Monthly Archives: March 2007

ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی گئے

پاکستان کے ڈپٹی اٹارنی جنرل ناصر سیعد شیخ نے موجود عدالتی بحران پر احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے ۔
آج صبح کے اخبار اوصاف کے مطابق ایک جج لاہور ہائی کورٹ اور ایک سیشن جج کراچی سمیت دس جج صاحبان کل رات تک مستعفی ہو چکے تھے ۔ آج قبل دوپہر ڈپٹی اٹارنی جنرل ان میں شامل ہو گئے

مزید چھ جج مستعفی

عدالتِ عظمٰی کے سربراہ جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کے خلاف حکومتی کاروائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بدھ کو بہاولپور کے ایک جج مستعفی ہو گئے تھے ۔

اسی سلسلہ میں آج لاہور ہائی کورٹ کے جج جواد خواجہ کے استعفے کا اعلان ہائی کورٹ بار کے صدر نے کیا اور جواد خواجہ کے قریبی رشتہ داروں نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ۔

آج مزید اسی سلسلہ میں کراچی میں ہائی کورٹ بار کے صدر افتخار جاوید قاضی کے مطابق ضلع کراچی شرقی کے اللہ بچاؤ گبول ۔ اشرف یار خان اور مصطفی صفوی جبکہ ضلع کراچی سینٹرل کے اسد شاہ راشدی اور ملک احسان مستعفی ہو گئے ہیں ۔

اس طرح چھ دنوں میں سات جج صاحبان احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہوئے ہیں

ج جنجوعہ زندہ ہو گیا

جنجوعہ کے نام سے بلاگر واقف ہونگے ۔ وطن واپسی پر حالات میں گم ہو گئے تھے ۔ اب اُنہوں نے ایک تحریر لکھی ہے جس میں مجھے مندرجہ ذیل زیادہ اچھے لگے ۔

ہے حکم ربِ جلال کا .
اُترے گا طوق غلامی کا .
اور اب دور سُنہرا آئے گا .
محکوموں کی شاہانی کا .
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم .
بس چاہتے ہیں انصاف ہو .
تجھ سے کہتے ہیں اے رب .
گھر جمھوریت کا آباد ہو .
اے رب . ابر کرم کا برسادے .
تو ہی اپنا جلوہ دکھلا دے .
جو ہاتھ اُٹھے تیری خلقت پر .
اُسے نشان عبرت کا بنا دے .
گر نہ ملی ۔ جو برحق ہے .
اذانِ جبریل و پیمبر ہے .
پڑھ لو نوشتہءِ دیوار کو .
ہم چھین کے لیں گے آزادی .

میری پسند

سُنا تھا ” عطائے تُو بلقائے تُو ” سو  اظہرالحق صاحب نے میرے ساتھ وہی کیا ہے اور گیند واپس میری طرف پھینک دی ہے اور میری بچپن سے عادت ہے کہ میں اپنی پسند کسی کو نہیں بتاتا اور جو کام دوسرا کرے اور وہ اچھا ہو تو میں کہہ دیتا ہوں یہی مجھے پسند ہے ۔ میری اس عادت کی وجہ سے میں نے کئی بار والد صاحب [اللہ جنت نصیب کرے] سے ڈانٹ کھائی ۔ والدہ محترمہ [اللہ جنت نصیب کرے] میری اس عادت سے بہت تذبذب ہوتی تھیں گو مجھ سے باقی اولاد کی نسبت زیادہ پیار کرتی تھیں ۔ لیکن اب مجبوری ہے کیونکہ جوان کہیں گے پھنس گیا نہ بُڈھا ۔ ہی ہی ہی ہی ہی ۔

سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر مُجھے محبت ہے اور میں غلام ہوں اللہ سُبْحَانُہُ و تَعَالٰی کا جس نے مجھے بیش قیمت اور اَن گِنت نعمتوں سے نوازہ اور مسلسل نوازتا رہتا ہے ۔ اگر ہزاروں سال کی عمر پاؤں اور کُل عمر اللہ کے حضور سجدے میں گِر کر اُس کا شُکر ادا کرتا رہوں تو بھی شُکر کا حق ادا نہ ہو ۔ لیکن میں کتنا ناشُکرا ہوں کہ ایسا نہیں کرتا ۔ میری سب سے  اِستدعا ہے کہ میرے حق میں دعا کریں ۔

سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو میری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے میرے اللہ کا مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے

