Monthly Archives: February 2007

سيکولرزم

حضرت عيسٰی عليہ السلام کے اس دنيا سے اُٹھائے جانے کے بعد کی تاريخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رفتہ رفتہ کليسا کے محافظ دنياوی لذتوں ميں پڑ کر حضرت عيسٰی عليہ السلام کی تعليمات سے روگردانی کرنے لگے پھر عيسائی حکمران اپنے مفاد کی خاطر دولت اور طاقت کے زور پر کليسا سے الہامی کُتب ميں تبديلياں کرا کے مذہب کے نام پر اپنی من مانی چلاتے رہے ۔ يہاں تک کہ حضرت عيسٰی عليہ السلام کو کچھ نے خدا کا بيٹا اور کچھ نے خدا ہی کہنا شروع کر ديا ۔ بدن سے بدن لگانے کو گناہ کی فہرست سے نکال ديا گيا ۔ لوگ دوسری خرافات کے ساتھ جنسی بے راہروی کا شکار ہو گئے اور کليسا بارسوخ لوگوں کی پردہ پوشی ميں مصروف رہا ۔ لين دين کی انتہائی ہيرا پھيری کے نتيجہ ميں دو صدياں قبل اس برائے نام مذہب کے خلاف بغاوت کے طور پر بیداری کی تحريک اُٹھی جو سيکولرزم کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اس کے نتيجہ ميں رياست سے مذہب کو الگ کر کے کليسا ميں بند کر ديا گيا مگر يہ علاج انسان کيلئے مفيد ثابت نہ ہوا

آج کے دور ميں جن حکومتوں پر سيکولر کی چھاپ ہے ان کا عمل کسی طرح بھی سيکولر نہيں بلکہ انتہائی تعصبانہ ہے ۔ منافقت آج کے دور کی ريت بن چکی ہے

سيکولرزم کا مفروضہ ہے کہ دین ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اسلئے رياست کے نظام سے دين کو نکال ديا جائے اور سب فيصلے دين سے مبرّا کئے جائيں ۔ مُختصر اور عام فہم بات کی جائے تو سيکولرزم تھيوری کے مطابق حکومت کے کاروبار کے علاوہ کھانا ۔ پينا ۔ کھيلنا ۔ نہانا ۔ تيرنا۔ مِلنا جُلنا ۔ لکھنا ۔ پڑھنا – وغيرہ سيکولر عمل ہيں اور ان کے ساتھ دين کا کوئی تعلق نہيں اور نان سيکولر عمل ہيں عبادت کرنا اور عبادت گاہ ميں جانا اسلئے انہيں فرد تک محدود رہنا چاہئيے

سب سے اہم مثال ارتکابِ زنا کی ہے ۔ دين حُکم ديتا ہے کہ زنا اگر باہمی رضامندی سے بھی کيا جائے تو بھی جُرم ہے اور قابلِ سزا ہے جبکہ سيکولرزم کہتا ہے چونکہ زنا کاروں نےاگر اپنی خوشی اور لُطف کی خاطر بند کمرے ميں زنا کيا اور اس سے کسی تيسرے شخص کا کچھ نہيں بگڑا چنانچہ يہ جُرم نہيں ۔ اسی طرح جس فعلِ بد کی وجہ سے قوم لوط کو اللہ تعالٰی نے تباہ کر ديا سيکولرزم باہمی رضا ہونے پر اس غير فطری فعل کی اجازت ديتا ہے

کاروبار ميں بھی بہت سی قباحتيں ہيں جو سيکولرزم کے تحت جائز ہيں ليکن دين ان کی اجازت نہيں ديتا ۔ ايک عام فہم سی چيز رشوت ہے جو سيکولرزم کے تحت کميشن بن کر جائز ہو جاتی ہے جس کا جواز قوم کی يا کمپنی کی يا کسی فرد کی بہتری کہا جا سکتا ہے ليکن دين اس کی اجازت نہيں ديتا

