عنوانات ۔ محفوظ کون ؟ ۔ انتظامیہ کی مجبوری ۔ کرائسِز سینٹر ۔ اُڑتی گولی ۔ باغیچہ میں لاشیں ۔
وہ خبر ہمارے ملک میں خبر نہیں ہوتی جو اخبار میں نہ چھپے یا اندر کے صفحہ پر چھوٹی سی ہو یا اصلیت کے مطابق نہ چھپے ۔ آج کچھ ایسی ہی خبریں
محفوظ کون ؟
میں ایف 8 میں رہتا ہوں ۔ ایک ہی پلاٹ کی چاردیواری کے اندر چار ملحقہ گھر بنے ہوئے ہیں جن میں ہم چاروں بھائی رہتے ہیں ۔ ہمارا سیکٹر اسلام آباد کے غیر سرکاری علاقہ میں محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے ۔ ہمارا یہ بھرم پچھلے ماہ ٹوٹ گیا جب میرے چھوٹے بھائی کے گھر اور پچھلی سڑک پر ایک گھر میں نقب لگائی گئیں ۔ لوگ تو پہلے سے کہتے ہیں کہ سوائے صدر صاحب اور اُن کے خاص آدمیوں کے کوئی محفوظ نہیں ۔
انتظامیہ کی مجبوری
معلوم ہوا ہے کہ حکومت کو لال مسجد کی انتظامیہ کے سامنے اسلئے جھُکنا پڑ گیا ہے کہ اسلام آباد میں روزافزوں فحاشی کے اڈے بہت لوگوں کے علم میں ہیں ۔ حکومت نے ان اڈوں کو بند کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ دیکھتے ہیں اس وعدہ کا کیا ہوتا ہے ۔ قوم کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں میں سے تو کوئی پورا نہیں ہوا ۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ لال مسجد کی انتظامیہ کے ساتھ بھی پچھلے سالوں میں کئی وعدے کئے گئے جن کو پورا کرنے کی بجائے مسجدوں اور مدرسوں پر چڑھائی کر دی گئی ۔
کرائسِز سینٹر
اسلام آباد میں ایک کرائسز سینٹر ہے جس کی انتظامیہ کا دعوٰی ہے کہ وہاں بےکس اور مظلوم عورتوں کی دیکھ بال کی جاتی ہے بالخصوص جو مردوں کی بدکاری کا شکار ہوں ۔ ایک 16 سالہ لڑکی جسے ایک پولیس والے نے اغواء کر کے قبائلی علاقہ میں پہنچا دیا تھا حال ہی میں باز یاب ہوئی تو اُسے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد لڑکی کی ماں کی درخواست پر کرائسز سینٹر میں داخل کرا دیا گیا ۔ وہ لڑکی حاملہ ہے ۔ 31 مارچ کو اس لڑکی کو کرائسز سینٹر والوں نے زبردستی نکال دیا تو اسکی ماں اُسے اپنے ساتھ لے گئی ۔ لڑکی کی ماں نے لڑکی کو کرائسز سینٹر سے نکالنے کی یہ وجہ بتائی ہے کہ کرائسز سینٹر والے کہتے تھے کہ بچہ پیدا ہونے پر اُن کو دے دیا جائے ۔ جب لڑکی نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو اُسے زبردستی کرائسز سینٹر سے نکال دیا گیا ۔
اُڑتی گولی
پیر 6 مارچ کو ہمارے گھر سے کوئی 500 میٹر کے فاصلہ پر ایک 75 سالہ ریٹائرڈ ائریکموڈور بڑی سڑک کے کنارے پیدل چلتے ہوئے جا رہے تھے کہ کہیں سے اُڑتی ہوئی ایک گولی آ کر اُن کے جبڑے میں گھُس گئی ۔ ہمت کر کے وہ اپنی رہاش گاہ پہنچے جو کہ قریب ہی تھی اور اُنہیں فوراً گاڑی میں ڈال کر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پہنچا دیا گیا ۔ جہاں اُن کی جراحی ہونا تھی ۔ اس کے بعد کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔ اُن کا خاندان بحرین میں ہے۔ وہ اکیلے کسی کام سے آئے ہوئے تھے ۔ جائے واردات سے تھانہ مارگلہ 100میٹر ہو گا ۔ اور قُرب و جوار میں کوئی شادی یا جشن نہیں ہو رہا تھا کہ کہا جائے کسی نے خوشی کے اظہار کیلئے پستول چلایا ہو گا گو یہ عمل بھی ممنوع ہے
باغیچہ میں لاشیں
ہمارے گھر سے ایک سو میٹر کے فاصلہ پر بچوں کیلئے ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے جس میں جھُولے وغیرہ لگے ہوئے ہیں ۔پیر 6 مارچ کو دن کے گیارہ بجے قریبی مکان میں رہنے والی ایک خاتون گولی چلنے کی آواز سُن کر کچھ دیر بعد باہر نکلی تو اُس نے اپنے گھر کے قریب باغیچہ میں ایک بنچ پر ایک جوان لڑکی اور زمین پر ایک جوان لڑکا خون میں لت پت پڑے دیکھے ۔ اس نے گھر جا کر پولیس کو ٹیلیفون کیا جو کچھ دیر میں پہنچ گئی کیونکہ وہاں سے تھانہ مارگلہ کوئی 250 میٹر ہو گا ۔ لڑکے کے بائیں ہاتھ میں پستول تھا ۔ لڑکا لڑکی دونوں ہمارے سیکٹر سے تعلق نہیں رکھتے تھے ۔ حسبِ معمول اسے محبت کا شاخسانہ کہا جائے گا اور اس بنیاد پر کہ عاشق نے محبوبہ کے انکار پر اُسے قتل کر کے خودکُشی کر لی معاملہ داخل دفتر کر دیا جائے گا ۔ میرا ذہن اسے قبول نہیں کرتا اور کہتا نہ کہ یہ دوہرا قتل ہے ۔ لڑکے کے بائیں ہاتھ میں پستول جبکہ لڑکی کو گولی بائیں کنپٹی پر اور لڑکے کو داہنی کنپٹی پر لگی ہے ۔ جائے واردات سے دو خول [Cases] ملے اور لڑکے کی جیب میں سے باقی کارتوس [Cartridges] ملے ۔
