Yearly Archives: 2006

قانون کا غلط استعمال ۔ ایک اہم فیصلہ

میں نے حدود آرڈیننس پر اِظہارِ خیال کرتے ہوئے 23 مئی اور 26 جون 2005 کو لکھا تھا کہ اسلامی قوانین کا صحیح اِطلاق اُس وقت تک مشکل ہے جب تک ملک میں ایک رفاہی یا اِنصاف پسند حکومت قائم نہیں ہو جاتی ۔ میں نے مزید لکھا تھا کہ حدود آرڈیننس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اِس کے صحیح اِطلاق میں نہ صِرف دُوسرے قوانین حائل ہیں بلکہ قانون کے نفاذ کا سارا نظام ہی چوپٹ ہے ۔ تفتیش کے دوران عورت کی جسمانی اور جذباتی کمزوری کا پورا فائدہ با رسُوخ ۔ جابَر یا ظالم کو دیا جاتا ہے اور زنا بالجبر [Rape] کے کیس میں بھی عام طور پر عورت کو مجرم قرار دے دیا جاتا ہے اور یہ پولیس اور قانون دانوں کے شیطانی تعاون سے ہوتا ہے ۔اللہ کی کرم نوازی دیکھئیے کہ وفاقی شریعت عدالت کے چیف جسٹس چوہدری اعجاز یوسف نے ایک عدالتی فیصلہ میں میرا نظریہ صحیح ثابت کر دیا ہے ۔ ملاحظہ ہو منگل۔ 31 مئی 2006 کو جاری ہونے والے اور یکم فروری 2006 کے اخباروں میں شائع ہونے والے فیصلہ کا خلاصہ ۔

فیصلہ

“وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز کے مطابق عدالت نے زنا سے متعلق مقدمہ میں ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے ازسرنو سماعت اور فیصلہ کیلئے ٹرائل کورٹ کو واپس بھیج دیا۔ قبل ازیں ایڈیشنل سیشن کورٹ کی طرف سے عورت اور مرد دونوں کو زنا کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قید اور جرمانہ کی سزائیں دی گئی تھیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید قرار دیا کہ جب کسی مرد ملزم پر کسی عورت کی طرف سے زنا بالجبر کا الزام عائد کیا جائے تو تاخیر ۔ حمل قرار پانے یا کسی دیگر وجہ سے قطع نظر اولین مرحلے میں کسی عورت کو زنا بالرضا کے الزام میں زیر دفعہ 10 (2) چارج نہ کیا جائے جب تک زنا بالرضا کی ضروری شہادت نہ مل جائے اور مقدمہ کی الزام کے مطابق سماعت کی جائے ۔ مرد ملزم کو اس کے مطابق چارج کیا جائے اور مستغیثہ کو اپنے الزام ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ اس طریقہ کار کو اپنانے سے عورت کے خلاف غلط استغاثہ کا سدباب ہو جائے گا اور سائلہ بطور گواہ پیش ہو کر شہادت دینے کے قابل ہو گی جو مناسب طور پر استعمال ہو سکے گی ۔

واقعات کے مطابق تھانہ خان پور ضلع ہری پور میں 4 جون 1997ء کو ایک عورت نے رپورٹ درج کرائی کہ وہ گھر میں اکیلی تھی اس کے پڑوسی جمروز نے دیوار پھلانگ کر اور دروازہ بند کرکے پستول کی نوک پر اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا اور جاتے وقت اس کو دھمکی دی کہ اگر اس نے یہ واقعہ کسی کو بتلایا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے خوف کے مارے یہ واقعہ کسی کو نہ بتلایا۔ چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ وہ حمل سے ہے۔ چنانچہ ملزم کے خلاف جرم زنا …نفاذ حدود… آرڈیننس 1979ء کی دفعات 5 اور 10 کے تحت درج بالا تاریخ پر پرچہ درج کر لیا گیا تاہم جب چالان عدالت بھجوایا گیا تو اس میں پولیس نے اس عورت کا بھی ملزمہ کے طور پر اندراج کیا ۔”

