کچھ دن قبل نعمان صاحب نے کراچی میں بجلی کی ترسیل کے قصیدے یا نوحے لکھے تھے ۔ میں نے اُنہیں صبر کی تلقین کی تھی ۔ سوچتے ہوں گے کہ خود تو اسلام آباد کے وی آئی پی سیکٹر میں مزے لوٹ رہا ہے اور ہمیں فقط صبر کی تلقین کرتا ہے ۔ صورتِ حال یہ تھی اور ہے کہ ہمیں اس دن سے پچھلے پانچ دن سے یعنی 9 اپریل سے پانی کیلئے ترسانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ہم نیسلے کا پانی خریدنے کا مقدور نہیں رکھتے اسلئے ایک کلو میٹر دور جا کر پینے کیلئے پانی بھر لاتے ہیں سرکاری کنویں سے ۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا کوئی جوتشی شائد بتا دے ۔ اسلام آباد میں تو طوطے والے بھی نہیں ہوتے ۔ اس پر ہمیں صبر کے امتحان میں پورا اترتے دیکھ کر آج صبح آٹھ بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک بجلی بغیر اطلاع کے بند رکھی گئ ۔
نواز شریف تو قوم کو لوٹ کے کھا گیا ۔ اب حکومت ہے اصلی جمہوریت اور ملک پچھلے سات سال میں ترقی کر کے ملٹی سٹوری ہو گیا ہے ۔ یقین نہ آئے تو کوئی سا اخبار اُٹھا کر دیکھ لیجئے اگر پورے صفحے کا نہیں تو آدھے صفحہ کا رنگین اشتہار نظر آئے گا ملٹی سٹوری کا ۔ لیکن ہم عوام بالکل ناشکرے ہیں ۔ اگر سات سال میں آٹے اور دالوں کی قیمتیں دوگنا ہو گئیں ۔ دودھ کی قیمت 16 روپے سے 36 روپے فی لٹر ہو گئی ۔ سبزیوں کی قیمتیں تین گنا ہو گئیں تو کیا ہوا خزانے میں تو 13 بلین ڈالر جمع ہو گئے ہیں نا ۔ یہ الگ بات ہے کہ لوکل کرنسی میں قرضہ جو جون 1999 میں 2 ٹریلین 946 بلین تھا وہ بڑھ کر جون 2006 میں 4 ٹریلین 411 بلین ہو گیا اور اس کے علاوہ 30 جون 2006 کو زرِ مبادلہ میں 37 بلین 260 ملین ڈالر قرضہ بھی واجب الادا تھا اور جون 2006 کے بعد مزید 3 بلین ڈالر قرضہ حاصل کرنے کے معاہدے کئے گئے ہیں ۔
ہم اس پر بھی شکر گذار ہیں کہ جو مل رہا ہے ۔ اتنا بھی نہ ملے تو کیا کر لیں گے ۔