دين اسلام ايک مکمل ضابطۂ حيات ہے اور نظامِ حکومت مع قانون اور عدالتی نظام اس ميں شامل ہے ۔ شرعِ اسلام ميں کھانا ۔ پينا ۔ ملنا ملانا ۔ کھيلنا ۔ نہانا ۔ تيرنا۔ ملازمت ۔ تجارت ۔ رياستی امور ۔ لکھنا ۔ پڑھنا ۔ وغيرہ سب کے قوائد موجود ہيں چنانچہ مسلمان رياست ميں ان افعال کو دين سے عليحدہ نہيں کيا جا سکتا

اگر سيکولرزم کا مطلب يہ ہے کہ بلا امتياز مذہب و ذات پات سب کے ساتھ يکساں سلوک کيا جائے تو پھر سيکولرزم کی ضرورت ہی کيا ہے ؟ اللہ کا دين اسلام اس کی تاکيد کرتا ہے ۔ دنيا کے کسی بھی نظام کے مقابلہ ميں دين اسلام سب سے زيادہ حقوق العباد پر زور ديتا ہے يہاں تک کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے فرمايا ہے کہ جس زيادتی کا تعلق کسی انسان سے ہو گا وہ اس وقت تک معاف نہيں کی جائے گی جب تک کہ متعلقہ انسان خود معاف نہ کر دے

جب مدينہ منوّرہ ميں اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی تو ايک علاقہ کے غير مسلم قبيلہ کے متعلق رسول اکرم صلّی اللہ عليہ و آلہ و سلّم نے حکم ديا کہ اُنہيں اپنے طور طريقے جاری رکھنے دئيے جائيں اور ان کے ساتھ ويسا ہی سلوک کيا جائے جيسا مسلمانوں کے ساتھ کيا جاتا ہے ۔ يہی اسلامی سلطنت کا اصول ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت گذرنے پر اس قبیلہ کے لوگ مسلمانوں کے کردار سے متأثر ہو کر مسلمان ہو گئے

ماہرِ مذاہب اور سیکولرزم سے کما حقہ آگاہ کارن آرمسٹرانگ [Karen Armstrong] نے اپنی کتاب خدا کی تاریخ [A History of God] میں لکھا ہے کہ سیکولرزم ایک منکرِ خدا فرقہ ہے [secularism is a godless cult] ۔ سیکولرزم کی آزادی اور دوسرے اوصاف کا جہاں تک تعلق ہے مغربی دنیا کی نومسلم نکاتا خولہ [Nakata Khaula] نے اپنے مسلمان ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ “میں نے سیکولرزم کی پُرفریب آزادی کی بجائے اسلام کا انتخاب کیا ۔ ۔ ۔ آخر کیوں تعلیم یافتہ عورتیں ساری دنیا میں آزادی اور خودمختاری کو چھوڑ کر اسلام قبول کر رہی ہیں ؟”۔[I chose Islam rather than the illusory freedom of secular life… why are so many educated young women all over the world abandoning ‘liberty’ and ‘independence’ and embracing Islam?]

اگر یہ صحیح ہے کہ سیکولرزم میں ہر قسم کی آزادی ہے اور ترقی کا موجب ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بقول نیشنل جیوگرافک ۔ دی اِکانومسٹ ۔ سی این این اور بی بی سی آج کی دنیا میں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے ؟

اصل مسئلہ يہ ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے جب اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی بجائے اختراعات پر چلتے ہيں تو دين کی شکل گھناؤنی ہو جاتی ہے اور بجائے اپنی جہت درست کرنے کے سيکولرزم کا سہارا لينے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سيکولرزم کے حامی کچھ حضرات کہتے ہيں کہ سيکولر ہونے کا مطلب دين سے دوری نہيں ہے ۔ ديکھتے ہيں کہ ڈکشنرياں جو کہ غير مُسلموں نے لکھی ہيں کيا کہتی ہيں

