آج کل قومی اسمبلی ۔ اخبارات اور ٹی وی سٹیشنوں پر شراب نوشی زیرِ بحث ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے شراب نوشی کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا ۔ عجب استدال اور مافوق الفطرت دلائل دیئے جا رہے ہیں ۔ اس سے قبل بدکاری کیلئے اللہ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف تحفظِ حقوق نسواں کے نام سے قانون بنا کر بدکاروں کو کھُلی چھٹی دی جا چُکی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہماری قوم کو بے دین بنانے میں کوشاں ہیں ۔
اسلام سے قبل شراب ایک عام مشروب تھا ۔ لوگ اس کے عادی تھے پھر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو شراب پینے کو بُرا سمجھتے ہوئے شراب نوشی نہیں کرتے تھے ۔ مدینہ منوّرہ کو ہجرت کر جانے کے بعد عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شراب نوشی نہ کرنے والوں کا ایک وفد شراب نوشی کی ممانعت کی سفارش کرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اُس کے کچھ عرصہ بعد یہ آیت اُتری ۔
سُورت 2 ۔ الْبَقَرَہ ۔ آیت 219 ۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيھِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُھُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِھِمَا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّہُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
ترجمہ ۔ آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیاوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو
مسلمانوں میں سے کئی نے بڑا گناہ قرار دیئے جانے کے بعد شراب نوشی ترک کر دی ۔ چونکہ کھُلے الفاظ میں شراب نوشی کی ممانعت نہ کی گئی تھی اسلئے کچھ مسلمان شراب نوشی کرتے رہے اور نشہ میں مسجد جانے کے واقعات ہوئے ۔ بعد میں غالباً 4 ہجری کے شروع میں مندرجہ ذیل آیت اُتری ۔
سُورت 4 النِّسَآء ۔ آیت 43 ۔ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّی تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُون
ترجمہ ۔ اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو
مندرجہ بالا حُکم کے نتیجہ میں زیادہ تر مسلمانوں نے شراب نوشی ترک کر دی لیکن کچھ اس طرح اوقات بدل کر شراب نوشی کرتے رہے تا کہ نماز کے وقت تک نشہ ختم ہو جائے ۔ کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرمایا کہ اللہ تعالٰی کو شراب سخت ناپسند ہے ۔ بعید نہیں کہ اس کی قطعی حُرمت کا حُکم آجائےلہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں ۔ اس کے کچھ مدت بعد مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی
يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ ۔ اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور [عبادت کے لئے] نصب کئے گئے بُت اور [قسمت معلوم کرنے کے لئے] فال کے تیر [سب] ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے [کلیتاً] پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ
اس کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعلان کرایا کہ اب جن کے پاس شراب ہے وہ نہ اسے پی سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں چنانچہ اُسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی ۔ بعض لوگوں نے پوچھا کہ ہم یہودیوں کو تحفہ کیوں نہ دے دیں ؟ آپ نے فرمایا جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے تحفہ دینے سے بھی منع کر دیا ہے ۔کچھ نے پوچھا کہ ہم شراب کو سرکہ میں کیوں نہ تبدیل کرلیں ؟ آپ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حُکم دیا کہ اسے بہا دو ۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا دوا کے طور پر استعمال کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے ۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روائت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ” اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اسکے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کر لیجانے والے پر اور اس شخص پر جس کیلئے وہ ڈھو کر لیجائی گئی ہو” ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں جو شراب پینے والا گرفتار ہو کر آتا اسے جوتے ۔ لات ۔ مُکے ۔ بل دی ہوئی چادر کے سونٹے ۔ یا کھجور کے سونٹے مارے جاتے تھے ۔ زیادہ سے زیادہ 40 ضربیں لگائی جاتیں ۔
