کے لوگ بہت ترقی کر گئے ہيں”۔ برطانيہ پلٹ ديہاتی نے فوراً کہا ” ترقی ؟ ایسی ترقی کی ہے اُنہوں نے کہ اُن کا بچہ بچہ انگريزی بولتا ہے”۔
ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون لارڈ میکالے [Lord Macaulay] کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835 عیسوی کے خطاب سے اقتباس ۔
“I have traveled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief, such wealth I have seen in this country, such high moral values, people of such caliber that I don’t think we would ever conquer this country unless we break the very backbone of this nation which is her spiritual and cultural heritage and, therefore, I propose that we replace her old and ancient education system, her culture, for if the Indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own, they will lose their self-esteem, their native culture and they will become what we want them, a truly dominated nation”.
ميں نے ٹيکنيکل کالج اور يونيورسٹی ميں انجنيئرنگ کے مضامين پڑھائے ہيں ۔ اس کے علاوہ انگريزی بھی پڑھائی ہے ۔ ميری پوری کوشش ہوتی تھی کہ جو بات طلباء کو سمجھ نہ آئے وہ انگريزی ہی ميں سمجھاؤں ۔ ليکن صورتِ حال يہ تھی کہ کئی طلباء امتحان ميں پرچہ تو صحيح حل کر ليتے تھے مگر ان سے پوچھا جائے تو پتہ چلتا کہ بات ان کو سمجھ نہيں آئی ۔ آخرِ کار مجھے اُنہيں اُردو ميں سمجھانا پڑتا ۔ اصل بات يہ ہے کہ قصور طلباء کا نہيں ۔ کوئی بھی طالب عِلم فطری طور پر صحيح سمجھ اور بہترين اظہار صرف اپنی زبان ميں ہی کر سکتا ہے ۔
ميں نے ميٹرک تک سائنس اور رياضی اردو ميں پڑھے ۔ اس کے بعد سب کچھ انگريزی ميں پڑھا ۔ اُردو بطور زبان ميں نے پہلی سے آٹھويں جماعت تک پڑھی تھی اور انگريزی بطور زبان پہلی سے بارہويں جماعت تک ۔ میں نے اردو اور انگريزی کو اچھی طرح پڑھا تھا چنانچہ مجھے ميٹرک کے بعد سب کچھ انگريزی ميں پڑھنے ميں خاص مشکل پيش نہ آئی ۔
اگر ترقی انگريزی پڑھنے سے ہو سکتی ہے تو پھر جرمنی ۔ فرانس ۔ چين ۔ جاپان ۔ ملائشيا وغيرہ نے کيسے ترقی کی وہاں تو ساری تعليم ہی ان کی اپنی زبانوں ميں ہے ۔ بارہويں جماعت ميں ہمارے ساتھ پانچ لڑکے ايسے تھے جو کہ خالص انگريزی سکول سينٹ ميری [Saint Marry] ميں پڑھ کے آئے تھے ۔ ان ميں سے تين لڑکے بارہويں کے امتحان ميں فيل ہوگئے ۔ اور باقی دو بھی انجنيئرنگ يا ميڈيکل کالج ميں داخلہ نہ لے سکے ۔ جب کہ ہمارے کالج کے اُردو ميڈيم والے 12 لڑکوں کو انجنيئرنگ کالجوں ميں داخلہ ملا ۔ ميڈيکل کالجوں ميں بھی ہمارے کالج کے کئی لڑکوں اور لڑکيوں کو داخلہ ملا جو سب اُردو میڈیم کے پڑھے ہوئے تھے ۔