Word Reference.com English Dictionary
Secularism a doctrine that rejects religion and religious considerations

Merriam-Webster’s Online Dictionary, 10th Edition
Indifference to or rejection or exclusion of religion and religious considerations

Cambridge International Dictionary of English
The belief that religion should not be involved with the ordinary social and political activities of a country

Encarta® World English Dictionary, North American Edition
1. exclusion of religion from public affairs: the belief that religion and religious bodies should have no part in political or civic affairs or in running public institutions, especially schools
2. rejection of religion: the rejection of religion or its exclusion from a philosophical or moral system

Wiktionary
1. A position that religious belief and practice should be kept in the private sphere
2. The related political belief in the separation of church and state

The American Heritage® Dictionary of the English Language
1. Religious skepticism or indifference.
2. The view that religious considerations should be excluded from civil affairs or public education.

علامہ اقبال کو يورپ کے معروف مفکّروں نے بھی فلسفی مانا ہے ۔ ميں نے ان کی شان ميں جرمن زبان ميں لکھا ہوا مقالہ 1967 عیسوی میں ميونخ يونيورسٹی ميں ديکھا تھا ۔ جب يونيورسٹی کے ريکٹر کو پتہ چلا کہ ميں پاکستانی مسلم ہوں تو اس نے علامہ اقبال سے عقيدت کی وجہ سے ميری آؤ بھگت کی علامہ اقبال کا کہنا ہے
جُدا ہو ديں سياست سے تو رہ جاتی ہے چنگيزی

مُحبت اور ہوّس

کسی کا خود بخود دل میں سما جانے کا نام مُحبت ہے
کسی سے محبت جتانےکی خواہش ہوّس کے تابع ہوتی ہے

مُحبت میں عاشق کو بے بسی کا احساس ہوتا ہے
ہوّس میں دوسرے کو بے بس کرنے کی خواہش ہوتی ہے

مُحبت میں خود کسی کا ہو جانے کا ارمان ہوتا ہے
ہوّس میں کسی کو اپنانے کا پسِ منظر ہوتا ہے

مُحبت کا آغاز محبوب کے دل سے ہوتا ہے گو عاشق سمجھتا ہے کہ اُسے محبوب سے عشق ہو گیا ہے
جب کسی پر محبت مسلّط کی جائے تو اس کی بنیاد ہوّس ہوتی ہے

مُحبت میں عاشق نفع نقصان سے لاتعلق ہوتا ہے
فایدہ یا حصول کی طلب ہوّس کا نتیجہ ہوتی ہے

محبت جنسی خواہش سے مبرّا اور پاکیزہ ہوتی ہے
ہوّس جنسی تعلق یا خواہش بیدار کرتی ہے

قرآن شریف محبت کا سبق دیتا ہے اور شیطان ہوّس کا

ایک طرف غربت ۔ دوسری طرف بے حِسی


غربت سے تنگ آ کر خود کُشی

نواب شاہ (بیورو رپورٹ) کنڈیارو میں بیروزگاری سے تنگ آ کر نوجوان نے خود کو آگ لگا لی، اسے تشویشناک حالت میں نواب شاہ کے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ متاثرہ نوجوان 9 بہن اور بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کو کنڈیارو کے گاؤں غازی خان گوپانگ میں 24 سالہ سجاد حسین ولد میر محمد گوپانگ نے بیروزگاری سے تنگ آ کر خود پر مٹی کا تیل چھڑکنے کے بعد آگ لگا لی۔ اس نے یہ کارروائی اپنے گھر کے غسل خانے میں کی۔ شور کی آواز سن کر گھر والے پہنچ گئے اور انہوں نے آگ بجھا کر سجاد کو کنڈیارو کے اسپتال پہنچایا جہاں سے اسے حالت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے نواب شاہ میڈیکل کالج و اسپتال منتقل کیا گیا۔ اس سلسلے میں سجاد گوپانگ کے والد اور ریٹائرڈ پرائمری ٹیچر میر محمد گوپانگ نے بتایا کہ ان کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں اور سجاد سب سے بڑا ہے۔ وہ آٹھویں جماعت پاس ہے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد خاندان کی ساری ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آ گئی تھی کیونکہ پنشن کی رقم سے گزارہ کرنا مشکل ہوگیا، فاقوں کی نوبت آ گئی ہے۔

