Yearly Archives: 2006

سچا کون ؟

حکومت کا يہ دعویٓ بھی غلط نکلا کہ باجوڑ کا مدرسہ جس پر 30 اکتوبر کو صبح 5 بجے بمباری سے 82 بےگناہوں کا ناحق خون ہوا ان ميں مدرسے کے مہتم مولانا فقير محمد بھی ہلاک ہو گئے جن کو امريکی حکومت طالبان کمانڈر قرار دے کر دہشتگرد کہتی ہے ۔ دراصل مدرسہ کے مہتمم مولانا لياقت ہيں جو کہ شہيد ہو گئے ہيں ۔ مولانا فقير محمد زندہ ہيں ۔

ديگر 31 اکتوبر کو بد قسمت قوم کے خوش قسمت صدر اور چيف آف آرمی سٹاف جنرل پرويز مشرف نے کہا کہ باجوڑ مدرسہ ميں مارے جانے والے سب دہشتگرد تھے اور وہ مدرسہ کے اندر دہشتگردی کی تربيت باقاعدہ اسلحہ کے ساتھ لے رہے تھے ۔ جو کہتا ہے کہ وہ دہشتگرد نہيں تھے وہ جھوٹا ہے اور وہ طاقت کا استعمال جاری رکھيں گے

اہم خبر ۔ بی بی سی کے مطابق باجوڑ مدرسہ ميں مرنے والوں کی عمریں بارہ سے سولہ سال کے درمیان تھیں۔

کمال يہ ہے کہ مدرسہ کے ملبہ سے انسانی جسموں کے ٹکڑےاور مسخ شدہ لاشيں تو مليں مگر سوائے ميزائل کے ٹکڑوں کے ايک بھی ٹکڑا ہتھيار کا نہ ملا

پرويز مشرف کے بھونپو ميجر جنرل شوکت سلطان نے کہا ہے کہ حملہ کيلئے افغانستان ميں موجود امريکی انٹيليجنس کی مہيّا کردہ معلومات استعمال کی گئيں ۔ اب صرف يہ کہنا باقی رہ گيا ہے کہ حملہ بھی امريکہ نے پرويز مشرف کو بتا کر کيا تھا ۔ ويسے بتانے کی ضرورت بھی کيا ؟ غلاموں پر کون اعتماد کرتا ہے

ميں صرف يہ کہتا ہوں کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو

ظُلم کی انتہاء اور کيا ہوتی ہے ؟

باجوڑ ايجنسی ميں مدرسہ ضياءالعلوم تعليم القرآن پر پير 30 اکتوبر کی صبح 5 بجے کے لگ بھگ مزائل مار کر مدرسہ کے
مہتمم مولانا فقير محمد ۔ تين اساتذہ اور 7طلباء کو ہلاک کر ديا گيا جن ميں 30 حافظِ قرآن اور درجن سے زائد نابالغ بچے باقی اٹھارہ سے پچيس سال تک کے تھے ۔ مقامی لوگوں کے مطابق امريکہ کے بغير پائلٹ طيّارے [ڈرون] کچھ دنوں سے اس علاقہ پر پرواز کرتے رہے ۔ آخر پير کی صبح دو امريکی ڈرون آئے ان ميں سے ايک نے دو ميزائل چلائے ۔ ايک مدرسہ ميں گرا اور دوسرا قريبی نالہ ميںپھر تيسرا ميزائل دوسرے ڈرون نے چلايا ۔ اس کے تقريباً 15 منٹ بعد پاک فوج کے گن شِپ ہيلی کاپٹر آئے اور انہوں نے ملحقہ پہاڑی پر راکٹ چلائے جن کا دھماکہ پہلے تين دھماکوں سے بہت کم تھا ۔ خيال رہے کہ اس سال جنوری ميں بھی امريکہ نے مولانا فقير محمد کو مارنے کيلئے ميزائل داغے تھے جس سے 18 بيگناہ شہری جن ميں زيادہ تر عورتيں اور بچے تھے ہلاک ہو گئے تھے ۔ اُس وقت بھی امريکہ نے يہی کہا تھا کہ وہاں ايمن الظواہری نے ڈنر پر آنا تھا ۔ اس قتل پر اتنا شديد ردِعمل ہوا تھا کہ پاکستان کی حکومت امريکہ سے احتجاج کرے پر مجبور ہو گئی تھی امريکی ٹی وی چينل اے بی سی نے بتايا کہ حملہ ان اطلاعات پر کيا گيا کہ مدرسے ميں ايمن الظواہری ٹھہرے ہوئے ہيں ۔ لہٰذا چھوٹے امريکی جاسوس طيّارے [ڈرون] سے اسے نشانہ بنايا گيا تاہم تصديق نہيں ہو سکی کہ ايمن الظواہری وہاں تھے اور ان کا کيا انجام ہوا ۔ اے بی سی ٹی وی کے مطابق حملہ ميں دو سے پانچ تک عسکريت پسند ہلاک ہوئے جن ميں برطانوی طيّارہ کيس کا ماسٹر مائينڈ بھی شامل ہے

