سورت 2 الّبَقَرَہ آیت 256 ۔ لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ڐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ
ترجمہ ۔ دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ (جس کا سہارا اُس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
سورت 2 الّبَقَرَہ آیت 257 ۔ اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ
ترجمہ ۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے ۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے حامی اور مددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لیجاتے ہیں ۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
طاغوت سے مراد ہے حد سے بڑھ جانے والی سرکش ۔ ظالم اور راہِ حق سے ہٹانے والی قوت ۔ طاغوت فرد بھی ہو سکتا ہے ۔ قوم بھی ۔ شیطان یا ابلیس بھی ۔ نظریہ یا نظام بھی ۔ کوئی چیز بھی یا کام بھی ۔ حتٰی کہ عِلم بھی
کافروں کا ہدف ۔ نصب العین اور وہ خاص نعرہ بھی طاغوت ہے جس کے تحت وہ جنگ لڑتے ہیں جیسے بھارت ماتا ۔ اکھنڈ بھارت ۔ آزاد خیالی (Liberalism)۔ نئی ترکیبِ دنیا (New World Order)۔ نسل پرستی ۔ قوم پرستی ۔ صیہونیت (Zionism)۔ بے جا رواداری (Excessive compromising)۔ اشتراکیت (Communism)۔ سرمایہ داری نظام (Capitalism)۔ کیونکہ یہ تمام نظام وحیِٔ الٰہی پر مشتمل نظام کے مدِمقابل کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ قرآن و سنّت پر مَبنی قوانین کی مخالفت کرتے ہیں اور اِسلامی ممالک میں اِسلامی قوانین کے نفاذ کے خلاف ایڑھی چَوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور اپنا باطل نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں
توہّمات بھی طاغوت ہیں ۔ ان میں جادو ۔ جیوتش ۔ فال گیری ۔ ٹُونے ٹَوٹَکے ۔ شگُون ۔ جَنَم پَتری (Horoscope)۔ ستاروں سے فال ۔ وغیرہ شامل ہیں
کچھ جدید ایجادات جو عصرِ حاضر میں انسانی استعمال کیلئے لازم سمجھی جاتی ہیں جیسے T.V., Computer ۔ یہ بھی بعض اوقات طاغوت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں ۔ انسان ان میں گم ہو کر دینی فرائض ہی بھول جاتا ہے ۔ میں نماز کی بات نہیں کر رہا ۔ حقوق العباد کی بات کر رہا ہوں
شاید یہ بات لَغَو یا کم اَز کم تعجب خیز محسوس ہو کہ عِلمِ دین بھی طاغُوت بَن سکتا ہے ۔ اِسے سمجھنے کیلئے نیچے دِیئے مکالمہ پر نطر ڈالیئے
”کیا عِلم طاغوت بن سکتا ہے ؟“
”جی ۔ ہاں“۔
”وہ کیسے ؟“
”حضرت ۔ میں بہت زیادہ عِلم حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ بہت زیادہ“۔
” تو حاصل کرلو ۔ کس نے روکا ہے ؟“
”جناب مسئلہ یہ ہے کہ عِلم بعض اوقات تکبّر پیدا کرتا ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہیں وہی سب کچھ نہ ہو جو شیطان کے ساتھ ہوا کہ وہ اپنے عِلم کے زعم میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوگیا؟“
”دو ہدایات پر عمل کرو ۔ پہلی یہ کہ جو علم حاصل کرو ۔ اس کی تمام اچھائیوں کو مِن جانب اللہ سمجھو ۔ ہر اچھی Quote, Article یا کتاب لکھو تو اس کے اچھے پہلووں کو مِن جانب اللہ سمجھو ۔ اس کا سارا Credit اللہ کے Account میں ڈال دو۔ اس سے ملنے والی تعریفوں پر یوں سمجھو کہ لوگ تمہاری نہیں بلکہ اس توفیق کی تعریف کررہے ہیں جو اللہ نے تمہیں عطا کی“۔
”بہت عمدہ بات کہی آپ نے حضرت ۔ دوسری ہدایت کیا ہے؟“