Man sells daughter to pay for surgery

KARACHI, Feb 16: A man sold his 10-year-old daughter for $500 to pay for his eye operation, a police official said on Friday.

The father, Noor Mohammad, had agreed to hand his daughter over to a fellow villager, Gul Mohammad Kalohi, once she reached puberty, said Abdul Hadi, District Police Officer for Badin, some 250km east of Karachi.

?It is a shameful incident,’ Hadi said, adding: ‘We were informed about it through a complaint made by a relative of the father.’

Police have completed their investigation of the case, but no charges have been framed yet due to a jurisdiction dispute as Kolai village, near Tando Bagho town, lay on a boundary.

Under the children’s protection law in Sindh, the man could be sentenced to a year in prison, said Zia Awan advocate. ‘Reuters’

بچے برائے فروخت

میاں چنوں میں ایک شخص شوکت علی نے اپنی غربت کے باعث بچوں کے گلے میں برائے فروخت کے چارٹ لٹکا کر مظاہرہ کیا ۔ سننے میں آیا ہے کہ اس خبر کی اشاعت کے بعد حکومت ۔ مختلف این جی اوز ۔ مخیر حضرات اورخیراتی اداروں نے میاں چنوں کا رخ کر لیا ۔تفصیلات کے مطابق وزیراعظم سیکرٹریٹ نے میاں محمد امیر بودلہ چیئرمین پبلک سیفٹی کمیشن کے توسط سے شوکت علی کو بینک سکیورٹی گارڈ کی نوکری کی پیشکش کی ہے۔ ایک ٹیکسٹائل کے منیجر نے 6000 ہزار روپے تک کی نوکری، لاہور کے ایک شہری نے پاک پتن میں واقع اپنے بورڈنگ اسکول میں اس کے بچوں کی تعلیم رہائش اور مکمل اخراجات برداشت کرنے کی آفر دی ہے جبکہ کراچی چیمبر آف کامرس نے بھی شوکت علی کو مالی امداد کا عندیہ دیا ہے علاوہ ازیں بیرون ممالک ناروے، انگلینڈ، امریکا، و دیگر ممالک سے درد دل رکھنے والے پاکستانیوں نے بھی رابطہ کر کے مدد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

نوائے وقت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنگ

جموں کشمير آزاد کيوں نہ ہوا ؟ تيسری اور آخری قسط

دوسری قسط 9 فروری 2007 کو لکھی گئی

جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب حکمران بنے تو اُنہوں نے بھارت ميں اپنی موروثی جائداد  واگذار کرانے کی خاطر بھارت نواز شملہ معاہدہ پر دستخط کردئيے ۔ جنگ بندی لائين کو لائين آف کنٹرول مانا اور مسئلہ کشمير کا فيصلہ صرف گفت و شنيد کے ذريعہ کرنے کا اقرار کيا اس کے علاوہ شمالی علاقہ ميں جان نثار فوجيوں کی قيمتی جانوں کی قربانی دے کر بھارت سے واپس ليا ہوا علاقہ بھارت کو دے ديا جس کے نتيجہ ميں سياچين کا مسئلہ پيدا ہوا ۔

