میں نے کل لکھا تھا حال پانی کے بعد بجلی کی صرف ایک واردات کا ۔ تو ہوا یوں کہ بعد دوپہر 3 بجے بجلی پھر ایک گھینٹہ لاپتہ رہی اور ساڑھے چار بجے پھر غائب ہو گئی ۔ آجکل بہت انسان غائب ہو رہے ہیں اور بی بی سی کی تا زہ خبر کے مطابق پاکستان کے علاوہ آزاد جموں کشمیر کے صرف ایک شہر سے 15 افراد لاپتہ ہو گئے ہیں اور لوگ کہتے ہیں ایجنسیوں والے لے گئے ہیں ۔ گمان ہوا کہ بجلی بھی کہیں ایجنسی والوں کے ہاتھ نہ آ گئی ہو ؟ ایک تجربہ کار عقلمند نے کہا “نہیں ۔ ایجنسی والے بجلی کو ہاتھ نہیں لگا سکتے”۔ ہم نے پوچھا “آخر کیوں ؟” تو بولے “بجلی کرنٹ مارتی ہے” ۔ کہتے ہیں کہ سیانے کی بات پلے باندھ لینا چاہیئے ۔ اب سمجھ آ ئی کہ بااثر لوگوں ۔ غنڈوں ۔ بدکاری کرنے والوں اور ڈاکووں وغیرہ کو ایجنسیوں والے کیوں ہاتھ نہیں لگاتے ؟ وہ کرنٹ مارتے ہیں ۔
جی انکل جی سچی بات ہے کہ وہ لوگ کرنٹ مارتے ہیں ، مگر میں ایجنسیوں کو بادل سمجھتا ہوں جن سے برق دیکھ دیکھ کر منتخب لوگوں پر گرتی ہے اور کبھی کبھی یہ بادل گرجتے ہیں تو ڈرا دیتے ہیں اور برستے ہیں تو ہر جانب جل تھل کر دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ رات کراچی میں ایک دوست کو فون کیا تو کہنے لگا بند کرو ، کل سے بجلی نہیں ہے اور چارجنگ فنش ہو چکی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس بجلی کی وجہ سے رویوں میں جو تبدیلی آ رہی ہے ۔ ۔ ۔ وہ شاید عوام کو سڑکوں پر لے آئے ۔ ۔ ۔ ویسے کچھ شعر یاد آئے
بجلی کی طرح اسکا آنا جانا ہے
محبوب بھی ہے میرا واپڈا کی طرح
کبھی اٹھاتا ہی نہیں ہے فون اپنا
ایسا ہے اس سے گلہ واپڈا کی طرح
اظہرالحق صاحب
واقعی جب بجلی جائے تو کمپلینٹ پوسٹ کا ٹیلیفون انگیج ہی رہتا ہے اور شکائت کرنا یا پوچھنا کہ بجلی کب آنے کی اُمید ہے ممکن نہیں ہوتا