1 ۔ [پسند] مُحبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
2 ۔ پسند ہے اور عقیدت ہے اُس ماں سے جو اپنی اولاد کو اچھی تربیت دیتی ہے
3 ۔ پسند ہے وہ باپ جو صرف رزقِ حلال کماتا ہے ۔
4 ۔ پسند ہے وہ شخص جو کسی کی دل آزاری نہیں کرتا
5 ۔ پسند ہے وہ جوان جو انسانی خدمت کیلئے آگے بڑھتا ہے
6 ۔ پسند ہے وہ بچہ یا بچی جو خلوصِ نیت سے اچھی تعلیم حاصل کرنے میں سگرداں ہے
7 ۔ پسند ہے وہ اولاد جو اپنے والدین کی خدمت کرتی ہے
8 ۔ پسند ہے وہ شخص جو بغیر جتائے ضرورتمند کی مدد کرے
9 ۔ پسند ہے اور احترام ہے اُس اُستاذ یا اُستاذہ کا جو خلوص و محنت سے طلباء یا طالبات کو پڑھائے
10 ۔ پسند ہے اور عقیدت ہے ہر اُس بوڑھے مرد یا خاتون سے جو جوانوں کی صحیح سمت راہنمائی کرے

شخص سے مُراد لڑکیاں لڑکے خواتین و حضرات

جیو ٹی وی کے دفتر پر حملہ

آج بعددوپہر ساڑھے چار کے قریب جیو ٹی وی کے دفتر واقع بلیو ایریا اسلام آباد پر مسلح پولیس نے ہلہ بول دیا شیشے توڑ دئیے سٹاف کو گالیاں دی اور  زد و کوب بھی کیا ۔ دفتر کے سربراہ نے وجہ پوچھی تو اسے دھکے دیئے گئے اور کہا گیا کہ اسلام آباد میں ہونے والے واقعات کیوں دکھا رہے ہو ؟  پہلے تھوڑے پولیس والے تھے تو سٹاف نے مزاحت کی اور ڈنڈے کھاتے رہے پھر درجنوں پولیس والے آ گئے اور دفتر میں آنسو گیس کے گولے بھی پھینکے ۔

اسلام آباد میں جی سکس تھری اور جی اور جی سکس فور سے لے کر شاہراہ دستور تک یعنی آبپارہ ۔ لال مسجد ۔ شاہراہ اتاترک ۔ بلیو ایریا کا مشرقی علاقہ وغیرہ میدانِ کارزار بنا ہوا ہے اور مظاہرین اور پولیس کے درمیان جنگ جاری ہے ۔ پولیس آنسو گیس ۔ ربڑ کی گولیاں اور پتھر استعمال کر رہی ہے جب کہ مظاہرین پتھروں سے جواب دے رہے ہیں ۔ ہر طرف آنسو گیس کا دھوآں دھوآں ہے ۔ یہ سلسلہ جمعہ کی نماز کے بعد یعنی تقریباً 2 بجے بعد دوپہر شروع ہوا تھا ۔ سب سے پہلے قاضی حسین احمد اور حافظ حسین احمد کو جمعہ کی نماز کے بعد گرفتار کیا گیا ۔ اس کے بعد تحریکِ انصاف ۔ مسلم لیگ [نواز] اورمتحدہ مجلس عمل کے کئی لیڈر اور کارکن گرفتار کئے گئے ۔ مظاہرین میں سے ایک کی پولیس تشدد سے ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اور کئی زخمی ہوئے ہیں ۔

گرفتاریوں کا سلسلہ جمعرات سے ہی شروع ہو گیا تھا اور مسلم لیگ [نواز] اور متحدہ مجلس عمل کے 100 کے قریب ارکان گرفتار کر لئے گئے تھے ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد آنے والے تمام راستوں کی مکمل ناکہ بندی کر دی گئی تھی ۔ روالپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والی تمام سڑکوں کی بھی مکمل ناکہ بندی تھی ۔ اسی طرح اسلام آباد کے اندر شاہراہ دستور کی طرف جانے والے تمام راستے بند کر دیئے گئے تھے ۔ لوگ کھائیوں ۔ نالوں اور نامعلوم کہاں کہاں سے ہوتے ہوئے شاہراہ دستور کے قریب پہنچ گئے اور متواتر پہنچتے رہے ۔

آج دوپہر 12 بجے حکومت نے اسلام آباد میں انٹرنیٹ بند کر دیا تھا جو آئی ایس پیز اور کسٹمرز کے شور مچانے پر ایک گھینٹہ بعد بحال ہوا اور 3 بجے بعد دوپہر پھر بند کر دیا گیا پھر میں کمپوٹر بند کر کے ٹی وی دیکھنے لگ گیا ۔ 5 بجے کمپیوٹر چلایا تو انٹرنیٹ بحال ہو چکا تھا ۔

جسٹس رانا بھگوان داس کہاں ہیں ؟

سب جانتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بعد سب سے سینیئر جج جناب جسٹس رانا بھگوان داس ہیں اور اِس وقت پاکستان میں اُن کی غیر حاضری شدّت سے محسوس کی جا رہی ہے ۔ اتنے سینیئر اور اور نیک نام اور ذمہ داری کا اتنا احساس رکھنے والے جج جنہوں نے علاقہ کے تقاضہ کا احساس کرتے ہوئے ایم اے اسلامیات بھی پاس کیا وہ اس وقت ملک کے اس بد ترین بحران میں بالکل لاتعلق ہو کر سوئے رہیں گے ؟ یہ قرینِ قیاس نہیں ۔