انکل جی اب یہ ترجمہ ہی دیکھ لیں جو آپ نے لکھا ہے “ سو تم ان سے [کلیتاً] پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ“ اسمیں لفظ “کلیتاً“ کو بریکٹ کیا گیا ہے ، کیونکہ آیت کے لفظی معنٰی میں یہ لفظ نہیں آئے گا مگر عربی کی گرامر اور قواعد جاننے والے اسے سمجھ جائیں گے ، مگر اپنے لئے آسانیاں پیدا کرنے والے اسی بات کو لے کر اے پرھیز سے مشروط کر دیں گے ۔ ۔ میں ادھر ایک اسلامی ملک میں ہوں جہاں کے لوگ پاکستانیوں کو خاص طور پر “لا دین“ سمجھتے ہیں مگر یہاں شراب کھلے عام بکتی ہے ہر کوئی پیتا ہے اور سعودیہ سے خاص طور پر لوگ ان “محفلوں“ میں شرکت کرنے آتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور اگر کبھی آپ گلف کے نیوز پیپرز کو پڑھیں تو روز کا کوئی ایکسیڈنٹ اس شراب کی وجہ سے ہوتا ہے ، مگر کیونکہ حکمران سے لیکر عوام تک شرابی ہیں اسلئے کوئی اسے برا نہیں سمجھتا ۔ ۔ ۔ یہ ہی حال پاکستان کا ہے ، “بڑے لوگوں“ کی ہر پارٹی کا لازمی مشروب ہے یہ ۔ ۔ ۔ میں تو کہتا ہوں کہ پابندی ہٹا دینی چاہیے ، تا کہ ہم جو خود کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں خود ننگے ہو کر دنیا کے سامنے آ جائیں ۔ ۔ ۔
اللہ ہمیں نیک ہدایت دے (آمین)
جزاک اللہ ۔
محترم افتخار اجمل صاحب ، میں آپ کی سوچ اور تحریروں سے اکثر متاثر ہوتا ہوں ۔
اردو میں اس طرح ( کسی مذہبی پیشوا کا سہارا لیے بغیر براہ راست قرآن و سنت کے دلائل سے ) حق بات کرنے والے بہت کم ہیں ۔ اللہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے ۔ آمین ۔
محترم اجمل صاحب ، سورہ البقرہ کی اس متذکرہ آیت (219) کی تفسیر آپ نے تفسیر ابن کثیر میں دیکھی ہوگی ۔ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا اللہ تعالیٰ سے بار بار واضح پھر واضح ترین ہدایت کا طلب کرنا ۔۔۔ اس کو ہمارے موجودہ حکمرانوں کے ڈھیٹ قسم کے طرزِ عمل کے تناظر میں دیکھیں تو فاروقِ اعظم کی دوراندیشی کا دل سے قائل ہونا پڑتا ہے ۔ میں وہ حدیث یہاں لگاتا ہوں ۔۔۔
—
جب شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا : یا اللہ ، تُو اس کا واضح بیان فرما ۔
اس پر سورہ البقرة کی یہ آیت { يسألونك عن الخمر والميسر قل فيهما إثم كبير : 2:219 } نازل ہوئی ۔ حضرت عمر (رض) کو بلایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی ۔ لیکن حضرت عمر (رض) نے پھر بھی یہی دعا کی کہ : یا اللہ ، اسے ہمارے لیے اور زیادہ صاف بیان فرما ۔
اس پر سورہ النساء کی آیت { يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى : 4:43 } نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں ۔
حضرت عمر (رض) کو بلایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی ، آپ نے پھر بھی یہی دعا کی : یا اللہ ہمارے لیے اس کا بیان اور واضح کر ۔
اس پر سورہ المائدہ کی آیت { إِنَّمَا الْخَمْرِ : 5:91 } اتری ۔ جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ { فهل أنتم منتهون ( کیا تم باز آؤ گے ؟ ) } پڑے تو آپ بول اٹھے : { انتھینا انتھینا ( ہم رُک گئے ، ہم باز آئے ) } ۔
ابو داؤد ، كتاب الاشربة ، باب : في تحريم الخمر ، حدیث : 3672
اظہرالحق صاحب
لفظ ہے ۔ فَاجْتَنِبُوہُ ۔ اجتناب کا مطلب ہے علیحدگی اختیار کرنا یا پرہیز کرنا ۔ جب ڈاکٹر کہتا ہے کہ فلاں چیز سے پرہیز کریں تو مطلب علیحدگی اختیار کرنا ہوتا ہے ۔ جو مریض سمجھتے ہیں کہ چاہے کیا چاہے نہ کیا وہ نقصان بھی اُٹھاتے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ امر یعنی حکم کا صیغہ استعمال ہوا ہے ۔ اس لئے اس پر عمل کرنا مسلمان کے لئے لازم ہے ۔ تیسی بات یہ ہے کہ جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے اس لئے یہ حُکم سب کیلئے ہے ۔