محبت کو دنیا میں ہوّس کے ساتھ مخلّط کر کے اتنا بدنام کر دیا گیا ہے کہ ہر جرم محبت پر عائد ہو جاتا ہے حالانکہ محبت ایک پاکیزہ جذبے کا نام ہے جو کہ خالق نے مخلوق میں رکھا ہے ۔ صرف انسان میں نہیں چرند پرند میں بھی ۔ محبت کرنے والے کا جذبہ تو یہ ہوتا ہے
تم اگر بھول بھی جاؤ تو یہ حق ہے تم کو
میرا کیا ہے میں نے تو محبت کی ہے
تم اگر تیر بھی چلاؤ تو یہ حق ہے تم کو
میں مر کر بھی میری جاں تمہیں چاہوں گا
انکل جی ، کیونکہ میری فیملی بھی پنڈی میں رہتی ہے اور وہاں کے حالات اسلام آباد سے کچھ مختلف نہیں ہیں ، پنڈی کو فوجیوں کا شہر بھی کہا جا سکتا ہے ، مگر لاقانونیت اتنی ہے کہ اللہ کی پناہ ، مجھے یاد ہے کہ نعمان کے بلاگ پر جب میں نے اپنے گھر میں ایک ڈاکے کا ذکر کیا اور بتایا کہ پولیس نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا تو صاحب نے فرمایا کہ ہمیں صبر کرنا چاہیے ، اصل میں ہم بہت سارے حقائق کو جو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔۔ دوسروں کو سمجھا نہیں پا رہے ، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے ، کہ انتظامیہ مجبور ہے ، اگر کسی کے خلاف کوئی کاروائی ہوتی بھی ہے تو وہ کسی منسٹر یا افسر کا رشتہ دار یا دوست نکلتا ہے اور ۔ ۔ ۔ پھر سب کچھ سرد خانے میں ۔ ۔ ۔ آپ نے صحیح کہا کہ ہمارا میڈیا بھی رپورٹنگ صحیح نہیں کرتا ۔ ۔۔ مگر میڈیا بھی کیا کرے اسے بھی زندہ رہنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ (؛ اور زندہ رہنے کے لئے آجکل ۔ ۔ کچھ درندگی اور شرمندگی کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ ۔۔
اظہرالحق صاحب
مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ انتہائی خود غرض اور کوتاہ اندیش ہو چکے ہیں ۔ ہمیں سوئی چُبھے تو چِلّاتے ہیں اور دوسرے کی گردن کٹنے پر بے حس رہتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ کل کلاں وہی ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔ ہمارے اس برتاؤ کی وجہ ہماری جہالت ہے ۔ ڈگریاں حاصل کر کے کوئی تعلیم یافتہ نہیں بنتا بلکہ علمِ نافع پر عمل کرنے سے بنتا ہے ۔
be more powerful … that the only solution …
if you are powerful nobody will dare touch you …
and yes pray from allah … thats the most important thing …
عمیر صاحب
طاقتور دو طرح کا ہوتا ہے ۔ ایک ظاہری اور دوسرا باطنی ۔ ظاہری طاقت کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کے پاس نیوکلیئر ڈیوائس ہے ۔ اسے ہدف پر پہنچانے کیلئے مزائل بھی اور لڑنے والی اچھی فوج بھی مگر امریکہ سے ایک ٹیلیفون سُن کر ہمار کمانڈو جنرل صدر صاحب کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور وہ لیٹ گئے ۔ ایران جس کے پاس فوج تو اچھی ہے مگر نیوکلیئر ڈیوائس نہیں ہے اور ہماری طرح دور مار کرنے والے مزائل بھی نہیں مگر وہ ڈٹا ہوا ہے اور مغربی دنیا کو مذاکرات پر مجبور کر رہا ہے ۔ ایران کے پاس باطنی طاقت ہے ۔ کیونکہ ایک تو ان کے لیڈر عوام کا مال لُوٹ کر اپنے محل نہیں بنا رہے دوسرے ان کو اللہ پر یقین ہے ۔
اللہ سُبْحَانُہُ وَ تُعَالٰی اُس کی دُعا قبول کرتا ہے جو اللہ پر یقین رکھتے ہوئے توبہ کرے ۔ توبہ کا مطلب اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور آئندہ کیلئے گناہ نہ کرنے کا وعدہ ہوتا ہے ۔
ویسے مجھے سمجھ نہیں آئی ۔ کیا آپ نے “محفوظ کون ؟” پر تبصرہ کیا ہے ؟