کراچی سے فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مسز بھگوان داس نے کہا کہ ان کے شوہر اس وقت بھارت کے شہر لکھنؤ میں چھٹیاں گزار رہے ہیں۔ جب ان سے جسٹس بھگوان داس کا لکھنؤ میں رابطہ نمبر پوچھا گیا تو انہوں نے پہلے کہا کہ ان کے پاس نمبر نہیں ہے اور بعد میں کہا کہ وہ دینا نہیں چاہتیں۔ ان کے مطابق جسٹس رانا بھگوان داس تین مارچ کو نجی دورے پر بھارت روانہ ہوئے تھے۔ مسز بھگوان داس کا کہنا تھا کہ ان کی اپنے شوہر سے بات ہوتی رہتی ہے، جو انہیں پبلک کال آفس سے فون کرتے ہیں۔

تبصرہ ۔ اس سے ایک بات واضح ہوئی کہ جسٹس رانا بھگوان داس پاکستان سے رابطہ میں ہیں ۔ تو پھر حکومت نے اُن سے کیوں رابطہ نہ کیا ۔ سندھ اور پنجاب کے چیف جسٹس صاحبان کو فوراً بذریعہ ہوائی جہاز اسلام آباد لا کر چند گھینٹوں کے اندر سپریم جوڈیشیل کونسل کا اجلاس کرا دیا گیا لیکن عدالت عظمیٰ کے سینیئر ترین جج سے رابطہ نہ کیا گیا ۔ کیا یہ قرینِ قیاس یا قرینِ انصاف ہے ؟

بی بی سی کے ہندوستان کے دارالحکومت دلی میں واقع پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ قائم کرنے پر وہاں موجود ایک اہلکار نے فون پر بتایا کہ انہیں جسٹس بھگوان داس کے ہندوستان کے دورے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا ’جسٹس بھگوان داس کے بھارت آنے کے بارے میں بھی ہمیں بی بی سی سے ہی پتہ چلا ہے۔‘ اگرچہ یہ بات ظاہر ہے کہ جسٹس بھگوان داس ایک اعلیٰ عہدے دار ہیں اور ان کے ہندوستان کے دورے کے بارے میں پاکستانی ہائی کمیشن کو اطلاع ضرور ہوگی لیکن تمام کوششوں کے باوجود پاکستانی ہائی کمیشن نے اس بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔

لندن سے بی بی سی نے جسٹس بھگوان داس کے بھائی سری چند سے کراچی میں رابطہ کر کے پوچھا کہ ان کے بھائی ہندوستان میں کہاں ہیں اور ان کی پاکستان واپسی کب تک متعوقع ہے، تاہم سری چند نے کہا کہ ’کراچی سے جہاز تو دلیً گیا تھا، وہ وہاں سے کہاں گئے ہیں مجھے علم نہیں۔‘

ہندوستان میں سرکاری حلقے بھی جسٹس بھگوان داس کے ہندوستان دورے کے بارے میں خاموش ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہ اس وقت دلی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں لیکن اس ہوٹل سے رابط قائم کرنے پر معلوم ہوا کہ جسٹس بھگوان داس وہاں نہیں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ میں بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جسٹس بھگوان داس ہندوستان دورے پرآئے تھے لیکن اب وہ واپس پاکستان جا چکے ہیں۔

اسی دوران پاکستان کے صدر پرویز مشرف کےذریعہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معطلی کے تذکرے ہندوستان کے اخبارات میں ہورہے ہیں ۔ اخبارات نے مزید لکھا ہے کہ جسٹس چودھری کو ان کے عہدے سے اس لیے معطل کیا گیا کیوں کہ کیونکہ وہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے میں کبھی نہیں جھجکتے تھے۔

مارچ 2006 کے  آخر  میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے سینیئر ترین جج جسٹس رانا بھگوان داس کے اہل خانہ کو انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر روک دیئے جانے کے بعد جسٹس بھگوان داس نے بھارت کا دورہ منسوخ کر دیا تھا ۔

تبصرہ ۔ اُوپر کی خبروں سے واضح ہوتا ہے کہ جناب جسٹس رانا بھگوان داس صاحب یا تو ہندوستان گئے ہی نہیں یا واپس آ چکے ہوئے ہیں ۔ اُن کے بھائی سری چند صاحب کے بیان سے یہ گمان اُبھرتا ہے کہ کچھ چھُپایا جا رہا ہے ۔ یہی تأثر جناب جسٹس رانا بھگوان داس کی بیگم صاحبہ کے ٹیلیفون نمبر کے بارے بیان سے بھی ملتا ہے ۔

سوال ۔ کیا جناب جسٹس رانا بھگوان داس صاحب بھی درجنوں اُن پاکستانیوں کی طرح لاپتہ ہو گئے ہیں جن کا مقدمہ عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سُنا جا رہا تھا ؟