جنرل ضياء الحق صاحب نے جموں کشمير کی بجائے افغانستان کی جنگ ميں دلچسپی لی ۔

بےنظیر بھٹو صاحبہ نے 1988 عیسوی میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی ۔ دسمبر 1988 عیسوی میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے جہاں کہیں “کشمیر بنے گا پاکستان” یا ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا گیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا ۔ مشترکہ پريس کانفرنس ميں جب ايک سوال کے جواب ميں راجيو گاندھی نے بڑے تلخ لہجہ ميں جموں کشمير کو بھارت کا حصہ کہا تو محترمہ منہ دوسری طرف کر کے ہنس ديں ۔ اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی گئی جن سے مقبوضہ علاقہ ميں بھارتی ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی ۔

بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کو پاکستان سے بھی مایوسی ملی ۔ پہلے بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ 1989 عيسوی ميں بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی بے حُرمتی کی ۔ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ بھارتی فوجيوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی ۔

موجودہ حکومت کی مہربانی سے بھارت نے جنگ بندی لائين پر کہيں ديوار بنا لی ہے اور کہيں خاردار تار لگا دی گئی ہے کہ مقبوضہ جموں کشمير سے کوئی ظُلم کا مارا بھاگ کر آزاد جموں کشمير ميں پناہ بھی نہ لے سکے ۔ مقبوضہ جموں کشمير کے مسلمانوں کا ايک پُرامن اور بے ضرر سياسی اتحاد تھا حُريّت کانفرنس جو جموں کشمير کے لوگوں کی آواز دنيا تک پہنچاتا تھا ۔ ہماری موجودہ حکومت بڑی محنت و کوشش سے اس کے دو ٹکڑے کرنے ميں کامياب ہو گئی ہے گويا مقبوضہ جموں کشمير کے مسلمانوں کی زبان کے دو ٹکڑے کر دئیے ہیں ۔ اپنے ملک ميں حق کی آواز اُٹھانے والا غائب ہو جاتا ہے اور اعلٰی عدالتيں ان کی بازيابی کے حکم ديتے ديتے تھکتی جا رہی ہيں ۔

جہاد تو کيا دين اسلام پر عمل کرنے والوں کيلئے پاکستان کی زمين تنگ کی جا رہی ہے ۔ قرآن شريف کی آيات جو جہاد فی سبيل اللہ کے متعلق ہيں يا کفّار کے خصائل بيان کرتی ہيں کو نفرت انگيز [Hate literature] کہہ کر تعليمی نصاب سے نکالا جا رہا ہے ۔ دين اسلام کی پابندی کرنے والے ہر شخص کو مشکوک سمجھا جانے لگا ہے ۔

ذرائع ابلاغ اس معاملہ ميں اہم کردار ادا کرتے ہيں ۔ ہمارے ملک کے ايک دو اخبار چھوڑ کر باقی سارے جہاد کو دہشتگردی کا نام ديتے ہيں ۔ یہاں انیل خان لُونی اور جلیل امر جیسے قلکاروں کے مضامین اخباروں میں چھپتے ہیں جو پاکستان بننے کو ہی غلط کہتے ہیں اور قائد اعظم کو انگریزوں کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔ اليکٹرانک ميڈيا قوم کو ننگے فيشن اور  ناچ گانا سکھانے کے علاوہ جہاد کے خلاف زہر اُگل رہا ہے ۔

 

 

 

 

 

 

پاکستان کے عوام ميں کچھ کو لُوٹ گھسُوٹ سے فرصت نہيں اور کچھ کو بے پناہ مہنگائی کے باعث نان نقفہ کی تگ و دو ميں گِرد و پيش کا ہوش نہيں ۔

ہماری قوم کے ڈھنڈورچی [big mouths] جو کہ اکثر اين جی اوز کی صورت ميں مجتمع ہيں اُنہيں جموں کشمير کے بے کس لوگوں پر ظلم ہوتا نظر نہيں آتا ۔ اُن کے ساتھ اگر يہ لوگ بہت رعائت کريں تو اُنہيں جہادی اور اِنتہاء پسند کہتے ہيں ورنہ دہشتگرد ۔ کچھ لوگ ايسے بھی ہيں جو کہتے ہيں کہ پاکستان کو کشمير سے کيا ملے گا خواہ مخوا کشميريوں کی مدد کر کے بھارت سے لڑائی کا خطرہ مول ليا ہوا ہے ۔

