Yearly Archives: 2006

اِسے بھی آزمائیے

مجھے اِس بات پر اِنتہائی تشویش ہے کہ بہت سے ساتھی بلاگ نہیں کھول پا رہے ۔ صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت یا پی ٹی اے کوئی ویب سائٹ خود بلاک نہیں کرتے ۔ اگر کوئی ویب سائٹ بلاک کرنا ہو تو آئی ایس پیز [Internet Service Providers] کو لکھتے ہیں ۔ یہی اس سلسلہ میں بھی ہوا ہو گا کیونکہ سب آئی ایس پیز نے بلاگسپاٹ کو بلاک نہیں کیا ۔ کچھ دن بلاگسپاٹ کے اپنے سسٹم میں خرابی رہی جو 3 مارچ کو ٹھیک ہو گئی تھی ۔ویسے تو میں ایک کھوٹا سکّہ ہوں مگر بزرگ کہتے تھے کہ کھوٹا سکّہ اور بُرا بیٹا بھی وقت پر کام آتا ہے ۔ میری تجویز یہ ہے کہ سب بلاگرز اور قارئین اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ بلاگرز کی خاطر قربان کریں اور میرے بلاگ کے علاوہ جن بلاگرز کے یو آر ایل میں نے کل لکھے تھے اُنہیں کھولنے کی کوشش کریں اور نہ کھُلنے کی صورت میں اپنے اپنے آئی ایس پیز کو قائل کرنے کی کوشش کریں کہ وہ بلاگسپاٹ کو بحال کریں ۔ اگر وہ بحال نہیں کرتے تو اُن کو ای میل یا خط لکھ کر پوچھیں کہ فلاں بلاگز کو کیوں بلاک کیا ہے ؟۔ یہیں بس نہ کر دیجئے بلکہ بحث اور دباؤ جاری رکھیں کہ اِن بلاگز پر کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں لکھی جاتی ۔ ایسے بلاگ کا حوالہ نہ دیجئے گا جس نے کسی وقت توہین آمیز خاکے شائع کئے ہوں یا اُن کی حمائت کی ہو ۔

اگر وہ کہیں کہ حکومت کے حُکم پر بلاگسپاٹ کو بند کیا ہے تو اُن سے اُس چِٹھی کی فوٹو کاپی حاصل کريں ۔ ہو سکتا ہے کہ اُس چِٹھی میں بلاگسپاٹ کا نام نہ ہو ۔ اِس صورت میں آپ اپنے آئی ایس پی کو بلاگسپاٹ کھولنے پر بجا طور سے مجبور کر سکتے ہیں ۔ اگر فوٹو کاپی نہ مل سکے تو چٹھی کا نمبر اور تاریخ حاصل کریں ۔ پھر اُس سرکاری محکمہ کو اِس چِٹھی کا حوالہ دے کر خط لکھیئے اور مندرجہ بالا لائحہءِ عمل اِختیار کیجئے ۔ اِس طرح سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ۔

مزید بلاگ کھولنے کا نتیجہ مجھے بذریعہ ای میل لکھ دیجئے اور ساتھ اپنے شہر اور آئی ایس پی کا نام بھی لکھیئے ۔ شائد اللہ سُبحانُہُ و تَعَالٰی میرے ہاتھوں کوئی کام کرا دے ۔
ajmal_bhopal@hotmail.com

بلاگ سپاٹ امتحان

مُجھے 3 مارچ کو اپنے دونوں بلاگ کھولنے میں دقت ہوئی تھی اُس کے بعد نہیں ہوئی ۔ میں نے آج دوپہر وہ سارے بلاگ سپاٹ کے بلاگ براہِ راست کھولنے شروع کئے جن کے یو آر ایل میرے پاس ہیں ۔ چنانچہ 27 کے 27 بلاگ براہِ راست بغیر کسی دقت کے کھُل گئے ۔ 25 بلاگز پر میں نے اپنا تبصرہ بھی شائع کیا ۔ 2 پر تبصرہ نہ کر سکنے کی وجوہ نیچے درج ہیں ۔ بلاگز کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے ۔

http://iftikharajmal.blogspot.com/
http://urdutechnews.blogspot.com/
http://shakirkablog.blogspot.com/
http://harrisbinkhurram.blogspot.com/
http:// urdudaan.blogspot.com/
http://shuaibday.blogspot.com/
http://khawarking.blogspot.com/
http://wisesabre.blogspot.com/
http://urduonline.blogspot.com/
http://pensive-man.blogspot.com/
http://urdujahan.blogspot.com/
http://fahdoracle.blogspot.com/
http://mirzarehan.blogspot.com/
http://asmamirza.blogspot.com/
http://bayaaz.blogspot.com/
http://fimza.blogspot.com/
http://sairaambreen.blogspot.com/
http://kunwal.blogspot.com/
http://apnadera.blogspot.com/
http://auraq.blogspot.com/
http://nahiadil.blogspot.com/
http://simunaqv.blogspot.com/
http://emullah.blogspot.com/
http://pakjour.blogspot.com/
http://asianose.blogspot.com/
http://yadain.blogspot.com/
http://icheeta.blogspot.com/ ۔ ۔ ۔ بلاگ کھُلا ۔ تبصرہ کی جگہ نہیں ہے