یہ کِس طرح ہوتا ہے ؟

دراصل عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ پولیس چالان میں زنا بالجبر [Rape] کو زنا بالرضا [with mutual consent] لکھ دیتی ہے یا زنا بالجبر کی قانونی دفعہ کی بجائے زنا بالرضا کی قانونی دفعہ کا اندراج کر دیتی ہے جس سے کیس کی نوعیّت ہی بدل جاتی ہے ۔ اِس صورت میں چار گواہوں کی شرط بھی لاگوُ ہو جاتی ہے جو ایسے کیس میں مہیّا کرنا ناممکن ہوتا ہے ۔ اِس کے نتیجہ میں زنا بالجبر کرنے والا مرد بچ جاتا ہے اور مظلوم عورت کو بدکار قرار دے کر سزا دے دی جاتی ہے ۔ خیال رہے کہ اگر اِنصاف بانٹنے والے [جج] اِس شیطانی عمل میں شریک نہ ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ مظلوم عورت کو اِنصاف نہ ملے ۔ یہاں میں یہ بھی واضح کر دوں کہ میں نے پچھلے ایک سال میں بہت مطالع کیا مگر مجھے قرآن شریف ۔ حدیث حتٰی کہ کتابُ الفِقَہ میں بھی نہیں ملا کہ زنا بالجبر کے لئے چار گواہوں کی شرط ہے ۔ جو بات میری سمجھ میں آئی ہے اُس کے مطابق یہ شرط زنا بالرضا کے لئے ہے ۔ زیادہ علم رکھنے والے اِس سِلسلہ میں میری راہنمائی کر سکتے ہیں ۔

لمحہءِ فکر ہے یارانِ نقطہ دان کے لئے

ایک حسابی نے تجزیہ کیا ہے کہ عام انسان اپنا وقت کیسے گذارتا ہے ۔ تجزیہ ہوشرُوبا ہے ۔ ملاحظہ ہوستّر برس عمر پانے والے انسان کے مختلف مشاغل میں صَرف ہونے والے وقت کو جمع کیا جائے تو نقشہ کچھ اِس طرح بنتا ہے

وہ 24 سال سوتا ہے
وہ 14 سال کام کرتا ہے
وہ 8 سال کھیل کود اور تفریح میں گذارتا ہے
وہ 6 سال کھانے پینے میں گذارتا ہے
وہ 5 سال سفر میں گذارتا ہے
وہ 4 سال گفتگو میں گذارتا ہے
وہ 3 سال تعلیم میں گذارتا ہے
وہ 3 سال اخبار رسالے اور ناول وغیرہ پڑھنے میں گذارتا ہے
وہ 3 سال ٹیلیوژن اور فلمیں دیکھنے میں گذارتا ہے

اگر یہ شخص پانچ وقت کا نمازی ہو تو مندرجہ بالا مشاغل میں سے وقت نکال کر 5 ماہ نماز پڑھنے میں صرف کرتا ہے یعنی زندگی کا صِرف 168 واں حِصّہ ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اتنا سا وقت نماز پڑھنے میں صرف کرنا بھی ہم پر بھاری ہو جاتا ہے ! ! !

اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

ایک در بند ہوتا ہے تو

جب خوشیوں کا ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو الله سُبحانُهُ و تعالٰی دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے
لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہماری نظریں بند دروازے پہ لگی رہتی ہیں اور ہم دوسرے کھُلنے والے دروازہ کی طرف دیکھتے ہی نہیں

کِشتی

میری آٹھویں جماعت کے زمانہ کی ڈائری سے ۔ 55 سال قبل لکھی ہوئی

کِشتیاں سب کی کِنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جِن کا نہ ہو ۔ اُن کا خُدا ہوتا ہے

میری کِشتی خُدا کے آسرے پہ چھوڑ کے ہٹ جا
میری کِشتی اگر اے ناخدا تکلیف دیتی ہے

پاکستان بلندیوں پر

علالت کے دوران خبر ملی کہ اپنے ملک پاکستان میں ترقی کا معیار سطح سمندر سے 602 فٹ بلند ہو گیا ہے اور اِس پر صرف ساڑھے بائیس کروڑ روپیہ خرچ ہوا ۔ اِس ترقّی پر مُہر ہمارے بادشاہ سلامت نے اپنے دستِ مبارک سے لگائی ۔کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مغل بادشاہ شاہجہاں خوبصورت عمارتیں ہی بناتا رہا اور ملک و قوم کی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہ دی ؟ شاہجہاں کی رعایا تو خوشحال تھی ۔ اُس کے زمانہ میں نہ تو 40 فیصد سے زیادہ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے اور نہ زلزلہ سے 30 لاکھ انسان بے گھر ہوئے تھے ۔

