عُنوان ميں لکھا لفظ اب کسَوٹی بولا جاتا ہے ۔ فيروزاللغات ميں بھی اسے کسَوٹی لکھا جا چکا ہے گو ترجمہ صحيح کيا گيا ہے ۔ يہ ايک چھوٹا سا پتھر يعنی وَٹی ہوتا ہے جس پر سُنار جنہيں آجکل سَنيارے کہا جاتا ہے سونا گھِس کر اس کا کَھرا ہونا پرکھتے ہيں ۔ چنانچہ اس کا نام کَس وَ ٹی تھا ۔ خير آمدن برسرِمطلب ۔ آج اپنے مسلمان ہونے کے عمل کو کَسوَ ٹی پر پرکھتے ہيں .
يہ صدا عام ہے کہ مسلمان کيوں ہر طرف ذليل ہو رہا ہے ؟ کچھ لوگ دين اسلام کو ہی ناقابلِ عمل قرار دينے لگ گئے ہيں ۔ جبکہ حقيقت يہ ہے کہ اسلام ميں کوئی خامی نہيں ہے ۔ آج کا مسلمان اس وجہ سے ذليل و خوار ہے کہ وہ دين اسلام پر عمل ہی نہيں کرتا ۔
ہم لوگ جو اپنے آپ کو مُسلمان کہتے ہيں اگر ہر ماہ کی پہلی تاريخ کو گذشتہ ماہ کے اپنے عمل پر غور کريں تو معلوم ہو گا کہ محظ شغل اور بھولپن ميں ہم اللہ کے واضح احکام کی کھُلے عام خلاف ورزی کرتے ہيں ۔
صرف چند مثاليں:
کار فنانسنگ جسے کار لِيزنگ کا نام ديا گيا ہے ۔ يہ سود کا کاروبار ہے جس ميں اپنی شان بنانے کی خاطر لوگ شامل ہوتے جا رہے ہيں ۔
ساڑھے سات ہزار روپے کا انعامی بانڈ خريديئے اور ايک کروڑ روپے انعام پايئے ۔ وغيرہ ۔ يہ جُواء ہے جو برسرِعام کھيلا جارہا ہے اور گناہ کا احساس نہيں ۔
فلاں تاريخ تک کار خريديئے اور مُفت ٹی وی سيٹ کے علاوہ لکی ڈرا ميں حصہ ليجئے ۔ پہلا انعام ايک کلوگرام سونا ۔ وغيرہ ۔ يہ بھی جُواء ہے جو برسرِعام کھيلا جارہا ہے اور احساسِ گناہ نہيں ۔
ايس ايم ايس کيجئے اور فلاں موبائل سيٹ يا فلاں ہوائی سفر کيلئے ٹکٹ کے ڈرا ميں حصہ ليجئے ۔ ايس ايم ايس کے پچيس روپے جمع ٹيکس ۔ وغيرہ ۔ يہ بھی جُواء ہے جو برسرِعام کھيلا جارہا ہے ۔ کيا يہ گناہ نہيں ؟
اخبارات ميں چند صفحے رنگين ہوتے ہيں جيسے دی نيوز ميں اِن سٹَيپ ۔ اِن صفحات ميں عورتوں کی نيم عُرياں اور جِنسی کشش والی تصاوير ہوتی ہيں جنہيں اخبار بينوں کی اکثريت ديکھتی ہے ۔ يہ فحاشی کا فروغ ہے اور يہ تصاوير چھاپنا اور ديکھنا گناہ ہے جو بلا تکلّف ہو رہا ہے ۔
ٹی وی پر ناچ گانا اور جسم کے خدوخال نماياں کئے يا نيم عُرياں عورتيں روزانہ کا معمول بن چکا ہے ۔ اس کے علاوہ مرد بھی کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتے ہيں ۔ يہ فحاشی کا فروغ ہے اور اس ميں ملوّث ہونا گناہ ہے جو کہ کيا اور ديکھا جا رہا ہے ۔
ہماری حکومت نے پرفارمنگ آرٹس کے نام پر پاکستان کی بتيس يونيورسٹيوں کی طالبات کو الحمراء لاہور ميں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی ترغيب دی اور اس شغل ميں قوم کے نام نہاد شرفاء اور جواں سال لڑکياں بھی شامل ہوئيں ۔ ان کے ناچ کی رنگارنگ تصادير اخبارات ميں بھی چھپيں اور ٹی وی پر بھی دکھائی گئی ہونگی ۔ يہ فحاشی کا فروغ اور گناہ ہے مگر سب اسے ديکھ کے خوش ہوتے ہيں اور بلاتکلف گناہ کا ارتکاب کرتے ہيں ۔