” دوسری ہدایت یہ کہ جب کسی کو عِلم سکھاؤ تو استاذ نہیں طالب عِلم بن کر سکھاؤ ۔ اس کو سمجھانے کی بجائے اس سے طالب عِلم بن کر سوال کرو ۔ اس کے سوالوں کے جواب ایک طالب عِلم کی حیثیت سے دو ۔ اپنی کم عِلمی اور غلطیوں کا کھُل کر اعتراف کرو ۔ اس طرح تم خود کو عالِم نہیں طالب عِلم سمجھو گے اور تکبّر پیدا نہیں ہوگا“۔
”بہت شکریہ حضرت ۔ آپ نے بہت اچھے طریقے سے بات کو سمجھایا”۔
یاد رکھو ۔ عِلم وہ ہتھیار ہے جس کا غلط استعمال خود کو ہی ہلاک کرنے کا سبَب بَن سکتا ہے ۔ شیطان سب سے زیادہ آسانی سے عالِم ہی کو پھانستا ہے ۔ پہلے اسے یہ یقین دلاتا ہے کہ ” تُم تو عالِم ہو ۔ تُمہیں سب پَتا ہے“۔
جب سب پتا ہے تو یہ کل کے بچے تمہارے سامنے کیا بیچتے ہیں؟ اس کے بعد لوگوں کو حقِیر دِکھاتا ہے ۔ لوگوں کے واہ واہ (Likes) کو استعمال کرکے انسان میں ” تکبّر “ اور ” اَنا “ کو مضبوط کرتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان خود کو عقلِ کُل سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ پھر اپنی اور دنیا والوں کی نظر میں عالِم اور مُتّقی نظر آتا ہے لیکن اللہ کی کتاب میں اسے ” ابوجہل“ لکھ دیا جاتا اور فرشتوں کی محفل میں اسے شیطان کا ساتھی گردانا جاتا ہے لیکن اسے خبر تک نہیں ہوتی
انکل جی بہت شکریہ ۔ ۔ ۔آپکا ۔ ۔ اتنی اچھی معلومات پہنچانے کا ، اللہ ہمیں ان طاغوتی طاقتوں سے بچائے آمین
اسلام و علیکم
بے شک بہت عمدہ تحریر ہے۔ میں جاننا چاہ رہی تھی کہ ہم اکثر ہاتھوں میں پتھر وغیرہ پہنتے ہیں، کہ یہ ہماری قسمت بدل دے گا، اور منت مانتے ہیں کہ اگر میری فلاں منت پوری ہوئی میں سانے کا یا چاندی کا زیور چڑھاوے میں چھڑاؤں گی، تو کیا یہ بھی طاغوت ہیں؟
اور استخارہ کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی ہدایت کی ہے، یہ تو طاغوت نہیں نا؟ کیونکہ عموماً استخارہ ہم نکالتے ہیں۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
فی امان اللہ
اظہرالحق صاحب
جزاک اللہ خیرٌ
صبا سید صاحبہ
اسلام علیکم و رحمتہ اللہ
ہاتھوں میں یا جسم کے کسی حصہ پر کوئی چیز اس لئے پہننا کہ ان سے کوئی مراد پوری ہو گی یا کچھ ملے گا میرے خیال میں شرک ہے اسی طرح گھر میں کوئی چیز رکھنا بھی ایسا ہی ہے ۔ مثلاً کچھ لوگ گھر کے دروازے پر گھوڑے کی نعل کی طرح کی چیز لٹکا دیتے ہیں کہ نظر نہیں لگے گی ۔ قبروں پر چڑھاوے ۔ پیروں سے مُرادیں یہ سب تعلیماتِ اسلام کے منافی ہے ۔ اگر اللہ سے دعا کی جائے کہ اللہ میری فلاں [جائز] خواہش پوری ہو گئی تو میں مسکین یا مسکینوں کو کھانا کھلاؤں گی یا کپڑے دوں گی ۔ تو یہ بھی اچھا عمل ہے ۔بغیر کسی دنیاوی غرض کے اپنے رشتہ داروں ۔ دوستوں ۔ محلہ داروں کو کھانا کھلانا یا تحفے دینا بھی کارِ ثواب ہے ۔
جب بھی کوئی پریشانی ہو استخارہ کرنا چاہئیے ۔ استخارہ اللہ کی مہربانی سے دلی اطمینان کا باعث بنتا ہے ۔ استخارہ کے نتیجہ میں خواب دیکھنا ضروری نہیں ہے ۔ پریشانی کی صورت میں قرآن شریف کی تلاوت بہترین علاج ہے مگر طوطے کی طرح نہیں ۔ بے شک تھوڑا ہی پڑھا جائے مگر سمجھ کر اور پھر عمل کی کوشش کی جائے ۔ اگر تلاوت نہ کی جا سکے تو تسبیح کرنا چاہیئے ۔ سبحان اللہِ و الحمدللہِ و لا الٰہ الاللہ و اللہ اکبر و لاحول وِلا قوتَ اِلّا بِاللہ العلی العظیم ۔
درُود [جو نماز میں پڑھا جاتا ہے] کا ورد بھی کرنا چاہیئے کیونکہ اللہ نے اس کا حُکم دیا ہے
فی امان اللہ
Shukriya Ajmal Bhai
A comrehensive explanation of this important word. Allah aapko jaza-e-khair day. Aap yahan aain to zuroor milain Main december main Pakistan Aa raha hoon aap say zuroor milnay key koshsish karoonga insha-Allah. Kiya aap pindi jain?