گر ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو ہمیں قرآن پر عمل کرنا ہو گا ۔
انکل جی اور باذوق بھائی ، میں تو یہ بات مانتا ہوں کہ قرآن و حدیث ہی ہمارے لئے مشعل راہ ہے ، مگر کیا کریں “جمہور“ تو کچھ اور ہی چاہتی ہے ۔ ۔
باذوق صاحب
جزاک اللہ خیرٌ ۔ آپ نے بالکل صحیح لکھا ہے ۔ میں نے مضمون کی طوالت سے بچنے کیلئے سب تفصیل نہیں لکھی تھی دوسرے میں زیادہ زور اللہ کے حُکم پر ہی دینا چاہتا تھا کیونکہ یہ تحریر علم رکھنے والوں کیلئے نہیں تھی ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد جتنے لوگ وہاں موجود تھے اُنہوں نے کہا تھا ۔ انتھینا انتھینا
شراب نوشی کی اگر کھلی چھوٹ دی گئی تو پاکستانی غریب، ان پڑھ اور بےشعور معاشرے میں دیگر برائیاں روکنا بہت دشوار ہوجائیگا۔
سادہ لفظوں میں گند پڑ جائے گا۔
جناب ایسی حکومت سے کچھ بھی بعید نہیں جو اپنے ذہن سے سوچنے کی بجائے غیروں کے حکم پر عمل کرنا اپنا فرض عین سمجھتی ہے۔
قرآن و حدیث کے حوالے ان پر اثر کریں گے جو ان کے ماننے والے ہوں گے۔ جو اتاترک کو اپنا خدا مانتے ہیں وہ کتے اپنی گود ميں بٹھا کر شراب ہی پیئیں گے۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ جنرل صاحب روشن خیال ہیں مگر چوہدریوں کی عقل پر پردہ کیوں پڑا ہوا ہے۔
بھائی اظہر الحق
بےشک جمہور اپنی مرضی چاہتی ہے ۔۔۔ مگر اہلِ علم کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اندھیرے میں روشنی کے دیے اسی طرح جلاتے رہیں !
نعمان ۔ شاکر عزیز محمد ۔ افضل اور باذوق صاحبان
شراب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ” اُمُ الخبائث ” کہا ہے یعنی تمام بُرائیوں کی ماں ۔ یہ حقیقت ہے شراب نوشی دماغ کو ماؤف کر دیتے ہیں اور پینے والے کو اچھے بُرے اور جائز و ناجائز کی تمیز نہیں رہتی ۔
چھوٹ ملنے پر صرف غریب یا جاہل ہی نہیں پڑھے لکھے بھی اسے اپنائیں گے جیسے فی زمانہ یہ جانتے ہوئے کہ سگریٹ نوشی سے سرطان جیسی مہلک بیماری ہو سکتی ہے لوگ سگریٹ پیتے ہیں ۔ چنانچہ شراب نوشی کی اجازے ملنے پر ایسا گند پڑے گا کہ قوم تباہ ہو جائے گی ۔ جہاں تک ہماری حکومت کا تعلق ہے اس میں اکثریت شرابی ہے ۔چوہدری برادران نے بھی کرسی کی خاطر اپنی غیرت بیچ دی ہے ۔ بلاشبہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ برملا حق بات کرے رہیں ۔
In rulings which are considered “mutashabihaat” (vague), there is a reason why we turn to them to re-interpret. Why are these politicians seeking to re-interpret the ruling against intoxicants? What harm does the ruling do? Questioning the “hurmat” of intoxicants makes a mockery of the juristic process.
So if we say today that a woman doesn’t have to travel with a mahram anymore, it’s because the “illat” (reason) of the original command was her safety. Today, if she travels from one airport to the other, her safety is not at risk. But why intoxicants? Intoxicants still intoxicate, and the physical and social damage still occurs.
کُونج صاحبہ
آپ نے بالکل ٹھیک لکھا ہے ۔ گو میں سمجھتا ہوں کہ عورت کو اب بھی محرم کے بغیر سفر نہیں کرنا چاہئیے سوائے مجبوری کے ۔ بہرحال یہ محرم کا ساتھ لازمی حُکم کے ذمرے میں نہیں آتا جبکہ شراب نوشی اور دوسرے نشے کی حُکماً ممانعت ہے ۔ جہاں تک ہماری حکومت کا تعلق ہے یہ صیہونی اور نیوکان ایجنڈے پر عمل ہو رہا ہے کہ اپنی حکومت قائم رکھی جا سکے اور ہمارے اخبارات اور ٹی وی سٹیشن صرف پیسے کے طلبگار ہیں چاہے ان کی اپنی اولاد بھی تباہ ہو جائے ۔۔
اجمل صاحب میں دوبارہ متفق ہوں کہ پڑھے لکھے بھی اس سے متاثر ہونگے۔
نعمان صاحب
لگتا ہے یا میں آپ کے رنگ میں رنگا جا رہا ہوں یا آپ میرے رنگ میں ۔
آٹھویں جماعت میں ایک محاوہ پڑھا تھا
Fools never agree
سو شکر ہے کہ ہم دونوں اس کیٹیگری میں نہیں ہیں ۔ ہی ہی ہی