ہماری قوم کی پسماندگی کا اصل سبب ہر دوسرے تيسرے سال بدلتے ہوئے نظامِ تعليم کے علاوہ تعليم کا انتہائی قليل بجٹ اور ہمارے ہاں اساتذہ کی تنخواہيں باقی سب اداروں سے شرمناک حد تک کم ہونا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں سوائے غیر ملکی ملکیت میں چلنے والے تعلیمی اداروں کے سب تعليمی ادارے قوميا کر ان ميں سياست کی پنيری لگا دی گئی اور ملک ميں تعليم کا تنزل تیزتر ہو گيا ۔ پھر انگريزی اور بين الاقوامی معيار کے نام پر مہنگے تعليمی ادارے بننا شروع ہوئے ۔ ہماری موجودہ حکومت نے تو ثابت کر ديا ہے کہ اچھی تعليم حاصل کرنا صرف کروڑ پتی لوگوں کی اولاد کا حق ہے ۔ اور عوام کی تعليم کو ایک ميٹرک پاس ريٹائرڈ جرنيل کے رحم و کرم پر چھوڑ ديا گيا ہے جس نے پریس کانفرنس میں کہا “ہم اسلامیات کو سلیبس سے نہیں نکال رہے ۔ ہم سکولوں میں قرآن شریف کے پورے 40 سپارے پڑھائیں گے” ۔ ایک صحافی نے سوچا کہ شائد غلطی سے زبان سے 40 نکل گیا ہے اور تصدیق چاہی تو وزیرِ تعلیم نے پھر کہا “ہاں ۔ 40 سپارے”۔
اصل میں انگریزی کو اول تو غیر ضروری اہمیت دی گئی ہے دوسرے اسے ٹھیک طرح پڑھایا ہی نہیں گیا۔ غیر پیشہ ور لوگوں کو اس کی تدریس پر لگایا گیا ہے جس کی وجہ سے آج ہمارا یہ حال ہے کہ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔
انگریزی پڑھانے کا جو طریقہ آج رائج ہے وہ ساٹھ سال سے باقی دنیا میں متروک ہوچکا ہے۔
شاکر صاحب
میرے بلاگ پر آنے کا شکریہ ۔
آپ کی رائے درست ہے ۔
انگریزی کو ایک زبان کے طور پر ہڑھا جائے تو اچھا ہے مگر ہمارے یہاں یہ قابلیت کے طور پر لی جاتی ہے!!!
انکل تاریخ کا مطالعہ ذرا مشکل کام ہے!! آپ نے جو اوپر Thomas Babington Macaulay کی تقریر کا اقتباس پیش کیا ہے اگر وہ درست ہے تو غور طلب ہے مگر میری علم کے مطابق 1834 سے 1838 تک ہندوستان میں تھا!! لہذا برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرنا اُس کے بس میں نہیں تھا!!
شعیب صفدر صاحب
میکالے 1934 عیسوی میں ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کا رکن بننے کے کے بعد برطانیہ گیا اور وہاں پارلیمنٹ کو خطاب کیا ۔ اس زمانہ میں آج کی نسبت سفر مشکل تھا مگر ناممکن تو عام آدمی کیلئے نہ تھا برطانوی حکومت کے اہلکار کیلئے کیسے بس سے باہر ہوتا ۔
السلامُ علیکم
یہ بات آپ نے بالکل ٹھیک کہی کہ موجودہ حکومت نے تعلیم جیسی بنیادی چیز صرف کروڑپتیوں تک محدود کر دی ہے۔ نا صرف تعلیم بلکہ ہر بنیادی سہولت صرف امیروں کی تک محدود ہے۔ ئام آدمی کی پہنچ ان چیزوں تک ممکن نہیں۔ میرے بھانجے کا ایک سال پہلے ایڈوانس میں داخلہ ہوا ہے۔ اوراسکول کی داخلہ فیس پچاس ہزار ہے۔ کیا یہ عام آدمی کی دسترس میں ہے؟ کیا اچھی تعلیم پر بنیادی حق صرف امیروں کا ہے؟
