Yearly Archives: 2006

يہ حال کيوں ؟

مُلک کا يہ حال کيوں ؟ 

يہ وہ سوال ہے جو پاکستانيوں کے دماغ ميں بار بار اُٹھتا ہے مگر زيادہ تر لوگ اس کا جواب نہيں تلاش کرتے ۔ کچھ لوگ اس کا تمام تر قصوروار مُسلمان ہونے کو گردانتے ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ ہم اگر باعمل مُسلمان ہوتے تو ہمارا يہ حال نہ ہوتا ۔ ميں آج ہماری قوم کے تنزّل کی وجوہات ميں سے صرف ايک بظاہر معمولی مگر اہم وجہ پر سے پردہ اُٹھاتا ہوں ۔ باقی انشاء اللہ  پھر کبھی ۔ گو شاعر تو کہتا ہے

پردے ميں رہنے دو ۔ پردہ نہ اُٹھاؤ

پردہ جو اُٹھ گيا تو بھيد کھُل جائے گا

ميں 6 اگست کو اتوار بازار سے سودا سلف لينے کے بعد گاڑی ميں بيٹھا ۔ اسے سٹارٹ کر کے ريورس کر رہا تھا کہ ايک گاڑی آ کر پيچھے کھڑی ہو گئی اور پيچھے ہٹنا نہيں چاہتی تھی ۔ ميں نے اُس کو راستہ ديا ليکن موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے چار پانچ گاڑياں تيز ہو کر زبردستی نکل گئيں ۔ ميں نے دوسری بار گاڑی ريورس کرنا شروع کی پھر وہی ہوا اور کئی گاڑياں زبردستی نکليں ۔ تيسری بار ميں ريورس کر کے آدھی سے زيادہ گاڑی نکال چکا تھا کہ پيچھے ايک گاڑی آ کھڑی ہوئی ۔ اب ميری گاڑی ايسے رُخ ميں تھی کہ آگے نہيں جا سکتی تھی ۔ ميں گاڑی سے باہر نکل کر اس کے مالک سے کہا کہ گاڑی کو تھوڑا پيچھے ہٹا ليجئے ۔ سب کچھ ديکھتے ہوئے پانچ گاڑی والوں نے اپنی گاڑياں آگے لا کر اُس کے پيچھے کھڑی کر ديں ۔ پھر ميں نے ہر ايک سے عليحدہ عليحدہ درخواست کی تو دس منٹ بعد اتنی جگہ بنی کہ ميں نے گاڑی پيچھے کر کے سيدھی کر لی ۔ ابھی ميں نے چند فٹ ہی گاڑی چلائی تھی کہ بائيں طرف سے ايک گاڑی ميرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور اس کے پيچھے پانچ چھ گاڑياں اور آ کے کھڑی ہو گئيں ۔ ميں نے اس گاڑی کے مالک کو سمجھايا کہ اگر آپ گاڑی پيچھے ہٹا ليں تو ميں نکل جاؤں گا تو آپ کو گاڑی پارک کرنے کی جگہ مل جائے گی اور باقی گاڑياں بھی نکل سکيں گی ۔ اس نے گاڑی ہٹائی تو باہر نکلنے کے راستہ سے داخل ہو کر دو گاڑياں آ کر ميرے سامنے کھڑی ہو گئيں اور سب باہر جانے کيلئے تيار گاڑيوں کا راستہ بند کر ديا ۔ پوليس مين اور ميں نے اُنہيں گاڑياں پيچھے کرنے کو کہا  مگر اُن کے مالک بضد کہ ميں گاڑی پيچھے ہٹاؤں ۔  

کمال يہ کہ وہ لوگ جن کی گاڑياں اُن دو اشخاص کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پھنسی ہوئی تھيں وہ مجھے کہنے لگے کہ وہ گاڑی نہيں ہٹاتے اس لئے آپ ہٹا ديں ۔ اُنہوں نے يہ بھی نہ سوچا کہ ميری گاڑی کو پيچھے ہٹانے کی گنجائش نہيں ۔ ميں نے اُن سے کہا کہ ميں دوسروں کو سہولت دينے کے نتيجہ ميں40 منٹ سے يہاں پھنسايا گيا ہوں اور وہ دونوں  ابھی آئے ہيں اور وہ بھی غلط راستے سے ۔ آپ لوگ حق کا ساتھ دينے کی بجائے غلط کا ساتھ کيوں دے رہے ہيں ؟  تو اُن کے پاس جواب نہ تھا ۔ صرف ايک شخص جس نے ميرے کہنے پر اپنی گاڑی پيچھے ہٹائی تھی اُس نے ميرا ساتھ ديا ۔