پاک فوج کے ترجمان ميجر جنرل شوکت سلطان نے کہا کہ کچھ دنوں سے خفيہ اطلاعات مل رہی تھيں کہ اس مدرسہ ميں دہشتگردی کی تربيت دی جاتی ہے اور يہ کہ حملہ پاکستان کی سيکيورٹی فورسز نے کيا ۔ امريکی ٹی وی کی خبر کی انہوں نے واضح ترديد نہ کی ۔ ايمن الظواہری کی مدرسہ ميں موجودگی اور برطانوی طيّارہ سازش کے ماسٹر مائينڈ کی ہلاکت کی تصديق نہيں کی اور کہا کہ يہ محض مفروضہ ہے ۔

جن اخبارات کے مندرجات کو اختصار کے ساتھ پيش کيا گيا
دی ڈان
دی نيوز
نيشن
نوائے وقت
جسارت

اب تو يوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جن کو ہم حکمران سمجھتے رہے وہ دراصل غيرملکی طاقت کے غلام ہيں ۔ اس لئے ہموطنوں کے قتلِ عام پر مجبور ہيں ۔ اور اپنے آقاؤں کی تابعداری ميں دينی تعليم [صرف اسلام کی] کو دہشتگردی کا نام ديتے ہيں ۔

آزادی آزادی آزادی

ہم کيا چاہتے ہيں ؟
آزادی آزادی آزادی

انشاء اللہ العزيز

ستم شعار سے تجھ کو چھُڑائيں گے اِک دِن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دِن

ميں مسلم ہائی سکول راولپنڈی ميں دسويں جماعت ميں تھا ۔ 24 اکتوبر 1952 کو صبح سويرے سارے سکول کے طلباء کے سامنے ہمارے ايک اُستاذ نے اقوامِ متحدہ کی خوبياں بيان کرنا شروع ہی کی تھيں کہ سکول کے باہر سے آواز آئی ۔ ہم منائيں گے يومِ کشمير ۔ اُن کی آواز ميں ہماری جماعت کے طلباء نے آواز ملائی پھر کيا تھا پورا سکول نعروں سے گونج اُٹھا ۔ کرائيں گے آزاد جموں کشمير ۔ اقوامِ متحدہ مردہ باد ۔ سکول کے باہر گورنمنٹ کالج کے طلباء جلوس کی شکل ميں آئے تھے

جمعہ 24 اکتوبر 1947 کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے انسانوں سے مايوس ہو کر اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی ایک جنگ کی صورت اختیار کر گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔  کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے صوبہ جموں میں کٹھوعہ اور صوبہ کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ شروع تو مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے ہوا ليکن ايک ہفتہ بعد بڑی تعداد میں بھارتی فوج بھی محاذ پر پہنچ گئی اور ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کوہ مری کے قريب پاکستان کو کشمير سے ملانے والا کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن اللہ سُبْحَانہُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا ۔ 

جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمانوں کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں يا دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ جبکہ بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی ۔ بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے اللہ کی نُصرت سے آگے بڑھتے رہے ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے ۔

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی پھر جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔

اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہ تھے مگر وزیرِ خارجہ ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی ۔ 

آجکل پاکستان کی حکومت بھی پاکستان دُشمن قوتوں کے نِرغے ميں ہے اورجموں کشمير کے مسلمانوں کے قاتلوں کے ساتھ محبت کی پينگيں بڑھا رہی ہے ۔ يوں محسوس ہوتا ہے کہ اندر کھاتے امريکہ کے دباؤ کے تحت بھارت کی ہر بات ماننے بلکہ ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ ہمارے روشن خيال حکمران امريکہ کو دے کر اُن کی زبانی شاباشوں پر پھولے نہيں سماتے ۔ ليکن تاريخ پڑھنے والے جانتے ہيں کہ نيک مقصد کيلئے ديا ہوا خون کبھی رائيگاں نہيں جاتا اور غاصب و ظالم حکمران کے خلاف آزادی کی جدوجہد سے بڑھ کر نيک مقصد اور کيا ہو سکتا ہے ؟ جموں کشمير کے مسلمان پچھلے 60 برس ميں پونے پانچ لاکھ جانيں ظُلم کی بھينٹ چڑھا چکے ہيں ۔ انشاء اللہ يہ بيش بہا قربانياں ضائع نہيں جائيں گی اور رياست جموں کشمير آزاد ہو کر رہے گی ۔ 