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اپنی حق حلال کمائی سے جو ٹیکس ہم بھرتے ہیں وہ کب تک حکمرانوں کی عیاشیوں میں برباد ہوگا۔ کب عوام کے دیے گئے ٹیکس کو عوام کی سہولیات کے لیے استعمال کیا جائے گا؟ ہم کیوں نہیں حکومت سے کبھی یہ پوچھتے کہ بیرونی دوروں، پروٹوکول، جلسہ جلوس اور ایسے دوسرے اخراجات کرن کے بعد جو پیسہ بچتا ہے اس میں سے ہر سال کتنا پیسہ حکومت تعلیم پر لگاتی ہے۔
مجھے یاد ہے چند سال پہلے برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلئیر نے اپنے بیٹے کے لیے ایک پرائیوٹ ٹیوٹر بلوایا تھا، جو ان کے گھر آ کر ان کے بیٹے کو ٹیوشن دیتا تھا۔ چند دنوں میں برطانوی عوام نے شور مچا دیا کہ وزیراعظم کا اپنے بیٹے کے لیے اس طرح سے پرائیوٹ ٹیوٹرسے پڑھوانا یہ ثابت کرتا ہے برطانوی درس گاہوں میں معیاری تعلیم نہیں دی جا رہی۔ اور اگر یہ بات ہے تو اس طرح کے ٹیوٹر ہر شہری کو مہیا کرنا حکومت کا فرض ہے کیونکہ اچھی تعلیم سب کا حق ہے۔ اس واقعے کے بعد ٹونی بلئیر نے ٹیوٹر ہٹا دیا تھا۔ ہم کب اپنے حکمرانوں سے جواب طلبی کریں گے؟ اور کب ہمیں جواب ملیں گے؟
تاریخ نے قوموں کو دیا ہے یہی پیغام
حق مانگنا توہین ہے، حق چھین لیا جائے
فی امان اللہ
صبا سیّد صاحبہ
حق نہ ملے تو چھین لیا جائے یہ بھی جہاد کی ایک قسم ہے جس کے نام سے ہمارے حکمران لرزتے ہیں اور بیوقوف عوام بھی ان کے ساتھ مل جاتے ہیں
میرے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر اچھی کتابیں اردو زبان میں دستیباب نہیں۔ اگر ترجمہ بھی کیا جاتا ہے تو وہ اتنا اچھا نہیں ہوتا کہ کتاب پوری طرح سمجھ میں آسکے۔ مثلاً میں نے او لیول اور اے لیول میں جو اکنامکس پڑھی وہ نہایت آسان اور عملی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے برعکس انٹرمیڈیٹ میں پڑھائی جانے والی اکنامکس کی اردو کتابیں میری سمجھ سے بالا تر ہیں ۔ اگر ان میں لکھے الفاظ میرے لیے اجنبی نہیں تھے لیکن ان الفاظ سے عملی طور پر کچھ سیکھنا ممکن دکھائی نہیں دیا۔
فروری 1835 میں میکالے انگلستان میں نہیں بلکہ انڈیا مین تھا۔ 2 فروری کو اس نے انڈیا میں تعلیم پر ایک منٹ پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انگریزی زبان اپنائی جائے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ آپ نے اوپر جو عبارت لکھی ہے وہ اس منٹ میں نہیں اور شاید میکالے نہیں کبھی نہیں کہی۔
Dear Uncle
Even today I Agree with the adress of Lord Macaulay, I am very much worried about the literacy rate of Pakistani nation. How we can improve our literacy rate.
