ایک ماہ قبل اپنی بيگم کی چُنيدہ قرآنی دعاؤں والی فائل ڈھونڈ رہا تھا کہ مُجھے اپنی بہت پُرانی ايک نوٹ بُک کے کُچھ اوراق ملے ۔ یہ نوٹ بُک حوادثِ زمانہ سہتے سہتے ورق ورق ہو کر منتشر ہو چکی تھی ۔ ان اوراق سے اپنی پچپن سال قبل لکھی ہوئی ايک نظم نقل کر رہا ہوں جب ميں نويں جماعت ميں پڑھتا تھا ۔ اُس زمانہ میں فيشن نے اچانک کروٹ لی اور جوان لڑکے لڑکيوں نے مغرب کی تقليد میں بہت چُست کپڑے پہننے شروع کر ديئے ايسے کہ بعض پہ شک ہوتا شائد جسم پر رکھ کر سِیئے گئے ہيں ۔ اس لباس کو ٹَيڈی لباس کہا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی ميک اَپ اور فلم بينی کا رواج بھی بڑھا ۔
ہر موڑ پہ تم رنگِ زماں ديکھتے جاؤ
خاموش يہ سيلِ رواں ديکھتے جاؤ
تھيئٹر کو جاتے ہيں مسجِد سے نکل کر
اِسلام کے يہ روحِ رواں ديکھتے جاؤ
نازک جو ہوئی دخترِ ملت کی طبيعت
پردہ بھی ہوا اس پہ گِراں ديکھتے جاؤ
ہونٹوں پہ لِپ سٹِک رُخسار پہ پاؤڈر
يہ دُخترِ ملت ہے رواں ديکھتے جاؤ
اندھے ہوئے مغربی فيشن کے جنوں سے
انساں سے بنے ٹيڈی انہيں ديکھتے جاؤ
ہے اوجِ ترقی کی طرف رواں يہ زمانہ
اجمل کھڑے رفتارِ زماں ديکھتے جاؤ
بہت خوبصورت انکل، گویا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے، ویسے شاعری کرتے رہے یا چھوڑ دی، اگر کی تو اور بھی کچھ سناءیے ضرور۔
بہت خوب انکل جی ، اصل میں میں نے پہلے تبصرہ پوسٹ کیا تھا گھر سے مگر وہ نہیں آیا پتہ نہیں کیوں ، خیر ، آپکی یہ شاعری موجودہ حالات سے میل کھاتی لگی ، اور یہ بھی پتہ چلا کہ ۔۔ ۔ آتش بچپن میں ہی جواں ہو گیا تھا ؛) آپکی مزید تخلیقات کا انتظار رہے گا ۔ ۔۔ اللہ آپکو صحت و تندرستی دے (آمین)
فیصل اور اظہرالحق صاحبان
محبت یا عشق تو پتھروں کے سوا سب میں ہوتا ہے اور میں تو انسانوں میں سے ہونے کا دعویدار ہوں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں نے ہوّس کو بھی عشق کا نام دے کر عشق بدنام کر دیا ہے ۔ محبت اور ہوّس پر شائد آپ نے کچھ دن پہلے میری تحریر پڑھی ہو ۔
رہی شاعری تو جو لوگ کہتے ہیں یہ کسی مخالف جنس سے محبت کا نتیجہ ہوتی ہے میں اُن سے اتفاق نہیں کرتا ۔ ہر انسان میں کچھ خُو اللہ سُبْحَانُہُ و تَعَالٰی رکھتا ہے اور کچھ انسان پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اپنائے ۔ سو ایک تو اللہ نے مجھ میں ایسی خُو رکھی کہ میں ہر چیز کو ممکن سمجھتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ اگر نیک نیّتی سے محنت کی جائے تو اللہ کامیابی دیتا ہے ۔ اور اظہرالحق صاحب آپ بھی یہ آزما چکے ہیں ۔ پھر میری تعلیم و تربیت کچھ ایسی ہی ہوئی ۔
جب میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا تو ہم جماعت لڑکے سے میری بحث ہو گئ ۔ وہ کہتا تھا کہ شاعر پیدائشی ہوتے ہیں اور میں کہتا تھا نہیں اس قسم کے کام محنت سے حاصل ہو سکتے ہیں ۔ چنانچہ اس زمانہ میں میں نے کئی نظمیں لکھیں ۔ پھر یہ شغف چھوڑ دیا ۔ جتنا میں ہر قسم کے علم کا بھوکا تھا میرے چھوٹے بھائی اتنے ہی بے نیاز تھے اور کورس کے علاوہ سب کچھ حرام سمجھتے تھے ۔ 1964ء میں میری عدم موجودگی میں راولپنڈی شہر سے سیٹیلائٹ ٹاؤن منتقل ہوئے اور میرا اس وقت کا علمی خزانہ ردّی کی نذر ہو گیا ۔ ایک جیبی ڈائری اتفاقاً بچ گئی ۔ پھر 1990ء میں اسلام آباد منتقل ہوئے تو یہی کچھ ہوا ۔ چنانچہ 1994ء میں میرے اسلام آباد منتقل ہونے سے پہلے ہی میں مکمل طور پر بے علم ہو چکا تھا ۔
السلام و علیکم
بہت اعلٰی نظم لکھی ہے آپ نے۔ آپ اب بھی لکھتے ہیں؟
ویسے میرا بھی یہی خیال ہے کہ شاعر پیدایشی ہوتے ہیں۔ اور اگر آپ نے شاعری کی تو پھر یہ آپ کا خدا کی طرف سے دی ہوئی صلاحیت ہے۔ ہمارے ملک میں کتنے نوجوان شاعری کرتے ہیں، اور اس کے لیے محنت بھی کرتے ہیں، مگر کتنے فیصد معیاری شوعری کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اس کا تو سب کو علم ہے۔ بحرحال یہ نظم بہت اچھی ہے۔ اور میں اسے اپنی ڈائری میں آپ کے حوالے س نقل کرنے جا رہی ہوں۔ اُمید کے آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
میرئ بلوگ پر آپ کے کمنٹس کا شکریہ، اس کا جواب وہیں میں نے لکھا ہے۔
فی امان اللہ
صبا سیّد صاحبہ
السلام علیکم و رحمة اللہ
تعریف کا شکریہ ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں جو کچھ بھی ہوں صرف اللہ کی دی ہوئی توفیق سے ہوں ۔
اور ہاں ۔ میں شاعر کیا بنوں گا میں تو شائد ابھی صحیح انسان بھی نہیں بن پایا ۔
آپ بصد شوق ان اشعار کو اپنی ڈائری میں لکھ لیجئے ۔ میں اس عزت افزائی کیلئے آپ کا شکر گزار ہوں گا ۔