کمال تو يہ ہے کہ ناچنے گانے والوں يا واليوں اور مووی فلموں ميں جسم کی نمائش کرنے واليوں نے متعدد بار اپنی کاميابی پر کہا کہ اللہ کی مہربانی سے ميرا شو کامياب رہا ۔گويا ان کی فحاشی کے گناہ ميں کاميابی اللہ کی مہربانی سے ہوئی ۔ نعوذ باللہ من ذالک ۔
دين عمل سے ہے باتوں سے نہيں ۔
وما علينا الالبلاغ
کسوٹی کے صحیح تلفّظ کیلئے بہت شکریہ۔
میری ناقص رائے میں اِس دنیا میں مسلمانوں کے ہر طرف ناکام ہونے کی وجوہ یہ ہیں؛
= مسلمانوں کے دنیوی مقاصد، دنیوی اعمال اور دنیوی فکر میں بے انتہا تضاد ہے =
٭ وہ سود کھائے بغیر یہودیوں جیسی دولت چاہتے ہیں۔
٭ وہ اسلام پر چلنے والے بے لوث مذہبی رہنماؤں سے امیر راہبوں جیسی مکّاریاں چاہتے ہیں۔
٭ وہ سیاسی لیڈر سے صد فیصد پاکدمنی اور ساتھ ہی شاطر سیاستدانوں جیسی کامیابی بھی چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کو شاید ہی کوئی خوش کرسکتا ہے۔ اسلئے وہ کامیاب ہوں تو بھلا کیوں کر!
درست فرمایا آپ نے اجمل صاحب۔۔۔۔یہ تو چیدہ چیدہ مثالیں تھیں ورنہ ہمارا معاشرے اس بھی بڑھ کر معصیت پسند بن چکا ہے۔
اُردودان صاحب
قصہ کوتاہ ۔ آجکل کے مسلمانوں کی اکثريت کو کلمہ گو تو کہا جا سکتا ہے ليکن باعمل مسلمان نہيں ۔
ساجد اقبال صاحب
ميرے بلاگ پر تبصرہ کا شکريہ ۔
آپ نے صحيح لکھا ۔ فہرست اتنی لمبی ہے کہ پڑھنے والوں کو اُکتا ديتی ۔ اپنی دعاؤں ميں ياد رکھيئے
یہ ساری خرابیاں جو مسلمانوں کی تنزلی کی جڑ بتائی گئی ہیں یورپ میں اپنی انتہا پر ہیں پھر وہ کیوں ترقی یافتہ ہیں اور زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اب ہم کہیں گے کہ خدا نے انہیں سب کچھ دنیا میں ہی دے دیا ہے اور آخرت میں وہ نعمتوں سے محروم رہیں گے جو مسلمانوں کو ملیں گی۔
ان سب خرابیوں کا مسلمانوں کے دین سے تعلق ہے اور اس کے علاوہ بہت ساری دنیاوی خامیاں جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں وہ بے ایمانی، فراڈ، دھوکہ، جھوٹ، ناانصافی، اقربا پروری، رشوت، جہالت یعنی ناخواندگی، قول و فعل میں تضاد وغیرہ ہیں۔ یہ خامیاں یورپی ممالک میں بہت کم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمان نہ ہونے کے باوجود ترقی یافتہ ہیں۔
دراصل آج کا مسلمان دین اور دنیا میں توازن پیدا نہیں کرسکا۔ وہ اسلام کے انہی احکامات پر عمل کرتا ہے جن کیلۓ اسے محنت نہ کرنی پڑے اور دنیاوی آلائشوں کیلۓ بھی وہ شارٹ کٹ ڈھنڈتا رہتا ہے۔
دراصل آج کے مسلمان کی تربیت اس کی ماں کی گود اور پھر سکول کے ابتدائی سالوں سے ہی غلط ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان ذلیل ہورہے ہیں۔
میں میرا پاکستان صاحب سے قدرے اتّفاق کرتا ہوں۔
دنیوی تنزّلی کا دارومدار اس پر نہیں ہے کہ آپ صحیح کررہے ہیں یا غلط۔
بلکہ اس پر ہے کہ آیا آپ جو کہہ رہے ہیں وہ کررہے ہیں یا نہیں۔
مثلاً ایک انگریزی اخبار ہے “ٹائمس آف انڈیا” جو مسلمانوں کو بے جا بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
لیکن حال یہ ہے کہ اکثر تعلیم یافتہ سے لیکر باعمل و باریش مسلمان اسے خرید کر پڑھتے ہیں۔