یہ بحث ایسی ہئ ہے کہ پہلے انڈہ کی مرغی،
کیا ترقی یافتہ اقوام ایلئے ترقی یافتہ ہیں کہ وہ اپنی زبان میں تعلیم دیتی ہیں یا پھر اسلیے اپنی زبان میں تعلیم دیتی ہیں کیونکہ وہ ترقی یافتہ ہیں؟
میرا خیال جو یقیناً غلط بھی ہو سکتا ہے، کچھ یوں ہے کہ ہمیں چند سالوں تک تو قومی زبان کی رٹ چھوڑ دینی چاہیے، چند وجوہ کی بنیاد پر۔ پہلی بات کہ جو درسی کتابہیں ہیں اور دیگر ذخیرہ ئ علم ہے، اسکو اردو میں ڈھالنا مذاق نہیں۔ دوسری بات کہ انٹرنیٹ جو ایک اچھا ذریعہ ہے علم کا، اس سے ہم کٹ جائیں گے اگر صرف اردو میں تعلیم دی جائے تو، تیسری بات کہ علم بڑی تیزی سے تبدیل ہوتا ہے آجکل، ہم آج کچھ اردو میں ڈھال لیں، کل وہ متروک ہو گا۔ آخری بات کچھ سیاسی کہ اردو بھی تو ہم سب کی زبان نہیں، کبھی کسی پٹھان یا بلوچ سے اردو بال کر دیکھیے۔۔۔۔ مختصر کہ جو قوم ترقی کرتی ہے اسکا سب کچھ ترقی کرتا ہے مثلاً زبان، کلچر وغیرہ۔ اگر مسلمانوں نے کائی تیر مارے ہوتے تو آج گورے عربی سیکھتے، نہ کہ ہم انگریزی۔
عارف انجم صاحب
آپ کا خیال بالکل درست ہے ۔ تمام زبانوں میں جو بھی تعلیمی اور تحقیقی کُتب ہیں ان کا معیاری ترجمہ اُردو میں ہونا ضروری ہے ۔ یہ کام یونیورسٹیوں کے تجربہ کار اساتذہ کے ذمے کیا جاتا ہے ۔ اس کا فیصلہ نصف صدی سے زائد پہلے کیا گیا تھا لیکن خواجہ ناظم الدین کی حکومت کا توڑنا پھر 1958 کا مارشل لاء اور چلو چلی کا میلہ رہا تعلیم پر کسی نے توجہ نہ دی ۔ اس وقت جو تراجم موجود ہیں وہ سرکاری اہلکاروں کے من پسند ایسے لوگوں نے کئے ہیں جو نہ ضروری تعلیم رکھتے ہیں نہ تجربہ ۔
زکریا بیٹے
یہ میں نے کسی زمانہ میں کسی کتاب میں پڑھا تھا اور اپنے پاس لکھ لیا تھا ۔ اتفاق سے پرانے کاغذات میں مل گیا ۔ میرے پاس اسے مصدقہ ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔ یہاں میں اپنے دادا یعنی آپ کے پردادا کا چشم دید ایک واقعہ لکھتا ہوں جو کہ اُنہوں نے خود مجھے بتایا تھا ۔ اس زمانہ میں ایسے بہت سے واقات ہوئے ۔ میں پوچھتا ہوں تمام تاریخ کے ماہرین سے کہ بتائیں ایسا کوئی ایک واقعہ ہندوستان کی تاریخ میں کہیں درج ہے ؟
جب دادا جان نظام حیدرآباد سے قریبی تعلق رکھتے تھے [میری پیدائش سے بہت پہلے کا واقعہ] تو وائسرائے ہندوستان شکار کھیلنے حیدرآباد آیا ۔ شکار کے دوران اس کی بندوق خراب ہو گئی ۔ نظام حیدرآباد نے اپنے سب سے اچھے آرمورر کو دی کہ ٹھیک کر دے ۔ دو دن بعد آرمورر نے بندوق لا کر دی کہ صاحب سے کہیں کہ جانچ پڑتال کر لیں ۔ وائسرائے نے پڑتال کر کے کہا کہ ٹھیک ہو گئی ہے ۔ اس پر آرمورر نے وائسرائے کی بندوق اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیکار ہو گئی تھی اسلئے اس نے نئی بنا دی ہے ۔ وائسرائے دہلی چلا گیا ۔ کچھ دن بعد پیغام آیا کہ اس آرمورر کو دہلی بھیج دیں ۔ نظام حیدرآباد نے بڑی دھوم دھام کے ساتھ آرمورر کو دہلی روانہ کیا ۔ جب کئی دن بعد تک آرمورر واپس نہ آیا تو نظام حیدرآباد نے اپنا آدمی پتہ لگانے کیلئے دہلی بھیجا کہ آرمورر نے واپس آنا ہے یا اس نے وائسرائے کی ملازمت اختیار کر لی ہے ۔ نظام کے آدمی نے واپس آ کر بتایا کہ دہلی پہنچے پر وائسرائے نے اسے مروا دیا تھا ۔ کیا ایسا کرنا برطانوی قانون کے مطابق تھا ؟