آپ کی نیک دعاؤں کا شکریہ ۔ جزاک اللہِ خیرٌ ۔ آپ کی دعوت کیلئے بہت مشکور ہوں ۔ دسمبر میں آپ تشریف لائیے میں میزبانی میں فخر محسوس کروں گا ۔ ہم اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
اسلام و علیکم
بہت بہت شکریہ انکل کہ آپ نے اتنا تفصیلی جواب دیا۔ آپ کے اس بلوگ سے میرے علاوہ اور لوگوں کو بھی نہایت مفید معلومات حاصل ہوئیں۔
فی امان اللہُ
صبا سیّد صاحبہ
السلام علیکم
آپ کی نوزش کیلئے مشکور ہوں ۔ لگتا ہے آپ نے میرے اشتہار لگوا دئیے ہیں ۔ ہی ہی ہی ۔
فی امان اللہُ
السلام علیکم،۔
اجمل صاحب، یہ آپ بہت اچھا کرتے ہیں جو گاہے بگاہے کؤی دینی معلومات دے دیتے ہیں اپنے بلاگ پر۔ اللہ آپ کو جزأے خیر دے۔
بات ہؤے انگوٹھی میں پتھر کی تو یہ تو بالکل صحیح بات ہے کہ انسان کا یقین اللہ پر ہونا چاہیٔے نہ کہ اللہ کی بے جان تخلیق پر۔ جب عمر رضی اللہ عنہ حج کے دوران حجر اسود کو بوسہ دینے لگے تو انہوں نے حجر اسود سے کہا کے اگر میرے نبی محمد (ص) نے تجھے بوسہ نہ دیا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
لیکن یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ رسول اللہ (ص) کی سنت میں ایک سنت انگوٹھی پھننا بھی ہے۔ رسول اللہ (ص) نے کٔی اقسام کی انگوٹھیاں پہنیں۔ ان میں سے جو سب سے مشھور تھی وہ ان کی چاندی کی انگوٹھے تھی جس پر ان کی مہر مبارک تھی۔ اس انگوٹھی پر “محمد رسول اللہ” کے الفاظ درج تھے جو ۳ سطور میں تھے۔ (بہ روایۃ انس رضی اللہ عنہ)۔
یہ انگوٹھی جب رسول اللہ (ص)نہ پہنتے تو اس وقت معیقب رضی اللہ عنہ کی حفاظت میں ہوتی۔ یہ انگوٹھی معیقب رضی اللہ عنہ کی حفاظت میں رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے تک رہی۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عریص مکے مقام پر ایک کنویں کے دہانے پر معیقب رضی اللہ عنہ نے یہ انگوٹھی عثمان رضی اللہ عنہ کو دکھأے۔ انگوٹھی واپس کرتے وقت، یہ انگوٹھی معیقب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے کنویں میں گر کٔی۔ اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو بہت ڈھنڈوایا پر انگوٹھی نہ ملے۔ رسول اللہ (ص) کی اس انگوٹھی کی مشابہت منع تھی اور اسی لیے معیقب رضی اللہ عنہ کو اس کی حفاظت کا ذمہ دیا گیا تھا۔
رسول اللہ (ص) کی ایک اور انگوٹھی جو چاندی کی تھی اور اس میں ‘حبشی پتھر’ لگا ہوا تھا۔ حبشی پتھر کی تشریح صحیح مسلم میں مختلف روایات کے حوالے سے مختلف دی گٔی ہے۔ کچھ علماء کا خیال ہے کہ حبشی پتھر کے معنے سیاہ رنگ کا پتھر ہے۔ کچھ کا خیال ہے، حبشی پتھر کے معنی عقیق ہے، کچھ کہتے ہیں حبشی پتھر ایک عام سا پتھر ہے جو حبشہ میں بکثرت پایا جاتا ہے اور اس میں سیاہ اور سفید دونوں رنگ ہوتے ہیں۔ رسول اللہ (ص) یہ پتھر والی انگوٹھی کو پہنتے وقت پتھر کو اندر ہتھیلی کی طرف گھما کر رکھتے تھے۔