عيدالفطر مبارک

تمام مسلم محترم بزرگوں ۔ بہنوں ۔ بھائيوں اور پيارے بچوں بالخصوص پاکستانی محترم بزرگوں ۔ بہنوں ۔ بھائيوں اور پيارے بچوں کی خدمت ميں عيدالفطر کا ہديہِ تبريک پيش کرتا ہوں اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے ۔ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی آپ سب کے روزے اور عبادتيں قبول فرمائے اور آپ سب کو دائمی عمدہ صحت ۔ مُسرتيں اور خوشحالی سے نوازے ۔ آمين ثم آمين ۔

ميری مؤدبانہ گذارش ہے کہ ايک سال پہلے کی عيد نہ بھولئے ۔ لاکھوں بزرگ ۔ بہنيں ۔ بھائی اور بچے آزاد جموں کشمير اور پاکستان کے شمالی علاقوں ميں آپ کے منتظر ہيں

وطن سے دور بسنے والوں کے احساسات

ميں 1967 ميں وطن سے دور جرمنی کے شہر ڈوسل ڈَورف ميں تھا ۔ عيد کا دن تھا ۔ ڈوسل ڈَورف کی گہما گہمی کے باوجود محسوس کر رہا تھاکے ميں کسی بياباں يا صحرا ميں بالکل اکيلا ہوں جہاں کوئی چرِند پرِند بھی نہيں ۔ کچھ دير گُم سُم رہا پھر وطن کی ہر چيز ذہن ميں متحرک ہو گئی ۔ اُس دن جو شعر ميں دہراتا رہا يہاں درج کر رہا ہوں

چمن چھُٹا تو گُل و ياسمن کی ياد آئی
پہنچ کے دشت ميں صبحِ چمن کی ياد آئی

وطن وہ مرکزِ صِدق و صَفا حرِيمِ جمال
وطن وہ کعبہءِ عِلم و ہُنر عرُوجِ کمال
وطن کہ سُرمہءِ چشم طلب ہے خاک اس کی
وطن کہ شہرِنغمہءِ نکہت ۔ ديارِ حُسن و جمال
وطن جہاں ميری اُمنگوں کا حُسنِ تاباں ہے
وطن کہ جہاں ميری شمعءِ وفا فروزاں ہے
وطن جہاں ميری يادوں کے دِيپ جلتے ہيں
وطن جو يوسفِ بے کارواں کا کنعاں ہے

ديارِ شوق سے تيرا اگر گذر ہو صباء
گُلوں سے کہنا کہ پيغمبرِ بہار ہوں ميں
ميرے نفس سے ہيں روشن چراغِ لالہ و گُل
چمن کا روپ ہوں ميں ۔ حُسنِ لالہ زار ہوں ميں

ميرے خلوصِ سُخن پہ جو اعتبار آئے
روِش روِش پہ چمن ميں کوئی پُکار آئے
ہميں بھی باغِ وطن سے کوئی پيامِ يار آئے
ہميں بھی ياد کرے کوئی جب بہار آئے

رِيڈل نے مشرف کا بھانڈا پھوڑ ديا

صدر جنرل پرويز مشرف کی کتاب کی رونمائی کے ساتھ ساتھ امريکہ کے سابق صدر بِل کلِنٹن کے مشيرِ خاص بروُس رِيڈل کی کتاب چھپی ہے جس ميں اُس نے جولائی ميں اس وقت کے وزيرِ اعظم نواز شريف اور صدر بِل کلِنٹن کے مابين ہونے والے ايک اہم اجلاس کی مختصر کاروائی لکھتے ہوئے معرکہ کرگل اور حکومت پر فوج کے متوقع قبضہ کے متعلق حقائق بيان کئے ہيں جس سے جنرل پرويز مشرف کے دعوے غلط ہو جاتے ہيں مندرجہ ذيل رابطے پر کلِک کر کے يا اسے براؤزر ميں لکھ کر تفصيل پڑھيئے http:// hypocrisythyname.blogspot.com/2006/10/truth-musharraf-vs-nawaz.html