اس کے علاوہ جو سلوک میرے آباؤ اجداد کے ساتھ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے روا رکھا [کچھ میری آپ بیتی میں درج ہے] کیا اس کا کوئی جواز برطانوی قانون کے مطابق تھا ؟
محمد عالمگیر صاحب
ہمارے ملک میں تعلیم کا ستاناس کرنے والے وہی لوگ ہیں جو قابض برطانوی حکومت نے تیار کئے تھے اور اب انہی کے بچے ہم پر مسلط ہیں ۔
فیصل صاحب
آپ دوسری طرف چلے گئے میں نے اس جواز کی مخالفت کی تھی کہ ہماری نااہلی یا پسماندگی کی وجہ ہماری قومی زبان ہے اور ترقی کی وجہ انگریزی بولنا ہے ۔ میں نے اپنی مثال دی تھی کہ میری کامیابی کی وجہ کیا ہے ۔ اصل مسئلہ تعلیم کی کسمپرسی ہے ۔
میں آپ سے متفق ہوں کہ ہر ضروری کتاب یا تحقیقی پیپر کا ترجمہ کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ یہ صرف تعلیمی ماہرین ہی کر سکتے ہیں لیکن اس کے بغیر گذاراہ نہیں اور ترقی بھی ممکن نہیں ۔
جہاں تک زبانوں کا تعلق ہے کم از کم ایک غیر ملکی ترقی یافتہ زبان ہر طالب علم کیلئے پڑھنا ضروری ہونا چاہیئے ۔ اور وہ اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اعلٰی تعلیم کیلئے غیر ملک میں جائے ۔
خیال رہے کہ علم کبھی متروک نہیں ہوتا اور اپنی قدر قائم رکھتا ہے ۔ ہماری قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں ہماری قومی اور چاروں صوبوں کی بڑی زبانیں میں سے بھی کوئی نہیں پڑھاتا اور نہ ہی کوئی انہیں سیکھنے کی سنجیدہ کوشش کرتا ہے ۔
میں پچھلے دس سال سے کمپیوٹر پر اُردو لکھتا تھا اور اس کو ای میل کی صورت میں بھیجنے کیلئے کتنے جتن کرنا پڑھتے تھے پھر جس کو بھیجتا اس کو بھی کئی جتن سیکھانا پڑتے ورنہ وہ اردو پڑھ ہی نہ سکتا ۔ پانچ سات لوگ تھے جنہوں نے تین سال قبل اُردو بلاگنگ پر کام شروع کیا اور اب گنیں کہ کتنے اُردو کے بلاگ ہیں اور کتنے طریقے ویب پر اردو لکھنے کے ایجاد کر دیئے ہیں ان جوانوں نے ۔
عربی زبان کے متعلق آپ کا خیال درست نہیں ہے اگر یورپ کے لوگ عربی نہ سیکھتے تو سائینس کی ان کتابوں کا ترجمہ کیسے کرتے جو چودہویں صدی عیسوی تک مسلمان سائنسدان لکھتے رہے ؟ وہ ابھی تک ایک پسماندہ قوم ہوتے ۔ اب اس زمانہ میں بھی یورپ اور امریکہ کے پڑھے لکھے لوگوں میں سے کچھ عربی سیکھتے ہیں اور تراجم بھی کرتے ہیں یہ صرف عربی کیلئے مخصوص نہیں وہ دوسری زبانیں بشمول اردو بھی سیکھتے ہیں ۔ عرب ملکوں میں بھی ایسے کئی پڑھے لکھے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنی زبان کے علاوہ دو مشہور غیرملکی زبانیں جانتے ہیں ۔
اجمل صاحب آپ کا بلاگ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور یہ جان کر اور بھی زیادہ کہ آپ زکریا کے والد ہیں۔ میں ضرور اس پر تحقیق کروں گا کہ رُکن برائے قانون لارڈ میکالے کب ہندوستان گیا اور کیا واقعی اس نے یہ کہا تھا یا اس سے ملتی جلتی تحقیق پیش کی تھی کیونکہ میں نے اس سے ملتے جلتے بیانات چند کتابوں میں ضرور پڑھیں اور اس کی تصدیق لازمی ہونی چاہیے۔
