گو مسئلہ خاور کھوکھر صاحب نے پيش کيا ہے مگر ہے سب مسلمانوں کا مسئلہ اسلئے تمام قارئين کی نذر کر رہا ہوں ۔
خاور کھوکھر صاحب لکھتے ہيں کہ وہ مہينہ ايک آدھ بار گريک سنڈوچ يا ڈونر کباب کھاليا کرتے تھے ۔ اس کا نام دراصل شَورما ہے اور يہ مسلمانوں کے کھانوں ميں سے ايک ہے جو کہ بين الاقوامی بن گيا ۔ شَورما بنيادی طور پر بکرے يا دُنبے يا گائے کے گوشت سے بنايا جاتا ہے ۔ آجکل جسے برگر کہتے ہيں اس کا نام پہلے ہَيمبُرگر تھا کيونکہ جرمنی کے شہر ہَيمبُرگ ميں بنايا گيا تھا اور اس سے پہلے اس کا نام وِمپی تھا جو کہ مسلمان ترکو ں نے بنايا تھا ۔ اسلئے اس ميں بھی بکرے ۔ دُنبے يا گائے کا گوشت استعمال ہوتا تھا ۔ اسی طرح ساسيجز ميں بھی کسی زمانہ ميں صرف گائے کے گوشت کا قيمہ ہوتا تھا ۔ مگر اب مغربی ملکوں ميں اس کی گارينٹی نہيں دی جا سکتی ۔ وہاں تو يہ حال ہے کہ 1977 عيسوی ميں ہالينڈ کے شہر ماس ترِکت کے ايک ہوٹل ميں صرف اُبلے ہوئے چاول منگوائے ۔ جب چاول لائے گئے تو اُن پر بالکل چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لال رنگ کے پڑے تھے ۔ پوچھا تو سؤر کا گوشت تھا ۔ پوچھا يہ کيا ؟ جواب ملا ڈيلی کيسی ہے ۔ بغير کھا پيسے دئے اور ايک ريڑی سے کيلے اور سيب ليکر کھا لئے ۔
اب خاور صاحب کی بيماری کا علاج ۔
جناب آپ نے بے خبری ميں کھا ليا اُس کيلئے اللہ سے معافی مانگ ليجئے اور آئيندہ احتياط کيجئے ۔ اللہ رحيم و کريم ہے ۔ رمضان ميں بھول کر کہ روزہ ہے کوئی کچھ کھا لے تو روزہ نہيں ٹوٹتا ۔ يہ تو آپ کے علم ہی ميں نہ تھا ۔ ميرے خيال ميں گناہگار وہ ہے جس نے علم ہوتے ہوئے اسے حلال کے طور بيچا ۔ متعلقہ آيات درج ہيں ۔
سُورت الْبَقَرَہ ۔ آيات 172 اور 173
اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو ۔
اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے
سُورت الْمَآئِدَہ ۔ آيات 3 اور 4
تم پر مردار حرام کر دیا گیا ہے اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا اور ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے تم نے ذبح کر لیا، اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ کہ تم پانسوں کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین [کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں] سے مایوس ہو گئے، سو [اے مسلمانو!] تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو ۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو [بطور] دین [یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے] پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک کی شدت میں اضطراری حالت کو پہنچ جائے [اس شرط کے ساتھ] کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بیشک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے
لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ فرما دیں کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں، سو تم اس [شکار] میں سے [بھی] کھاؤ جو وہ [شکاری جانور] تمہارے لئے [مار کر] روک رکھیں اور [شکار پر چھوڑتے وقت] اس پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے
Asalam o Alaikum
Achi post hai. khaas taur per Quraan Paak ki ayat ka hawala mujhe bohat acha laga.
aap ke comments ka shukriya. aap ne bilkul sahi kaha hai ke yeh rasta itna kathan nahi hota. lekin sirf un liye jin ke paas pur’eeman qalb hota hai. yeh mazmoon mien ne khud socha hai, khud likha hai, aur mujh jese duniyar ke liye yeh safar itna hi mushkil hota hai. shayad is se bhi zayada. aur yahan us saalik ki bat ki hai jis k liye yeh safar mushkil nahi hota,, tab hi woh juz e lahoot ban jata hai.
Allah Hafiz o Nasir
صبا سيّد صاحبہ
شکريہ ۔ بات صرف سوچ کے رُخ کی ہے اور پھر جس پر اللہ کی کرم نوازی ہو جائے
اسلام علیکم
جناب بات تو آپ کی ٹهیک هے که یه سب میری لاعلمی میں هوا یا آپنے لاعلمی والی بات سے دل کو سہارا دینے والی بات هے ـ
مگر ان فیلینگز کا کیا کیا جائے که جو دل سے نکلتی هی نہیں هیں که ”گند ” کها لیا ـ
میں نے بہت دنیا بهری اور ہر جگه میں نے اتنی احتیاط کی جیسے زہر سے کی جاتی هے ـ
مگر یہاں میرے ساتھ ہینڈ هو گیا جی ـ
فرانس کے مسلمان ہاتھ کر گئے جی ہمارے ساتھ ـ
خاور کھوکھر صاحب
ميں نے قرآن و حديث سے استفادہ حاصل کر کے لکھا ہے ۔ آپ تسلّی رکھئے اور بُرے خيال کو دل سے نکال ديجئے ۔ اول يہ کہ آپ يقين سے نہيں کہہ سکتے کہ آپ نے کھايا ۔ ہو سکتا ہے جو آپ نے کھايا ہو اس ميں ملاوٹ نہ کی گئی ہو ۔ دوسرے ميرا يقين ہے کہ جو اللہ سے ڈرتے ہوئے بُرائی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے ۔ دل کی تسلّی کيلئے آپ آيت کريمہ کا ورد کيجئے ۔
السلام علیکم،۔
خاور بھأی ، یہ تو آپ کے دل کا کھرا پن ہے جس کی وجہ سے آپ ایسا محسوس کر رہے ہیں۔ میں اجمل صاحب سے بالکل متفق ہوں کہ اللہ تعالی سے استغفار کیجیٔے اور آٔیندہ خیال رکھیٔے۔ پھر جیسا اظہرالحق صاحب عموما کہا کرتے ہیں کہ، اللہ تو رحیم و کریم ہے، وہ تو معاف کر ہی دے گا، انسانوں سے ڈر لگتا ہے۔۔۔
اب آپ دیکھیں کہ حرام شے کھانے سے انسان کو کیسا پچھتاوا سا لگ جاتا ہے۔ یہ احساس جو کے اک ڈر کی سی شکل اختیار کر لیتا ہے دل میں ، یہی تو ہے سہی معنوں میں اللہ کا ڈر۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ انسان کا ایمان ہونا چاہیے ‘بین الخوف والرجاء’ یعنی اللہ کے خوف اور اللہ سے امید کے درمیان۔ اللہ کے ڈر سے انسان استغفار کرے اور اللہ کی امید سے انسان دل کو تسلی دے۔
ابو حليمہ صاحب نے بالکل تھيک کہا ہے ۔
خاور کھوکھر صاحب کیلئے اجمل انکل کی باتوں سے مجھے بھی اتفاق ھے-
بیشک اللہ رحیم و کریم اور بڑا معاف کرنے والا ھے
طارق کمال صاحب
جزاک اللہِ خير