اب درجنوں گاڑياں پھنس چکی تھيں ۔ آخر ميں نے بلند آواز ميں کہا ۔ ہمارے مُلک کا ستياناس اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ لوگ حق کا ساتھ دينے کی بجائے جابر کا ساتھ ديتے ہيں ۔ اب اگر ميری  گاڑی کے پيچھے کھڑی تمام گاڑياں پيچھے ہٹ جائيں تو بھی ميں اپنی گاڑی پيچھے نہ ہٹاؤں گا ۔ جو غلط ہے اُسے گاڑی پيچھے ہٹانا ہو گی ۔ ديکھتے ہيں کہ جيت حق کی ہوتی ہے يا جابر کی ۔ کچھ دير بعد چند لوگ اُن دونوں کے پاس گئے ۔ باقيوں نے اپنی گاڑيوں سے باہر نکلنے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی ۔ پندرہ بيس منٹ کی بحث کے بعد اُن دونوں نے گاڑياں ريورس کيں اور سب کو راستہ ملا ۔   

اگر ہم لوگ آج فيصلہ کر ليں کہ حق کا ساتھ ديں گے اور جابر کا ساتھ نہيں ديں گے تو تھوڑی تکليف ضرور اُٹھانا پڑے گی مگر اپنا معاشرہ اپنا مُلک بہت اچھا بن جائے گا ۔ اللہ ہميں حق کا ساتھ دينے کا حوصلہ عنائت فرمائے ۔ آمين  

*

میرا انگريزی کا بلاگ ۔ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔ http://iabhopal.wordpress.com

ميرے لڑکپن کے شُغل

ميں نے 9 سال کی عمر ميں ايک دفعہ پتنگ اُڑائی اور وہ ساری عمر کے لئے کافی ہو گئی ۔ بنٹے يا بلور  يا گولياں اور اخروٹ وغيرہ کبھی نہيں کھيلے ۔ گلی ڈنڈا  تھوڑا بہت کھيلا وہ بھی جب ميں تيرہ چودہ سال کا تھا ۔ دسويں جماعت تک ہاکی اور ايف ايس سی ميں باسکٹ بال کھيلی البتہ چِڑی چھِکا ٹيبل ٹينس اور سکواش بہت عرصہ کھيلے ۔

ميرے مشاغل ڈرائينگ ۔ مصوّری اور پھول پتيوں اور بيلوں کے نمونے کڑھائی يا کشيدہ کاری کيلئے بنانا تھا ۔ انسان کی تصوير کبھی بنانے کی کوشش نہ کی ۔ اگر کسی نے مجبور کيا يعنی ميری مصوّری کو چيلنج کيا تو پندرہ سيکنڈ ميں چہرے کی بجائے سَر کے پچھلے حصے کی تصوير بنا دی ۔  ايف ايس سی يعنی انٹرميڈئٹ کا امتحان دينے کے بعد رياضی کی شعبدہ بازی ميں پڑ گيا ۔ ميں 1986ء ميں آپريشنز ريسرچ اور کوانٹی ٹيٹِو ٹيکنِيکس کا کورس کر رہا تھا تو ميں نے ايک مذاحيہ نظم لکھی تھی ۔ اُسے ڈھونڈ رہا تھا ۔ وہ تو نہ ملی مگر ميری ايف ايس سی کے امتحان کے بعد کی شعبدہ بازی کے چند نمونے مل گئے ۔ ان ميں سے تين حاضرِ خدمت ہيں

7 x 7 + 5 = 54
77 x 7 + 5 = 544
777 x 7 + 5 = 5444
7777 x 7 + 5 = 54444
77777 x 7 + 5 = 544444
777777 x 7 + 5 = 5444444
7777777 x 7 + 5 = 54444444
77777777 x 7 + 5 = 544444444
777777777 x 7 + 5 = 5444444444
7777777777 x 7 + 5 = 54444444444

