عدالتِ عظمٰی کی ہوا کی سِیٹی
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
وطن کی ہواؤں کی سَرسراہٹ
ظُلم کا بادل ہر طرف چھایا
اور لُٹ رہا ہے قومی سرمایہ
مسلمانوں اب تو جاگ اُٹھو
کہ پھر وقتِ شہادت ہے آیا
توحید کا پیغام پھیلا دو
اور اسلام کا پرچم لہرا دو
باطل کی دنیا کو بتلا دو
توحید کے ہو متوالے تُم
اسلام کے ہو رکھوالے تُم
تُم پر اللہ کی رحمت کا سایہ
مردِ مُسلماں جاگ بھی اُٹھو
کہ اب وقتِ شہادت ہے آیا
zZZzZZZZzzzzzzzzz!!!!!
اظہرالحق صاحب
کیا آپ ڈر گئے ؟
انکل جی ڈروں گا تب نا جب جاگوں گا ، سویا ہوا اور مرا ہوا برابر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا میرے بلاگ پر دیکھیں کہ میں کتنا زیادہ ڈرا ہوا ہوں ۔ ۔ ۔
انکل جی آپ نے فلم “چنگیز خان“ کے جس ترانے کی یاد دلائی ہے جو ہماری فوجی پریڈ کی مارچ ٹون بھی ہے ، بلاشبہ وہ دلوں میں جذبہ ڈال دیتا ہے ، مگر اب فوجی اسے ایسے گاتے ہیں
اللہ کی رحمت کا سایہ ( مشرف صاحب پر)
توحید کا پرچم لہرایا (قاضی صاحب نے)
اے مرد مجاہد جاگ ذرا ( عدلیہ اور مقننہ)
اب وقت شہادت ہے آیا ( عوام کا)
اسلام کا ہے متوالا تو ( کس کو کہ رہے ہیں ؟ )
قرآن کا ہے رکھوالا تو ( وہ قرآن جو طاقوں پہ سجا کر اسکی حفاظت کر رہے ہیں )
ایمان ہے تیرا سرمایہ ( اسے اب ہر کوئی بیچ رہا ہے )
اے مرد ۔ ۔ ۔ ۔
جاں جاتی ہے بے شک جائے ( عوام کی )
پرچم نہ تیرا جھکنے پائے ( ہاں گِر بےشک جائے )
غازی کو موت سے کیا ڈر ہے ( غازی بھائی بتا دو کیا ڈر ہے )
جاں دینا جہاد اکبر ہے ( بھائی ہم پہلے جہاد اصغر کریں گے )
قرآن نے ہے یہ فرمایا (دیکھا مغرب ٹھیک کہتا ہے )
اے مرد مجاہد ۔ ۔ ۔ ۔
تقدیر تیری تدبیر تیری (صدر صاحب سُن رہے ہیں نا)
سب دنیا ہے جاگیر تیری (بُش صاحب آپ کے لئے کہا گیا ہے )
پھر کفر مقابل ہے آیا (اسامہ جی یہ آپ کے لئے ہے )
اے مرد مجاہد جاگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
——————————-
میں نے خود اللہ اکبر والا نعرہ نہیں لکھا جو اس ترانے کو بہت جوشیلا بناتا ہے ، شاید ہم اللہ اکبر کہنے والے اللہ کو اکبر مانتے ہی نہیں !!!
اظہرالحق صاحب
شاید 1965 عیسوی میں یہ گانا ریڈیو پر لگتا تھا ۔ میں نے فلم نہیں دیکھی ۔ میں بہت کم فلمیں دیکھتا تھا اور جو کچھ کبھی دیکھا وہ سنیما ہال ہی میں رہ گیا ۔ میں نے اُسی لے پر شعر بنا دیئے ۔ آپ نے تو باقاعدہ تجزیہ کر دیا ہے ۔
اسلام و علیکم
میں بھی ان لوگوں میں سے ہی ہوں جو اقبال کے شعر
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ مگر یہاں تو بہار آگے گزر بھی جاتی ہے مگر شجر خود ہرا ہونے سے انکاری ہے۔
کیا کیا جائے۔
وسلام
Sahi waqt pay sahi kalaam paish kiya aap nay……..!
Kaash kay aisi baatain qoum ko sudhaarnay ka saamaan ban banthain…
PS: Aap ki aamad mairay blog par pata nahi kion mujhay pay panah muskuranay par majboor kar deti hai :-). Javaab aap kay tabsiray ka udhar hi nosh fermaiyay :).
صباء سیّد صاحبہ
جب انسان اللہ کو بھول جاتا ہے تو اس کا سفر تباہی کی طرف شورع ہو جاتا ہے اور شیطان اس بدقسمت کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہ ترقی کر رہا ہے ۔ میں اس کے متعلق ایک تحریر لکھنا چاہتا ہوں لیکن حالات دماغ کا سکون بار بار چھین لیتے ہیں ۔ اگر یہ چیف جسٹس صاحب والا واقعہ بنگلا دیش میں ہوتا تو سب لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہوتے لیکن ہماری قوم مدہوش پڑی ہے ۔
ہمارے پاس صرف ایک ہی حل ہے کہ وہ لوگ جو اللہ سے ڈرتے ہیں وہ ڈٹ جائیں ہر بے انصافی کے سامنے ۔
گلِ گیتی صاحبہ
جناب آپ کے مسکرانے سے میرا خون ایک پائینٹ تو بڑھ گیا ہو گا اللہ کرے آپ ہمیشہ مسکراتی رہیں ۔ جہاں تک قوم کا تعلق ہے آپ اپنا کام بہتریں کرتے جائیے ۔ ارے میں آپ کے بلاگ پر بھاگا بھا گیا کہ وہاں کوئی مشروب رکھا ہے مگر ۔ ۔ ۔ ہی ہی ہی