آپ بہت اچھا لکھتے ہیں اور خاص طور پر اردو کا جو درد آپ کے سینے میں ہے وہ میری دعا ہے کہ سب کے سینوں میں ہو۔
اجمل صاحب میرا دل کر رہا ہے کہ میں فیصل صاحب کی چند باتوں کا جواب دوں ۔
ایک تو اس کا کہ علم کبھی متروک نہیں ہوتا اور خاص طور پر آج کے زمانے میں جب کمپیوٹر کا دور دورہ ہے تو پھر تو علم کو بطور حوالہ بہت آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پوری ایک کتاب کو اگر وہ کمپیوٹر پر یونیکوڈ میں دستیاب ہے تو اس میں تبدیلیاں کرنا شاید دنوں یا زیادہ سے زیادہ ہفتوں کی بات ہوگی اور یہ طریقہ کار تو ہر زبان کو اپنانا پڑتا ہے کیونکہ علم بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے ۔ دوسرا مشین ٹراسلیشن کو اگر ہم خود آگے بڑھ کر اپنا لیں تو انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے کے لیے ہمیں اداروں اور خطیر بجٹ کی ضرورت نہ پڑے گی بلکہ سافٹ وئیر کے ذریعے یہ کام منٹوں میں خود بخود ہو جایا کرے گا کاش ہم لوگ حل کی طرف سوچیں بجائے تنقید ہی کرنے کے۔
اردو کسی کی مادری زبان نہیں شاید مگر پورے ملک کی قومی زبان ہے اور یہی اس زبان کا افتخار ہے۔ میری اپنی مادری زبان پنجابی ہے ، اس طرح بہت سے بلوچ ، پٹھان ، سندھیوں کو جانتا ہوں جو اپنی مادری زبان کے ساتھ اردو میں اتنی ہی روانی سے بات کرتے ہیں جتنی کوئی اہل زبان کر سکتا ہے۔
Mere pas yahan Urdu Font nahi hey so roman me likh raha ho
Jo bat ap ne sochi wo bohat se log sooch rahe hey or behas bhi kar rahe hey .. hamari jesi kom jo mulk me bijjli ka nizam sahi kar na saki taleem kaha sahi kar le gi … mere khial me urdu ko hi chood dena chahie rakho sirf angreezi ko urdu ko Alif se Yee tak khatam kio nahi kar dete ?
ریحان مرزا صاحب
بلا وجہ کی بحث میں جو قومیں لگ جاتی ہیں وہ اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ اس قوم کو اور کوئی کام نہیں آتا ۔ میں نے ایسے پڑھے لکھے لوگ دیکھے ہیں جو ایک محفل میں ایک موضوع کے خلاف بول رہے ہوتے ہیں اور دوسری محفل میں اسی موضوع کے حق نیں ۔
محب علوی صاحب
میرا روزنامچہ دیکھ کر آپ کو خوشی ہوئی زہے نصیب ۔ میرا روزنامچہ تو اتنا خشک ہے کہ اسے دیکھنے کیلئے ساتھ پانی کا گلاس رکھنا پڑتا ہے ۔ زکریا تو مجھ سے بہت بعد میں آیا البتہ میں والد اور زکریا بیٹا ایک ہی لمحے بنے تھے ۔ کیا خیال ہے ؟؟؟
لارڈ میکالے کے بیان کے متعلق بلکہ بہت سے واقعات کی از سرِ نو تحقیق کی ضرورت ہے ۔ کئی محقیقین اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارے پاس وہی تاریخ پہنچتی ہے جو حاکمِ وقت نے لکھائی ہوتی ہے ۔ البتہ عام طور پر سینہ بسینہ اور کبھی کبھی ذاتی نسخوں میں حقائق مل جاتے ہیں ۔ لارڈ مکالے 1934 سے 1838 تک ہندوستان میں تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دوران وہ برطانیہ بالکل نہیں گیا ۔