یہ اخبار بالغوں کیلئے بڑا دلچسپ بھی ہوتا ہے۔ لیکن تہذیب یافتہ مسلمان خبروں کی خاطر اسے برداشت کرلیتے ہیں۔
لیکن مسلمان پھر بھی کٹّر ہی گنے جاتے ہیں، ان کی اکثریت آج عیسائیوں مدارس میں تعلیم پانے کے باوجود۔
اب قول و فعل کے اس فرق کو مٹاکر اس مسئلہ کا حل کرنے کے یہ طریقے ہیں؛
٭ آپ وہی کریں جو وہ لوگ چاہتے ہیں۔
٭ آپ احتجاجاً اس اخبار کو نہ پڑھیں، یہ ایک فطری بات ہوگی۔ جانور کو مارنے پر وہ بھی پاس نہیں پھٹکتا، آپ تو انسان ہیں۔
٭ آپ بھی انگریزی میں اس کے متبادل اخبار نکالیں، بجائے صرف “اسلامک” اخباروں کے جو انتہائی غیر دلچسپ ہوتے ہیں۔
لیکن یہ تمام صرف “اِس” دیوانے کے خواب ہیں۔ مسلمانوں کو ہر اس چیز کیلئے بدنام ہونے میں تامّل نہیں جو ان کی اکثریت نہیں کرتی۔
صلیبی جنگوں کا ایک واقعہ یاد آ گیا ، کسی شہر کے راستے پر عیسائیوں نے عریاں عورتیں کھڑی کر دیں تھیں اور اسلامی لشکر ان عورتوں پر نظر ڈالے بنا ہی گذر گیا ۔ ۔ ۔کیوں ؟ کیونکہ امیر لشکر کا فرمان تھا کہ اگر کسی نے کچھ غلط دیکھا بھی تو اسے اسی وقت جہنم رسید کر دیا جائے گا ، کیونکہ ایسا کرنے والا اس لشکر میں حرام موت مرے گا، اور اس لشکر کے ہر سپاہی کو شہادت کا شوق تھا نہ کہ دنیا کی طلب ۔ کیا آج کے دور میں ایسا ممکن ہے ؟
دوسری بات ، بے شک مسلمان بے عمل ہیں ، مگر جو باعمل ہیں وہ صرف نماز روزے تک باعمل ہیں ، باقی دنیا کے معملات تو ماشااللہ غیر مسلموں سے بڑھ کر ہیں اکثر دوست اسکا حل کسی ڈنڈا پیر کو سمجھتے ہیں مگر اسکا حل ، صرف ایک امیر باعمل مسلمان ہو سکتا ہے
تیسری بات جو ہمارے دوست کہ رہے ہیں کہ اقربا پروری اور جھوٹ وغیرہ جیسی خرابیاں مغرب میں نہیں ، تو بھئی کیا وہ لوگ نیک ہیں اور کیا ہم مسلمان بھی ایسی ہی ترقی چاہتے ہیں کہ مشینوں سے سب کام لینے کے بعد ہم جنس پرستی اور مادر پدر آزادی ۔ ۔ ۔ آج کل کے مسلمانوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ وہ اسی آزادی کو ترقی سمجھ بیٹھے ہیں
اور چوتھی بات یہ کہ یہ آزادی جن جن اسلامی ممالک میں میسر ہے (یعنی خلیج کے ممالک جیسے امارات، بحرین ، عمان وغیرہ ) وہاں کے مسلمانوں نے اسلام کا کیا حشر کیا ہے اسکا میں گواہ ہوں ۔ ۔
مختصرً اتنا کہوں گا کہ ترقی مشینوں سے نہیں ہوتی ، ترقی انسان کو انسان بنانے سے ہوتی ہے اور اسلام وہ عمل ہے جس سے انسان انسان بنتا ہے ، اور حیوانوں جیسی آزادی چاہنے والے ۔ ۔ اسلام اپنا نہیں سکتے ۔۔۔۔ چاہے وہ مرتے ہوئے بھی کلمہ پڑھ رہے ہوں
افضل صاحب
ميں نے متذکّرہ تحرير ميں معاشرے کے صرف اُن چند غلط عوامل کی نشان دہی کی تھی جو ميرے ہموطنوں کی ايک بھاری اکثريت غير محسوس طور پر کر رہی ہے ۔ اگر ميں تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا تو مضمون بہت طويل ہو جاتا ۔ ويسے ميں قبل ازيں وقتاً فوقتاً چند دوسرے پہلوؤں کی نشان دہی کرچکا ہوں اور جو ابھی رہ گئے ہيں انشاء اللہ ان کی نشاندہی کی کوشش بھی کروں گا ۔