اب ثاقب سعود صاحب ہی بتائيں کہ کہاں ہيں افراد ۔ بیرونی امداد ۔ اسلحہ اورچھُپنے کے لئے جگہ ؟

جموں کشمير آزاد کيوں نہ ہوا ؟ دوسری قسط

پہلی قسط 5 فروری 2007 کو لکھی گئی

آپریشن جبرالٹر 1965 کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ ناقابل اعتماد لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے افسران کو دکھاتے اور یہ کہہ کر رقوم وصول کرتے کہ وہ جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔

متذکرہ بالا جعلی جاسوسوں نے کشمیر سیل کے افسران کو باور کرایا کہ آزاد کشمیر سے مجاہدین کے جنگ بندی لائین عبور کرتے ہی جموں کشمیر کے مسلمان جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کو بالکل کُچھ خبر نہ تھی ۔ جب پاکستان کی حکومت کی مدد سے مجاہدین پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں نے سمجھا کہ شايد پھر نومبر 1947 عیسوی کی طرح ان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے ۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں سول سروس کے افسران اور آرمی کے جنرل اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور کسی صاحبِ علم کا مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے ۔

جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں میں موجود چند افسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمان کی طرف سے توی کے کنارے رُک جانے کا حُکم تھا اگر پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا ۔ کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک افسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر دو دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے اور ان دنوں میں محاز پر بھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی ۔ اللہ جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔

پاکستان پولیس کے ايک سابق افسراپنی کتاب “پاکستان کا انتہاء پسندی کی طرف بہاؤ ۔ اللہ ۔ فوج اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ” ميں لکھتے ہيں ۔ جب وسط 1965 عیسوی میں پاکستانی فوج نے رَن آف کَچھ میں مختصر مگر تیز رفتار کاروائی سے بھارتی فوج کا رُخ موڑ دیا تو ایوب خان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ بھٹو نے اپنے 12 مئی 1965 کے خط میں ایوب خان کی توجہ بھارت کو بڑھتی ہوئی مغربی فوجی امداد کی طرف دلائی اور اس موضوع کو وسعت دیتے ہوئے اُس نے سفارش کی گفت و شنید کی نسبت ایک دلیرانہ اور جُرأت مندانہ سٹینڈ کے ذریعہ فیصلہ زیادہ ممکن ہو گا ۔ اس منطق سے متأثر ہو کر ایوب خان نے عزیز احمد کے ماتحت کشمیر سَیل کو ہدائت کی کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں گڑبڑ پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے جس سے محدود فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو ۔ کشمیر سَیل نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھِیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ جموں کشمیر میں جنگ بندی لائین کا دفاع اس ڈویزن کی ذمہ داری تھی ۔ آپریشن جبرالٹر کا جو خاکہ جنرل اختر ملک نے بنا کر ایوب خان سے منظور کرایا وہ یہ تھا کہ مسلح آدمی جنگ بندی لائین سے پار مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل کئے جائیں ۔ بعد میں اچانک اِنفنٹری اور آرمرڈ کمک کے ساتھ جنوبی علاقہ میں جموں سرینگر روڈ پر واقعہ اکھنور پر ایک زور دار حملہ کیا جائے ۔ اس طرح بھارت سے کشمیر کو جانے والا واحد راستہ کٹ جائے گا اور وہاں موجود بھارتی فوج محصور ہو جائے گی ۔ اور مسئلہ کے حل کے کئی راستے نکل آئیں گے ۔ کوئی ریزرو نہ ہونے کے باعث جنرل اختر ملک نے فیصلہ کیا کہ آزاد جموں کشمیر کے شہريوں کو تربیت دیکر ایک مجاہد فورس تیار کی جائے ۔ آپریشن جبراٹر اگست 1965 کے پہلے ہفتہ میں شروع ہوا اور مجوّزہ لوگ بغیر بھارتیوں کو خبر ہوئے جنگ بندی لائین عبور کر گئے ۔ پاکستان کے حامی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس لئے اُن کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی ۔ پھر بھی اس آپریشن نے بھارتی حکومت کو پریشان کر دیا ۔ 8 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے مارشل لاء لگانے کی تجویز دے دی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بھارت کی پریشانی سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت آپریشن کے دوسرے حصے پر عمل کرکے بڑاحملہ کر دیا جاتا لیکن جنرل اختر کا خیال تھا کہ حملہ اُس وقت کیا جائے جب بھارت اپنی ریزرو فوج مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل ہونے کے راستے پر لگا دے ۔ 24 اگست کو بھارت نے حاجی پیر کے علاقہ جہاں سے آزاد جموں کشمیر کی مجاہد فورس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھی اپنی ساری فوج لگادی ۔ یکم ستمبر کو دوپہر کے فوراً بعد اس علاقہ میں مجاہد فورس اور بھارتی فوج میں زبردست جنگ شروع ہو گئی ۔ بھارتی فوج پسپا ہونے لگی اور اکھنور کی حفاظت کرنے کے قابل نہ تھی ۔ عین اس وقت پاکستانی کمان بدلنے کا حکمنامہ صادر ہوا جس نے بھارت کو اکھنور بچانے کا موقع فراہم کر دیا ۔ بھارت نے 6 ستمبر کو اُس وقت پاکستان پر حملہ کر دیا جب پاکستانی فوج اکھنور سے تین میل دور رہ گئی تھی” ۔