آپ کی نیک تمناؤں کیلئے ممنون ہوں
اجمل صاحب ،
آپ کا روزنامچہ میرے لیے تو بہت دلچسپ ہے اور میں تو اب آپ کا مستقل قاری ہوں۔ شاید کچھ لوگوں کو خشک لگتا ہو ورنہ دلچسپ انداز میں آپ نے سب بیان کیا ہے اور تبصروں کی تعداد اور تنوع سے بھی پتہ چلتا ہے کہ لوگ پڑھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں۔ زکریا کو میں اردو ویب کے حوالے سے کافی جان گیا تھا مگر آپ کو کافی دیر میں جانا اور اس سے بھی دیر میں پہچانا۔ آپ کی بات صحیح ہے کہ آپ اور زکریا ایک ہی وقت میں باپ اور بیٹا بنے بس بیٹے کا تعارف پہلے ہوا اور باپ کا بعد میں۔ آپ کی سوچ مجھے اپنی سوچ سے بہت قریب معلوم ہوتی ہے اس لیے لگتا ہے کہ خوب نبھے گی۔ لارڈ میکالے پر واقعی ہمیں اپنی کتابوں سے بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ معتبریت یا سند صرف انگریزوں ہی کی کتابیں کے لیے ہی مخصوص نہیں۔
آپ کے قلمی جہاد سے بہت لوگوں کا فائدہ ہوگا اسے یونہی جاری رکھیے اور ہمیں پڑھنے کے لیے مواد فراہم کرتے جائیں۔
محب علوی صاحب
آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ میں نے روزنامچہ شروع اس لئے کیا تھا کہ جو علم اور تجربہ میں نے بہت محنت کر کے حاصل کیا وہ جوان نسل تک پہنچا دوں ۔ نامعلوم کہاں تک کامیاب ہو رہا ہوں ۔
میرے خیال میں انگریزی سے جان چھڑانا اب کچھ زیادہ ہی مشکل ہوگیا ہے کیونکہ پوری دنیا میں اب یہ ایک حقیقی مسئلے سے زیادہ “ذہنی مسئلہ“ بن گیا ہے ۔ اب جو اچھی انگریزی بولتا یا لکھتا ہے اسے قابل آدمی تصور کیا جاتا ہے ، اسے اچھی نوکری ملتی ہے اور وہ زیادہ روپیہ پیسہ کما کر اچھی زندگی گزار سکتا ہے ۔
میرے خیال میں انگریزی نہ سیکھنے سے ہمارے مسائل کم ہونے کی بجائے اور بڑھیں گے ۔ ہاں اس کا ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ذریعہ تعلیم (اردو یا مقامی مادری زبان میں رکھیں ) اور ہر طالب علم کو کم از کم ایک بین الاقوامی زبان (جو انگریزی ، فرانسیسی وغیرہ ) ہوسکتی ہیں اچھی طرح پڑھائی جائیں –
روغانی صاحب
میں انگریزی کے خلاف نہیں ہوں ۔ میرے خیال کے مطابق انگریزی اور اُردو پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک ہر طالب علم کو پڑھائی جانا چاہیئے اس طرح کہ ان دونوں زبانوں پر طالب علم عبور حاصل کر سکے ۔ یہ اجازت اور انتظام بھی ہونا چاہیئے کہ انگریزی کی بجائے اگر کوئی طالب علم دوسری معروف غیر ملکی زبان مثال کے طور پر جرمن ۔ فرانسیسی ۔ چینی ۔ عربی یا جاپانی پڑھنا چاہے تو وہ پڑھ سکے ۔ تا کہ ہم صرف امریکہ اور برطانیہ کے محتاج نہ رہیں ۔ سب سے اہم اورجلدی کرنے والا کام تمام کتابوں کا ماہرین سے اردو میں ترجمہ کروانا ہے ۔
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی پر نظرِ ثانی
اسلام علیکم!
کچھ انہی الفاظوں کے ساتھ آج سے دو ڈھائی سال پہلے میں نے بھی لکھا تھا جسے یار دوستوں نے ووکشنل سطح کی تعلیم سے تشبیہ دی تھی۔
لنک یہ رہے۔
http://www.pakiez.com/64/16/01/2006
http://www.pakiez.com/83/31/03/2006