اگر آپ 15 دسمبر سے یکم جنوری تک یورپ یا امریکہ میں رہے ہوں اور غروبِ آفتاب کے بعد سير کو نکلے ہوں تو آپ نے رات گئے تک چونکا دینے والی رونق دیکھی ہو گی ۔ میرا تجربہ بہت پُرانا ہے ۔ میں اور دو پاکستانی ساتھی 1966 عیسوی میں کسی پراجیکٹ کے سلسلہ میں ڈوسل ڈورف[Dueüsseldorf] جرمنی میں تھے ایک رات رونق دیکھنے نکلے ۔ بقول ایک مغرب زدہ پاکستانی کے ہم تینوں ہی نالائق اور اُجَڈ تھے کیونکہ نہ تو ہم اُم الخباعث [alcoholic drinks] پیتے تھے اور نہ ہمیں ناچنا آتا تھا ۔ اسلئے ہم سڑکوں پر گھوم کر دُور دُور سے ہی رونق دیکھتے رہے ۔ پھر بھی ہمیں دلچسپ واقعات دیکھنے کو ملے ۔ ایک جگہ کچھ لوگ اکٹھے ایک دائرہ کی شکل میں کھڑے تھے ۔ ہم نے وہاں پہنچ کر دیکھا تو ایک عورت اور ایک مرد کوئی 3 میٹر کے فاصلہ سے ایک کھمبے کی طرف باری باری یہ کہہ کر بھاگتے ہوئے آتے کہ اس بار کھمبے پر چڑھ جانا ہے لیکن کھمبے کے پاس پہنچ کر رُک جاتے اور واپس چلے جاتے ۔ اُن کی تصویر تو میرے پاس نہیں مگر یہ بھی کُچھ اسی طرح کی حرکت ہے
انکل بات تو صحیح ہے ، مگر مغرب کی کچھ چیزیں ان جاگتی راتوں میں ایسی بھی ہیں کہ کبھی دل چاہتا ہے کہ دیکھوں ، دریائے ڈینوب کے کنارے رات کا وقت ہو یا پھر ٹیمز کے کنارے ابھرتی صبح ۔ ۔ ۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ ان نشیلے نظاروں کے ہوتے کسی اور نشے کی بھی ضرورت پڑتی ہو گی ؟ ، ایک زیادہ پرانی مووی نہیں مگر اچھی ہے نام ہے “بی فور سن رائز“ یعنی سورج نکلے سے پہلے ، جس میں ایک مغربی شہر کی شام اور رات دکھائی گئی ہے ، اور ایسی ہی کچھ شامیں “این ایوینگ ان پیرس“ میں بھی نظر آتیں ہیں ۔ ۔ ۔ مگر شاید اب وقت بدل چکا ہے ۔ ۔ ۔ ہماری ایک فلم تھی “لو ان لندن“ اس میں حبیب جالب کی یہ نظم تھی جو لندن کی شام کے تناظر میں فلمائی گئ تھی اور آصف مہدی نے کیا خوب گایا تھا ۔ ۔ ۔ پوری یاد نہیں مگر شاید کچھ منظر کشی ہو جائے
یا رب یہ کیسا شہر ہے ، دل کو یقیں آتا نہیں
انسان سے انسان کا کوئی یہاں ناطہ نہیں
لٹتی ہیں کتنی عزتیں جب شام ہوتی ہے یہاں
عورت ہر اک بازار میں نیلام ہوتی ہے یہاں
دیکھا ہے جو آنکھوں وہ ہونٹوں پہ اب آتا نہیں
ویران چہرے دیکھ لو اجڑی ہوئی تہذیب کے
بیٹا آئے نہ برسوں ماں باپ کو پوچھنے
اپنے اپنے حال پر کوئی بھی یاں شرماتا نہیں
یا رب یہ کیسا شہر ہے دل کو یقیں آتا نہیں
(پتہ نہیں کیوں یاد آ گیا یہ گیت آپ کی تحریر پڑھکر شاید اسمیں لندن کی ایک شام ہے اس لئے)
جہاں تک مناظر کا تعلق ہے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمارے ملک پاکستان کو بہترين مناظر سے نوازہ ہے ۔ بلند ترين برف پوش پہاڑ اور ان کے درميان بہتے دريا ۔ سبزہ زار پہاڑ اور ان کے درميان بہتے دريا ۔ چٹيّل پہاڑ ۔ سبزار ميدان اور صحرا ۔ صرف يہی نہيں ہر قسم کی سبزی اور بے شمار قسم کے پھل ۔ بدقسمتی يہ ہے کہ ان کی قدر کرنے والے اس ملک ميں نہيں رہتے ۔ اور ہر شے دساور کی پسند کرتے ہيں ۔ اس قوم کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی يا جاہليت کيا ہو سکتی ہے ؟
ميں نے يورپ ميں جرمنی ۔ ہالينڈ ۔ بيلجيئم ۔ فرانس اور برطانيہ کی سير کی ہوئی ہے ليکن جو مناظر ميں نے اپنے ملک ميں بالخصوص شمالی علاقوں اور آزاد جموں کشمير ميں ديکھے ہيں اُن کا کوئی مقابلہ نہيں ۔
حبيب جالب نے يورپ کی صحيح عکّاسی کی ہے ۔ ميں حبيب جالب کے ذاتی مسلک اور سياسی رجحان سے متفق نہيں تھا مگر باقی چيزوں ميں وہ حقائق کی صحيح ترجمانی کرتا تھا ۔
انکل بات تو ٹھیک ہے کہ اپنے ملک میں جو خوبصورتی اللہ نے دی اسکا مقابلہ آپ کہیں نہیں کر سکتے ، مگر ہمارے ملک کے نظارے بھی شاید مسلمان ہیں ، اسی لئے ان سے تازگی اور فرحت اور سکون ملتا ہے ۔۔ ۔ اور اسی لئے لوگ باہر جاتے ہیں ، اور ویسے بھی گھر کی مرغی دال برابر ۔ ۔ ۔