ایک اور انگوٹھی جو رسول اللہ (ص) کو تحفے میں دی گٔی وہ ایک سونے کی انگوٹھی تھی۔ رسول اللہ (ص) نے اس کو اپنے داہنے ہاتھ میں پہنا۔ جب صحابہ نے دیکھا تو انہوں نے رسول اللہ (ص) کی اتباع میں سونے کی انگوٹھیاں بنوا کر پہن لیں۔ جب رسول اللہ (ص) نے یہ دیکھا تو وہ انگوٹھی اتار پھینکی اور کہا کہ آج کے بعد میں یہ انگوٹھی پھر کبھی نہیں پہنوں گا (سنن ترمذی)۔
ابو حلیمہ صاحب
آپ نے ماشاء اللہ انگوٹھی کی خاصی مفصل تاریخ بیان کی ۔ میں نے چالیس سال سے زائد پہلے جب قرآن شریف کا با ترجمہ مطالعہ شروع کیا تو پتہ چلا کہ سونے کے زیور تو لڑکیوں کو پہنائے جاتے ہیں ۔ اس پر منگنی کی سونے کی انگوٹھی جو میں نے کچھ ہفتے قبل پہنی تھی اُتار دی اور پھر کبھی میں نے انگوٹھی نہیں پہنی ۔ آج کل تو کچھ مرد سونے ہار پہنتے ہیں اورکچھ بیوٹی پارلر بھی جاتے ہیں ۔
جو میرا تھوڑا سا علم ہے اس کے مطابق انگوٹھی مُہر ثبت کرنے والی اس زمانہ میں جائز تھی کیونکہ مُہر کا طریقہ ہی یہی تھا جو کہ اب بدل چکا ہے بلکہ اب تو کمپیوٹر نے دستخط کی ضرورت بھی ختم کر دی ہے اور ایسے طریقے زیرِ استعمال ہیں کہ دستاویز کی نقل بمطابق اصل تیار کرنا نہائت مشکل ہے ۔ واللہ علم
assalam o alaykum,
Nice post – regarding Istikhara I must say many ppl take Istikhara as “Istikhbara” and that may be included in Taghoot …!
اسماء صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ
پہلے ایک عدد جھاڑ ۔ آپ انگریز کیوں بنتی جا رہی ہیں ؟ اُردو میں کیوں نہیں لکھتیں ؟ تعریف کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے میں نے جھاڑ دال دی ۔ ہی ہی ہی ۔
یہ استخبارا کیا ہوتا ہے ؟ میرے علم میں یہ لفظ نہیں ہے ۔ از راہِ کرم ذرا واضح کیجئے ۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ،
انگریز نہیں بنتی جا رہی ، سست ہوتی جارہی ہوں، اردو لکھنے کیلئیے مجھے نوٹ پیڈ کھولنا پڑتا ہے
استخبارہ یعنی کہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ استخارہ ایک واضح “خبر“ ہی ہوگا، ضروری نہیں کہ ہر مرتبہ استخارہ کا کوئی نتیجہ ہی نکلے ۔۔۔ نیز جسطرح چند ٹی وی چینلز پر آجکل استخارہ کیا جاتا ہے ۔۔۔ جانے وہ کیا کرتے ہیں اور کونسی سنت پہ چل رہے ہیں، یہ لوگوں کو اپنی راہ سے مزید بھٹکانے والی بات ہے۔
والسلام
السلام علیکم و رحمتہ اللہ،
آپ اتنا تردّد کیوں کرتی ہیں ؟ اُردو لکھنے کیلئے نوٹ پیڈ تو اُن دنوں کھولنا پڑتا تھا جب اُردو انٹرنیٹ کیلئے اجنبی تھا ۔ میں تو ایک عرصہ سے ایم ایس ورڈ میں لکھ کر کاپی پیسٹ کرتا ہوں ۔ آپ کو دقت ہو تو بتائیے ۔ میں آپ مکمل طریقہ لکھ بھیجوں گا ۔