بے شک مغربی دنيا کے لوگوں ميں وہ تمام خامياں موجود ہيں جو آجکل کے مسلمانوں ميں ہيں ۔ وہ لوگ صرف مادی ترقی کر رہے ہيں ۔ اس ترقی کی وجوہات ميں چند خوبيوں کے علاوہ ان کا دھوکہ اور فريب اور مسلمانوں کی مِن حيثُ القوم بے راہروی بھی شامل ہيں ۔ ليکن اتنی مادی ترقی کے ساتھ ساتھ وہ لوگ انسانی لحاظ سے اطمينان و سکون کھو چکے ہيں ۔ محبت اُنہوں نے محظ جنسی تعلق کا نام رکھ ديا ہے ۔ حقيقی محبت سے ان کی آشنائی دم توڑ چکی ہے ۔
مسلمان غربت يا اعلٰی تعليم نہ ہونے کی وجہ سے ذليل نہيں ہو رہے بلکہ بے عملی کی وجہ سے ہو رہے ہيں ۔
کيا دين اسلام انسانی تعلقات اور معيشت کے بہترين اصول نہيں سکھاتا ؟ کيا ان سے روگردانی مسلمانوں کی پسماندگی اور تنزل کا باعث نہيں ہے ؟ کيا دين برابری کا سلوک اور لين دين يا خريد وفروخت ميں ديانت نہيں سکھاتا ؟ يہ ساری برائياں جو مسلمانوں کی آپ نے گنوائی ہيں کيا يہ انہوں نے قرآن سے سکھی ہيں يا حديث سے ؟ کيا اسلام نے انہيں سختی سے ممنوع قرار نہيں ديا ؟
آپ نے ماں کی گود ميں تربيت کا ذکر کيا ہے ۔ کيا مسلمان ماں کا فرض بچے کی سچ پر پرورش کرنا ہے يا کہ اس کے عيوب پر پردہ ڈالنا اور بری بات سے منع نہ کرنا ؟ يا چھوٹی انجان بچيوں کو ناچ سکھانا اور لوگوں سے داد وصول کرنا ؟ کيا وہ باپ اسلام پر چل رہا ہوتا ہے جو اپنے کمسن بچے سے کہتا ہے کہ بيٹا باہر انکل آئے ہيں ان سے کہہ دو کہ ابو گھر پر نہيں ہيں ؟ کيا دين منافقت سے منع کرتا ہے يا منافقت سکھاتا ہے ؟ کيا قرآن شريف کی يہ آيت مسلمانوں کيلئے نہيں ؟
ھل يستوی الذين يعرفون و لا يعرفون ۔
مطلب کہ کيا جو صاحبِ علِم ہيں اور جو بے عِلم ہيں برابر ہو سکتے ہيں ؟
دين اور دنيا ميں توازن والی بات ميری سمجھ سے باہر ہے ۔ وہ کونسا عمل يا فيل ہے جو دين اسلام سے باہر ہے اور وہ کونسی دنيا کی چيز ہے جس کی دين اسلام تو اجازت نہيں ديتا ليکن اس کے بغير ترقی نہيں کی جا سکتی ؟
اصل بات تو آپ چھوڑ گئے آجکل اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے اللہ کی بجائے گوری چمڑی والے کی بات ماننے ميں فخر محسوس کرتے ہيں اور سيّدنا محمد صل اللہ عليہ و سلّم کی بجائے بُش ۔ بليئر اور ان کے ہمنواؤں کو اپنا رہبر بناتے ہيں ۔ کفّار کو تباہی کا سنديسہ دينے والی آياتِ قرآنی کو نفرت انگيز لٹريچر قرار ديتے ہيں ۔ جو مسلمان سچ بولے اور سچ کا ساتھ دے اسے جاہل ۔ پسماندہ اور انتہاء پسند کا خطاب ديتے ہيں ۔ اور پھر مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہيں ۔
اگر ترقی اقوامِ مغرب کی تقليد ميں پنہاں ہے تو پھر اس مغربی دنيا کے تعليم يافتہ لوگ اسلام کيوں قبول کر رہے ہيں ؟
اردودان صاحب
مسئلہ ميرے خيال اور تجربہ کے مطابق صرف ايک ہے ۔ آجکل کے مسلمان گفتار کے غازی ہيں اور عمل ميں صفر يا اس سے بھی کم ۔
اظہرالحق صاحب
ماشاء اللہ آپ نے کتنی اچھی باتيں لکھی ہيں ۔ ميں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں ۔