Yearly Archives: 2006

قدر و قیمت

بھائی محمد عاصم کی وفات اور اِس کے بعد اُن کے بڑے بیٹے تیس سالہ خُرّم کے کردار سے مجھ پر دو حقیقتیں منکشف ہُوئیں ۔ایک یہ کہ ہمیں کسی چیز کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب وہ کھو جاۓ ۔

دوسری یہ کہ ہمیں کسی چیز کی کمی کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ مل جاتی ہے

برخوردار خُرّم نے سب کچھ مَاشَاء اللہ اِتنی خوش اُسلُوبی سے کیا کہ میں دِل ہی دِل میں سُب٘حَان٘ اللہ اور مَاشَاء اللہ کہتا رہا اور خُرّم کو دعائیں دیتا رہا ۔ خُرّم نے بڑے سلیقے سے میّت کو قبر میں اُتارا ۔ جب دفن کے بعد دعا ہو چکی تو اُس نے بلند آواز میں کہا “اگر میرے والد نے کِسی کے ساتھ زیادتی کی ہو یا اُن کی کسی بات سے کسی کو پریشانی ہوئی ہو تو میری درخواست ہے کہ اُنہیں معاف کر دے اور اگر اُن کے ذمّہ کسی کا کچھ واجب الادا ہو تو میں حاضر ہوں دینے کے لئے ۔

زندگی

موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہےمرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
در حقیقت وہ کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

مرنے والوں کی جبِیں روشن ہیں اِس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

جِینا کیا ہے خواب ہے اک دیوانے کا
زندگی نام ہے مَر مَر کے جِئے جانے کا

پھُول تو دو دن کے لئے بہارِ جانفِزا دِکھلا گئے
حَیف ایسے غُنچوں پہ جو بن کھِلے مرجھا گئے

اب تو گبھرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کِدھر جائیں گے

اِنَّا لِلّهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ

میں اِنتہائی دکھ کے ساتھ لکھنے پہ مجبور ہوں کہ میرے پیارے ساتھی میرے مخلص دوست میرے ہمدرد بھائی اور میری پیاری بہو بیٹی عنبرین زکریّا کے والد محترم چوہدری محمد عاصم صاحب پاکستان میں عید الاضحی کے دن (11 جنوری) شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے اچانک حرکتِ قلب بند ہو جانے سے وفات پا گئے ۔ اِنَّا لِلّهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ

میں دست بدعا ہوں اور میری تمام قارئین سے التماس ہے کہ اللہ سے مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کیجئے اور دعا کیجئے کہ اللہ تعالی بیٹی عنبرین ۔ عنبرین کی والدہ ۔ دونوں بھائیوں اور پھوپھو کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین یا ربِ العالمین ۔

بھائی عاصم صاحب ایک خود ساز۔ اپنے فن کے ماہر۔ بہت محنتی اور بہت سادہ طبیعت انسان تھے ۔ وہ باعمل اور حلیم طبع مسلمان تھے ۔ وہ ہر ایک کے ہمدرد اور ہر ایک سے مخلص تھے ۔ وہ اپنی مرضی کرنے کی بجائے دوسرے کی خوشی میں خوش رہتے ۔

پاکستان بننے پر گیارہ سال کی عمر میں سوائے دو ماموں ایک بڑے بھائی اور ایک چھوٹی بہن کے والدین سمیت تمام بزرگوں کی لاشیں بھارت میں چھوڑ کر پاکستان پہنچے ۔ ایف ایس سی پاس کرنے کے بعد ماموں صاحبان بھی راہیءِ ملکِ عدم ہوئے تو کراچی شپ یارڈ میں بطور اپرنٹس بھرتی ہو گئے اور فاؤنڈری پریکٹس میں تعلیم و تربیّت حاصل کی ۔ کچھ سال بعد پاکستان آرڈننس فیکٹریز ۔ واہ کینٹ سے منسلک ہو گئے اور اپنی لگن اور شب و روز محنت سے چند ہی سالوں میں فاؤنڈری کے ماہرین میں شمار ہونے لگے ۔ ملک کے بڑے بڑے کارخانوں نے اُن کے ماہرانہ مشوروں سے استفادہ کیا ۔

تیرہ سال میرا اُن سے بہت قرب رہا ۔ میری تمام تر کوشش کے باوجود اُنہوں نے کبھی اپنی خواہش کا اظہار نہ کیا اور ہمیشہ مجھ ہی سے کہا “آپ بتائیں یہ کیسے کیا جائے ؟” میں کہتا کہ یہ آپ کی خواہش کے مطابق کرنا ہے تو کہتے “میری خوشی اُس میں ہے جو آپ کریں” اور میں لاجواب ہو جاتا ۔ ایسا بھائی ایسا دوست مجھے ڈھونڈے نہ ملے گا ۔

اللہُ اکبر

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

عید مبارک

 

اللہ سُب٘حانُہُ و تَع٘الی آپ سب کے لئے سینکڑوں خوشیوں بھری عیدیں لائے۔ آمین ۔
اُمید کی جاتی ہے کہ آپ اِس عید پر زلزلہ کے متاءثرین کو بھی اپنی خوشیوں اور صحبت کا کچھ حِصّہ عطا فرمائیں گے

برفاں دے گولے ۔ ملائی دی برف

پنجاب کے رہنے والے اگر اِن صداؤں سے واقِف نہیں تو پھر وہ کچھ نہیں جانتے ۔برفاں دے گولے ۔ ٹھنڈے تے مِٹھے ۔ پیئو تے جیو ۔ ۔ ۔ ملائی دی برف اے

پُرانی بات ہے ۔ ہم چند دن پہلے شمالی علاقوں میں کچھ دن قیام کے بعد واپس آئے تھے ۔ ہمارے ہاں کچھ مہمان آ گئے ۔ اُن کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو میں برفانی پہاڑوں کی تفصیل بتا رہا تھا کہ ایک بچّہ بولا “پھر تو وہاں کے بچّے خوب برف کے گولے اور آئس کریم کھاتے ہوں گے” ۔

آجکل حارث بن خُرّم اور قدیر احمد رانا صاحبان بھی برف کے گولے اور آئس کریم کھا رہے ہوں گے ۔ چند دن قبل حارث بن خُرّم صاحب کی ای میل ملی کہ ملتان میں بہت سردی پڑ رہی ہے ۔ اُن کی ڈھارس بندھانے کے لئے سرفراز شاہد صاحب کے یہ شعر

لبوں پہ آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی ميں
غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں
محلے بھر کے بچوں نے دھکیلا صبح دم اس کو
مگر ہوتی نہیں اسٹارٹ اپنی کار سردی میں
کئی اہل نظر اس کو بھی ڈسکو کی ادا سمجھے
بچارا کپکپایا جب کوئی فنکار سردی ميں

مُنڈیا سیالکوٹیا

کِسی زمانہ میں ملکہءترنّم نورجہاں کا ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا
۔تیرے مکھڑے تے کالا کالا تِل وے
وے مُنڈیا سیالکوٹیا

سو میں سیالکوٹی مُنڈے (سیالکوٹ کے لڑکے) کی شادی خانہ آبادی میں شرکت کے لئے سیالکوٹ اور لاہور گیا تھا ۔ میں شائد سات آٹھ سال بعد سیالکوٹ گیا ۔ شادی کا احوال اور سفر کی روئیداد انشاء اللہ جلد