دس تک ميں نے لکھ ديئے ہيں ۔ آپ چاہے جہاں تک چلے جايئے ۔

کم پڑھا لکھا آدمی بڑی رقموں کو ضرب کيسے دے ؟

مثال کے طور پر 89 کو 67 سے ضرب دينا ہے تو ان دونوں ہندسوں کو برابر تھوڑے فاصلہ پر لکھ ليجئے ۔
اب ايک ہندسے کو  2  سے تقسيم کر کے حاصل تقسيم نيچے لکھ ليجئے ۔
پھر حاصل تقسيم کو 2 سے تقسيم کيجئے ۔
يہ عمل دُہراتے جايئے حتٰی کہ حاصل تقسيم  1  آجائے ۔
جو حاصل تقسيم جُفت نہ ہو يعنی طاق ہو اُس کو 2 پر تقسيم کرنے سے پہلے اس ميں سے 1 منہا کر کے اُسے جُفت بنا ليجئے ۔ 
اب دوسرے ہندسہ کو 2  سے ضرب ديکر حاصل ضرب اُس کے نيچے لکھ ليجئے ۔
پھر حاصل ضرب کو 2 سے ضرب دے کر حاصل ضرب نيچے لکھ ليجئے ۔
يہ عمل اتنی بار دہرايئے جتنی بار تقسيم کيا تھا ۔
اب جو حاصل ضرب کی رقم جُفت حاصل تقسيم کے سامنے ہے اُسے کاٹ ديجئے اور جو حاصل ضرب بقايا بچيں انہيں جمع کر ليجئے ۔
جواب ہے  5963

89 . . . . . . . . 67 . . . . . . . . . 67
44 . . . . . . . 134
22 . . . . . . . 268                    
11 . . . . . . . 536 . . . . . . . . .536
. 5 . . . . . . 1072 . . . . . . . .1072
. 2 . . . . . . 2144          
. 1 . . . . . . 4288 . . . . . . . .4288
. . . . . . . . . . . . . . . . . . .————
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . .5963

گنتی چار چوکوں کی مدد سے

انجنيئر کے فرائض اور ذمہ دارياں

مضمون ” انجنيئر کے فرائض اور ذمہ دارياں” ميری تعليم اور پلاننگ ۔ ڈويلوپمنٹ اور پروڈکشن ميں ميرے کئی ملکوں بشمول پاکستان ۔ ليبيا ۔ جرمنی ۔ بيلجيئم ميں ذاتی تجربہ اور غير مُلکی وفود بشمول امريکہ ۔ چين ۔ چيکوسلواکيہ کے ساتھ کام کرنے کے تجربہ کا نچوڑ ہے ۔ سن 1984 ميں يہ مضمون لکھنے تک ميرا متذکّرہ تجربہ 22 سال پر محيط تھا ۔  

يہ مضمون نہ صرف گريجوئيٹ انجنيئروں کيلئے بلکہ انجيئر بننے کی خواہش رکھنے والوں اور تجربہ کار انجنيئروں کيلئے بھی مُفيد ہو سکتا ہے کيونکہ انجنيئر جب کام ميں لگ جاتا ہے تو فطری طور پر اُس کی تمام تر توجہ صرف ايک ہی سمت ہو جاتی ہے جس ميں وہ کام کر رہا ہوتا ہے اور کثيرالجہت انجنيئرنگ اُس کے ذہن سے ماؤف ہونے لگتی ہے ۔

يہ مضمون يہاں پر کلِک کرکے يا ميرے انگريزی کے بلاگ ميں انجنيئر پر کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے ۔  

 

کمال ہو گيا

بلاگسپاٹ بغير کسی پروکسی کے براہِ راست کھُلنا شروع ہو گيا ہے ۔ اللہ يہ گھڑی مبارک کرے اور بلاگسپاٹ براہِ راست ہی کھُلتا رہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمارے حکومتی اہلکاروں کو سيدھی راہ پر چلائے اور عقلِ سليم عطا فرمائے ۔ آمين

*

میرا انگريزی کا بلاگ ۔ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

Hypocrisy Thy Name – – http://iabhopal.wordpress.com  یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔

آپ نے ياد دِلايا تو ۔ ۔ ۔

اسلام آباد موٹر وے و ہائی وے پوليس اِسی سال اسلام آباد کے شہريوں کو متعارف کرائی گئی ۔ مئی ميں اِس کے رويّہ کے متعلق ميں لکھنے والا تھا کہ اچانک 23 مئی کی صبح ميری بيگم گِر گئيں اور اُن کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ پھر وہ دن اور آج کا دن مصروفيت کے باعث ميں پہلے سے لکھی ہوئی  تحريريں شائع کرتا رہا ۔ عتيق الرّحمٰن صاحب نے مُجھے ياد دِلا ديا ۔ شکريہ عتيق الرّحمٰن صاحب ۔