ريٹائرڈ بریگیڈیئر جاوید حسین لکھتے ہيں ۔ جب سپیشل سروسز گروپ کو اعتماد میں لیا گیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ ردِ عمل کے طور پر بھارتی فوج کے اُن پرظُلم سے اُن کی حفاظت ممکن ہو ۔ لیکن جب اُنہیں محسوس ہوا کہ پلان بنانے والے اپنی کامیابی کا مکمل یقین رکھتے ہیں تو سپیشل سروسز گروپ نے لکھ کر بھیجا کہ یہ پلان [ آپریشن جبرالٹر] پاکستان کیلئے بے آف پِگز ثابت ہو گا ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ 1965 عیسوی میں 5 اور 6 اگست کی درمیانی رات 5000 مسلح آدمی ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ مختلف مقامات سے جنگ بندی لائین کو پار کر گئے ۔ یہ لوگ جلدی میں بھرتی اور تربیت دیئے گئے آزاد جموں کشمیر کے شہری تھے اور خال خال پاکستانی فوجی تھے ۔ یہ تھی جبرالٹر فورس ۔ شروع شروع میں جب تک معاملہ ناگہانی رہا چھاپے کامیاب رہے جس سے بھارتی فوج کی ہائی کمان میں اضطراب پیدا ہوا ۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کے دیہات میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی انتقام بے رحم اور تیز تھا جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں نے نہ صرف جبرالٹر فورس کی مدد نہ کی بلکہ بھارتی فوج کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ پھر اچانک شکاری خود شکار ہونا شروع ہو گئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ بھارتی فوج نے حملہ کر کے کرگِل ۔ درّہ حاجی پیر اور ٹِتھوال پر قبضہ کر کے مظفر آباد کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ۔ اس صورتِ حال کے نتیجہ میں جبرالٹر فورس مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کے تین ہفتہ کے اندر منتشر ہو گئی اور اس میں سے چند بچنے والے بھوکے تھکے ہارے شکست خوردہ آزاد جموں کشمیر میں واپس پہنچے ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