اظہرالحق صاحب کی تحریر “انقلاب کا بیج بویا جا چکا ہے ” پر تبصررہ کچھ تفصیل طلب تھا اور اس میں نوجوان نسل کیلئے اپنا علم اور تجربہ پیش کرنا بھی قومی فریضہ ہے ۔ اسلئے یہ تحریر نذرِ قارئین کر رہا ہوں ۔ لیکن پہلے اسلام آباد کی آج کی صورتِ حال ۔ آج صبح سویرے سے ہی شاہراہِ دستور [Constitution Avenue] کی طرف جانے والے تمام راستے شاہراہِ دستور سے 500 سے 1000 میٹر دور ہی مکمل طور پر بند کر دیئے گئے جس کی وجہ سے اسلام آباد میں بسنے والوں کو انتہائی پریشانی کا سامنا ہے ۔ سینکڑوں سیاسی لیڈر اور کارکن پچھلے دو تین دنوں میں گرفتار کئے جا چکے ہیں ۔
جب انصاف مٹ جائے یا اس کا حصول بہت مشکل ہو جائے تو سرد راکھ میں ایک ننھی سی چنگاری جنم لیتی ہے ۔ یہ بے ضرر سی چنگاری ہی دراصل انقلاب کا بیج ہوتی ہے ۔
حالات کی بے راہ روی یعنی ظلم یا نا انصافی قائم رہے تو اس چنگاری کو آکسیجن پہنچتی رہتی ہے اور آہستہ آہستہ اس چنگاری کا حجم بڑھتا چلا جاتا ہے لیکن یہ ابھی بھی راکھ کے نیچے دبی ہوتی ہے ۔
ظُلم یا بے انصافی جب برداشت سے باہر ہونے لگے اور متوسط طبقہ بھی اس کی زد میں آ جائے تو یہ ہوا کا ایسا تیز جھونکا ثابت ہوتا ہے جو اس چنگاری کو قوت بخشتا ہے اور ایک شعلہ بھڑک اُٹھتا ہے ۔ ایسے وقت میں اگر طاقت کے پُجاری اپنی من مانیاں ہی کرتے چلے جائیں اور طاقت کے زعم میں اس شعلے کو نحیف سمجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے راکھ کے کسی دوسرے حصہ پر چڑھ دوڑیں تو یہ ننھا شعلہ بڑھک اُٹھتا ہے اور اسی کو انقلاب کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اس علاقہ کے انسان دو گروہوں میں کھُلم کھُلا بٹ چکے ہوتے ہیں ۔ ایک قلیل ظالم اور عیّاش حکمران اور ان کے درباری اور دوسرا اکثریتی پسماندہ عوام ۔
ظُلم یا بے انصافی کے خلاف خلوص کی بنیاد پر اُٹھنے والا انقلاب کامیاب ہوتا ہے بشرطیکہ ان میں کا کوئی راہبر یا گروہ ظالم کے پیش کئے گئے لالچ میں آ کر اکثریت سے غدّاری نہ کرے ۔ اپنے ملک پاکستان سے محبت کرنے والے سب مل کر بارگاہِ ایزدی میں اپنی گذشتہ غلطیوں کی معافی مانگیں اور دعا کریں کہ فتح سچ اور انصاف کی ہو ۔
میری دعا ۔ یا میرے پیدا کرنے والے میرے رازق و حازق صرف اور صرف آپ ہی ہو ۔ مجھے سب کچھ آپ ہی نے دیا ہے اور میں جو کچھ بھی ہوں آپ کی ہی دی ہوئی توفیق سے ہوں ۔ آپ نے مجھ پر میرا عمل چھوڑا اور میں بھٹکتا رہا اور نافرمانیاں مجھ سے سرزد ہوتی رہیں گویا میں اپنے آپ پر ظُلم کرتا رہا ۔ آپ تو حلیم ہو ۔رحمٰن ہو ۔ رحیم ہو ۔ کریم ہو اور عفّو پسند فرماتے ہو اور آپ قادر بھی ہو ۔ آپ نے ہمیشہ مجھ پر رحم کیا اور ہر مشکل میں میری مدد فرمائی اور میرا حوصلہ بڑھایا ۔ مجھ پر اور میری قوم پر رحم فرمائیے اور ہماری غلطیاں معاف فرمائیے اور ہمیں حق کیلئے اور ظُلم و بے انصافی کے خلاف مضبوط بنائیے ۔ بے شک سب طاقت آپ ہی کے پاس ہے اور آپ ہی جسے چاہیں طاقت بخش دیتے ہیں ۔
main reply karnay ki koshish kar raha hon magar nahi ho pa raha:(
اظہرالحق صاحب
آپ کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ میرے بلاگ پر تو آپ نے جو لکھا وہ شائع ہو گیا ۔
انکل جی بہت شکریہ آپکے تبصرے کا ، میں بالکل آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ واضح طور پر تقسیم ہو چکا ہے ، روشن خیال اور اسلام پسند ، روشن خیال طبقہ دولت اور طاقت سے مالا مال ہے اور تعداد میں کم ہے ، جبکہ دوسری طرف اسلام پسند کمزور اور غریب اور متوسط طبقہ ہے ، اور ان دونوں کے درمیان کی خلیج بڑھ ہی رہی ہے ۔ ۔ ۔ اور دونوں ہی اب انتہا پر پہنچ رہے ہیں اسلئے تصادم ناگزیر ہوتا جا رہا ہے اور اسی تصادم کو میں انقلاب کا پیش خیمہ سمجھ رہا ہوں ۔ ۔ ۔ اور میری نظر میں یہ چنگاری اب شعلہ بننے جا رہی ہے کیونکہ اب اسے عوام کا ایندھن ملنے لگا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں دوسری بات جو آپ نے کہی کہ رہنما بدل نہ جائے ، مگر انکل جی اس وقت تو کوئی رہنما نظر نہیں آتا ۔ ۔ ۔ جو انقلاب کی قیادت کرے ، مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے بس ایک سیل رواں ہو گا جو سب کچھ بہا کہ لے جائے گا ۔ ۔ ۔ اسی وجہ سے مجھے یہ انقلاب خونی نظر آ رہا ہے ۔ ۔ ۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو ۔۔ ۔ ایسا ہوا تو نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے لئے بہت مشکل وقت کا سامنا ہو گا اللہ آپکی دعا قبول کرے ، کیونکہ ہمیں اس وقت ایسی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے ۔ ۔ اللہ ہمیں نیک ہدایت دے آمین
اظہرالحق صاحب
آجکل انتہاء پسندی بھی روشن خیالوں کا پروپیگنڈہ آئٹم ہے ۔ جس کا نام مسلمان ہو اُس کی انتہاء پسندی کا تو بہت چرچہ ہے چاہے حقیقت میں وہ اپنا دفاع کر رہا ہو لیکن جو عیسائیوں اور یہودیوں کی عملی انتہاء پسندی سب ریکارڈ توڑ چُکی ہے اس کا کہیں ذکر نہیں ۔ اگر حالات نہ سُدھریں تو پھر خونی انقلاب کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ ایران کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ لیڈر ضروری نہیں کہ معروف یا مشہور شخص ہو ۔ اور جب انقلاب کی ابتداء ہوتی ہے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ لیڈر کون ہے یا ہو گا ۔ اللہ سب بہتر کرے