مئی کے مہينے ميں ہم لوگ جی 10 سے اپنے گھر ايف 8 آرہے تھے کہ ايف  10 کے پاس ايک کھڈّے سے گذرنے کے بعد ہماری کار  رُک گئی ۔ ميں باہر نکا ہی تھا کہ ايک پوليس کار آئی ۔ اُس ميں سے سليٹی رنگ کی وردی پہنے پوليس افسر نکلا۔  اُس نے ميرے ساتھ دَھکا لگا کر کار سڑک سے نيچے اُتاری تا کہ راستہ کھُلا رہے پھر اُس نے کار کا بونٹ کھول کر معائنہ شروع کيا ۔ ميں نے سارے تھِمبَل اُتار کر دوبارہ لگائے تو ميری کار چل پڑی ۔ پوليس افسر نے پوچھا “پھر تو بند نہيں ہو جائے گی ؟” ميرے “نہيں” کہنے کے باوجود پوليس کار ايک کلوميٹر تک ہماری کار کے پيچھے چلتی رہی ۔

کُچھ دن بعد ہم زيرو پوائنٹ سے شاہراہ فيصل پر آ رہے تھے کہ جناح ايوينيو سے کُچھ پہلے ٹائر ميں سے ہوا نکل گئی ۔ کيل چُب گيا تھا ۔ ميں کار سے اُترا ہی تھا کہ مُجھے مدھم سی آواز سُنائی دی ” سَر  رُک جائيں ۔ سَر  رُک جائيں” ميں نے ديکھا تو ايک جوان مکينِک کی وردی پہنے ميری طرف سرپٹ بھاگا آ رہا تھا ۔ ميرے پاس پہنچتے وہ ہانپنے لگا ۔ اُس کے ساتھ ايک پوليس مين بھی تھا ۔ اُس مکينِک نے پہيئہ بدل ديا تو ميں نے اُسے کچھ روپے دينا چاہے مگر اُس نے يہ کہہ کر نہ لئے “يہ فری سروس ہے ۔ ميں ٹريفک پوليس کا تنخواہ دار ملازم ہوں ۔ يہ تو شہر ہے اگر شہر کے باہر بھی آپ کو کسی قسم کی مدد درکار ہو تو 915 پر ٹيليفون کيجئے ہمارے آدمی آپ کی مدد کو پہنچ جائيں گے”۔

سُبحان اللہ ۔ مجھے يوں محسوس ہوا کہ ميں جنّت ميں پہنچ گيا ہوں ۔ سچ کہا تھا حکيم الاُمّت علامہ محمد اقبال نے

ذرا نَم ہو تو يہ مَٹّی بڑی ذرخيز ہے ساقی 
 

غَلَط فہمی کا ازالہ يا تصحيح

ميں چلتے چلتے ايک بلاگ پر پہنچا ۔ اُردو کے کئی شعراء کا کلام لکھا تھا ۔ پڑھنے لگ گيا ۔ کچھ شعر  مُضطر صاحب کے نام سے لکھے تھے ۔ ملاحظہ ہوں 

ميرے خيال ميں مندرجہ بالا اشعار بہادر شاہ ظفر کے اشعار ميں معمولی سا ردّ و بدل کر کے اپنائے گئے ہيں ۔ ملاحظہ ہوں بہادر شاہ ظفر کے متعلقہ اشعار ۔

 نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے ميں وہ اِک مُشتِ غُبار ہوں
ميں نہيں ہوں نغمہءِ جانفزا کوئی سُن کے مجھ کو کرے گا کيا
ميں بڑے بروگ کی ہوں صدا ميں بڑے دُکھوں کی پُکار ہوں
ميرا رنگ روپ بگڑ گيا ميرا يار مجھ سے بچھڑ گيا
جو چمن خزاں سے اُجڑ گيا ميں اُسی کی فصلِ بہار ہوں
نہ تو ميں کسی کا حبيب ہوں نہ تو ميں کسی کا رقيب ہوں
جو بگڑ گيا وہ نصيب ہوں جو اُجڑ گيا وہ ديار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کيوں کوئی چار پھول چڑھائے کيوں
کوئی آ کے شمع جلائے کيوں ميں وہ بيکسی کا مزار ہوں