اگر ساڑھے بائیس کروڑ روپیہ صرف کراچی میں پینے کے صاف پانی کے منصوبہ پر خرچ کیا جاتا تو وہاں کے لوگ کئی بیماریوں سے بچ جاتے ۔ اگر کراچی پورٹ ٹرسٹ پر خرچ کیا جاتا تو ادارہ فعال بن جاتا ۔

آئیے سب مل کر اللہ سُبحَانُہُ و تَعَالَی کے حضُور میں التجا کریں کہ ہمارے حکمرانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے کہ وہ عیاشیاں چھوڑ کر اپنی عاقبت سنوارنے کا کچھ سامان کریں ۔

طورخم سے کیماڑی تک

طورخم سے کیماڑی تک تو کیا ۔ ہمارے ملک میں ایک سا رویّہ کِسی ایک شہر میں بھی نہیں رہا ۔ لیکن آجکل ایسا ہے ۔ جی ہاں طورخم سے کیماڑی تک سب کو بِن مانگے مل رہا ہے ۔ فدوی کو بھی ملا ہے ۔ یہ ہے وائرس اِنفیکشن (viral infection) جو پورے پاکستان میں ہر کسی کو بغیر کسی تفریق کے مل رہا ہے ۔15 جنوری کو معمولی زکام ہوا ۔ خیال نہ کیا ۔ 18 جنوری کو قبل دوپہر ہی کمپیوٹر بند کر دیا کہ طبیعت سُست ہو رہی تھی ۔ بس پھر کیا تھا 24 جنوری تک نزلہ ۔ تیز بُخار اور شدید کھانسی میں مبتلا رہے ۔

ہماری باتیں

بھائی محمد عاصم کی تدفین اور دعائے مغفرت کے بعد تقریباً سب شرکاء اُن کے دونوں بیٹوں خُرّم اور عمر کے ساتھ تعزیّت کر کے رخصت ہوئے ۔ میں خُرّم اور عمر کے ساتھ قبرستان سے باہر نکل رہا تھا کہ پندرہ سولہ سال پہلے کا واقعہ یاد آیا ۔ اِسی قبرستان میں کسی کی تدفین کے بعد ہم قبرستان سے باہر نکل رہے تھے تو ایک ساتھی بولے “قبرستان کی حدود میں ہم مؤمن ہوتے ہیں اور باہر نکلتے ہی شیطان ہمارے اندر گھُس جاتا ہے”۔ بات اُنہوں نے صحیح کہی تھی ۔ ہم لوگوں پر کِسی کی وفات کا بس اِتنا ہی اثر ہوتا ہے ۔ ہماری حالت بارش میں بننے والے پانی کے بُلبلے کی سی ہو چکی ہے جو یک دم بنتا ہے اور چند لمحے بعد پھَٹ جاتا ہے ۔گھر میں تعزیّت کے لئے آئے ہوئے حضرات میں ایک صاحب 40 منٹ سے متواتر بولے جا رہے تھے ۔ وہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ اگر کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھایا جاتا تو اُن کے مرض کی تشخیص ہو جاتی اور بروقت علاج ہو جاتا ۔ میں نے اُن سے پُوچھا “جہاں تشخیص کا بہترین بندوبست ہے کیا وہاں سب زندہ رہتے ہیں ؟” اِس سوال پر وہ صاحب خاموش ہوگئے ۔ میں نہیں جانتا امریکی اور یوُرپی کیا کرتے ہیں مگر لبیا میں میں نے دیکھا کہ میّت پر آئے لوگ تلاوت کرتے رہتے ہیں یا خاموش بیٹھے رہتے ہیں ۔

اللہ ہمیں دین کو سمجھنے اور اِس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