تو “استخبارہ” خود ساختہ لفظ ہے ۔ آپ نے ٹھیک کہا کہ ہر مرتبہ استخارہ کا کوئی نتیجہ نکلنا ضروری نہیں ۔ اس سلسلہ میں میں نمبر 3 پر لکھ چکا ہوں ۔
ٹی وی چینلز کی کیا بات کرنا ۔ ایک چینل پر ایک صاحب بغیر چند ماہ کا باقاعدہ دینی کورس کئے عالم بنے بیٹھے ہیں اور اپنے جیسوں کو اپنے پروگرام میں بُلا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں ۔
اللہ حافظ
حیرت ہے کہ اپ لوگ اردو لکھنے میں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں۔میں تو اجمل صاحب کے بلاگ پرکمنٹری بکس میں ہی صرف “الٹ+شفٹ” دباکر اردو کو زبان کو سلیکٹ کرکے لکھنا شروع کردیتا ھوں۔ اس کے لیے مین نے اردو فونیٹک کیبورڈ انسٹال کیا ہوا ھے۔ اور اردو کے فونٹس بھی۔ اور بس۔۔۔۔ کام چلتا رہتا ھے۔۔۔تو شروع کیجیٰے
نسوار خان صاحب
مشوررہ کا شکریہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
موضوع تھا طاغوت پر اور چل پڑا پتھروں اور سونا پہننے پر۔
کسی جگہ لفظوں کا ہیر پھیر ہوتا ھے جو کہنے اور سننے میں فرق ڈال دیتا ھے۔
کسی بھی قسم کو پتھر پہننے سے قسمت کا بدلنا، یا نہ بدلنا یہ سوال نہیں ھے۔
پتھروں کے اندر کچھ اثرات ہوتے ہیں جو انسانی جسم سے لگنے کے بعد اس کے خون کی رفتار کو سست یا تیز کرتے ہیں۔ جس سے اس کے جسم اثر انداز ہوتا ھے۔
پتھر پہننے سے قسمت نہیں بدلتی بلکہ اس کو پہننے سے انسانی جسم میں خون کی سرکولیشن بدلنے سے انسان کے اندر تبدیلیاں رونما ہوتی ھیں جس سے اس کی زندگی اثر انداز ہوتی ھے۔
سونا عورتوں کو پہننے کا حکم ھے اور مردوں کو اس کی ممانعت ھے کیونکہ سونا کے اندر جو ریز ہیں وہ انسانی جسم سے لگنے کے بعد اس کے خون کو گرم کرتی ہیں جس سے کہ مرد کو پہننا منع ھے اور عورت کے پہننا اسی لئے جائز ھے کہ عورتوں کے جسم میں ہر مہینے جو تبدیلیاں رونما ہوتی ھیں وہ ان کو وضع کرنے میں آسانی اور موثر کام سرانجام دیتا ھے۔
اسی طرح ریشمی کپڑا بھی مردوں کو پہننا منع ھے کیونکہ اس کے اندر میگنیٹک ریز بہت زیادہ ھیں اگر شادی شدہ مرد بھی پولییسٹر کاٹن مکس پہنے گا تو اسے بھی سونے کے وقت اور چلتے پھرتے ایک خاص چیز کی شکایت رہے گی کیونکہ یہ بھی خون کی حرکت کو بہت ہی تیز کر دیتا ھے۔
امید کرتا ہوں آپ کو کچھ سمجھ ضرور آئے گی
والسلام
کنعان صاحب
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے جو چیز بھی بنائی ہے اُس میں خوبیاں رکھی ہیں ۔ اور انسان کو غور و فکر کی ترغیب بار بار دی ہے ۔ لیکن ابلیس کے ہتھے چڑھا انسان اُلٹا اللہ پر ہی تحقیق شروع کر دیتا ہے
جزاک اللہ خیراً کثیراً : )