دہشتگردی کے خلاف جنگ اور پاکستان

امريکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کے پاکستان پر اثرات اب واضح ہونے لگ گئے ہيں ۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے امريکہ کی ضرورت سے زيادہ فراخدلی سے حمائت نے قوم کو ردِعمل کے طور پر انتہاء پسندی کی طرف مائل کر ديا ہے ۔ يہ حقيقت ہے کہ امريکی دعوؤں کے برعکس جنگجوؤں کی بھاری اکثريت کا دينی مدرسوں سے تعلق نہيں ہے ۔ بدقسمتی سے مغربی ذرائع ابلاغ نے قوموں اور افراد کو اس سانچے ميں ڈھالنے کا معمول بنا ليا ہے کہ ہر دہشتگردی کے پيچھے طالبان يا مُلّا کا ہاتھ ہے جبکہ حقيقت بالکل مُختلف ہے ۔ وزارتِ داخلہ نے 2005 عيسوی کے آخر ميں  ايک تفتيشی رپورٹ مُرتب کی اس کے مطابق 22 خودکُش بمباروں ميں سے صرف 3 کا کسی مدرسہ سے تعلق تھا ۔ پاکستان بننے سے لے کر 11 ستمبر 2001 تک پاکستان ميں شائد ہی کو خودکُش بمباری کا واقعہ ہوا ہو ۔   

ستمبر 2001 کے بعد سے پاکستان ميں سينکڑوں لوگوں کو جنگجو کا نام دے کر بغير کسی الزام کے قيد کيا گيا ہے اور اُن کے خاندانوں کو اُن کے متعلق بے خبر رکھا گيا ہے ۔ بےشمار پاکستانيوں کو بغير کسی ثبوت کے القاعدہ يا طالبان کے بہانے مشکوک خفيہ طريقہ سے امريکہ کے حوالے کر ديا گيا ۔ اس عمل سے عوام ميں اُن کيلئے ہمدردی پيدا ہوئی ۔ جو کچھ افغانستان اور عراق ميں ہوا ۔ پھر بالخصوص ابو غريب اور گوانٹانامو بے ميں اس نے جوانوں کے ذہنوں پر گہرے نقش چھوڑے ۔  

ايک اور مسئلہ پاکستانی حکومت کی امريکہ کے غلط اقدامات کے سلسسہ ميں بيجا رفع دفع کی پاليسی ہے ۔ کئی مواقع پر ايف بی آئی نے پاکستان کے اندر مقامی سکيورٹی ايجنسيوں کی مدد سے کمانڈو آپريشن کئے اور پاکستانی شہريوں کو اُٹھا کر لے گئے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امريکی فوجيوں نے پاکستانی علاقہ ميں داخل ہو کر حملے کئے ۔   

جمہوريت کی کمی ۔ اداروں کے غيراستحکام اور اقتدارِ اعلٰی ميں شگاف نے مسائل کو گھمبير بنا ديا ہے اور حکومت ديرپا مفيد اقدام کيلئے ضروری سياسی اور جمہوری چہرے سے محروم ہے جس کی وجہ سے حالات بہتر کرنے سے قاصر ہے۔ 

يہ جاويد رانا صاحب کے 17 جولائی 2006 کو ڈان ميں چھپنے والے مضمون کے کچھ اقتباسات کا ترجمہ ہے ۔

*

 میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

Hypocrisy Thy Name – – http://iabhopal.wordpress.com/  یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔

نام روشن خيالی کام سنگدلی

وہ حُکمران جو  ہر وقت انسانی حقوق ۔ امن اور جمہوريت کی بحالی اور روشن خيالی کا راگ الاپتے رہتے ہيں اُن کا عمل اور اصل چہرہ ديکھنے کيلئے يہاں کلِک کر کے ديکھئے اُن کے بے پنا ظُلم کی تصاوير  

يہ سب کچھ ديکھ کر اگر لبنان کے لوگوں کيلئے جن ميں زيادہ تر مُسلمان مگر عيسائی اور يہودی بھی سامل ہيں آپ کے دل ميں دُکھ يا ہمدردی پيدا ہو تو کم از کم يہاں کلِک کر کے اس ظُلم کے خلاف پيٹيشن پر اپنا نام لکھ ديجئے ۔ 

 رسول اللہ صلّی اللہ عليہ و اٰلہِ وسلّم نے فرمايا ۔ ظُلم کو طاقت سے روکو ۔ اگر طاقت سے نہيں روک سکتے تو اس کے خلاف آواز بلند کرو ۔ صحابہ کرام نے پوچھا اگر ايسا نہ کر سکيں ۔ فرمايا پھر اس کو دل سے بُرا سمجھو مگر يہ کمزور ترين ايمان کی نشانی ہے ۔   

*

میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

   Hypocrisy Thy Name ۔ ۔ ۔  http://iabhopal.wordpress.com یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