http://urdublog.blogspot.com/ ۔ ۔ ۔  بلاگ کھُلا ۔ تبصرہ کا صفحہ نہیں کھُلا

میری آٹھویں جماعت کی ڈائری کا ایک صفحہ

میں جنوری 1951 ميں آٹھویں جماعت میں تھا ۔ اس وقت کے نقل کئے ہوۓ چند اشعار

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے

تندیءِ باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لئے

جوانی ہی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے

توہین آمیز خاکوں والی ویب سائٹس بلاک کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے توہین آمیزخاکوں کے خلاف دائرآئینی درخواستوں پر وفاقی حکومت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ اگر ان کے دائرہ اختیار میں ہے تو انٹرنیٹ پر موجود توہین آمیزخاکوں والی ویب سائٹس کوبلاک کر دیں۔فاضل عدالت نے اٹارنی جنرل مخدوم علی خان کو ہدایت کی ہے کہ وہ انٹرنیٹ کے قانون کی وضاحت کے لئے فنی ماہرین سے رابطہ کرکے آگاہ کریں کہ سپریم کورٹ کے احکامات کو کس طرح عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ سماعت کے بعد فاضل بنچ نے اٹارنی جنرل چیئرمین پی ٹی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ یہ پوری امت مسلمہ کا معاملہ ہے ان درخواستوں پر کسی بھی قسم کا فنی اعتراض قبول نہیں کیا جائے گا۔ فاضل عدالت میں انٹرنیٹ پر توہین آمیزخاکوں کی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کیلئے ڈاکٹر محمد عمران نے درخواست دائر کی تھی جبکہ دوسرے درخواست گزار مولوی اقبال حیدر کو ہدایت کی ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں توہین آمیز خاکے شائع کرنے والے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کروا سکتے ہیں۔آئینی درخواستوں میں وفاقی حکومت ۔ وزارتِ ٹیلی مواصلات ۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ۔ یاہوُ [یو ایس اے] ۔ آئی اینڈ آئی کو اور متعلقہ ویب سائٹس کو مدعا علیہ بنایا گیا ہے ۔

انتہاء پسند کون ؟

مغربی ملکوں میں آج کی دنیا کے تمام تر بُحرانوں کا ذمہ دار مسلمانوں کی بنیاد پرستی کو ٹھیرایا جا رہا ہے ۔ اِسرائیل کی اِنتہاء پسندی سے قطعِ نظر آجکل نام نہاد سَیکُولرزِم کے بُلند بانگ دعوے کرنے والے بھی تعصُب کی اِنتہا کو پہنچ چکے ہیں ۔ دوسری طرف اگر امریکہ میں عیسائیت کا بغور مطالع کیا جائے تو بنیادپرست عیسائیت ایک طاقتور اِنتہاء پسند تحریک نظر آتی ہے جو دنیا میں امن کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے ۔ پچھلے چند سالوں سے امریکہ بتدریج ایک اِنتہاء پسند عیسائی ریاست بنتا جا رہا ہے اور اب تو امریکہ کے سیاسی معاملات کو بھی عیسائیت کی آنکھ سے دیکھا جانے لگا ہے ۔ اِس ماحول نے بُنیادپرست عیسائیت اور اِنتہاء پسندی کو اُبھارا ہے اور ساری دنیا پر چھا جانے کی تحریک کو جنم دیا ہے ۔ امریکہ میں عیسائی بنیادپرستی اور اِنتہاء پسندی کا اِتنا غلبہ آج سے پہلے کبھی نہ تھا ۔نعیم الحق صاحب نے (انگریزی میں) صورتِ حال کا عمدہ تجزیہ کیا ہے ۔ خلاصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے اور اگر مکمل مضمون پڑھنا چاہیں تو یہاں کلک کیجئے

اِظہار خیال کی آزادی کا بھانڈا پھر پھُوٹ گیا ۔ لندن کے میئر کو سزا ۔

میں نے 11 فروری کو لکھا تھا “ایک برطانوی اخبار کا یہودی رپورٹر لندن کے میئر کے لتے لیتا تھا ۔ میئر نے ایک دفعہ اُسے کنسنٹریشن کیمپ گارڈ [concentration camp guard] کہہ دیا ۔ پھر کیا تھا یہودی برادری نے طوفان کھڑا کر دیا اور میئر کو اپنے الفاظ واپس لینے کو کہا ۔ برطانیہ کے وزیراعظم بھی یہودیوں کے ساتھ شامل ہو گئے اور میئر کو معافی مانگنے کا کہا”ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق لندن کے میئر کن لِوِنگسٹون نے معافی نہیں مانگی تو اُسے 4 ہفتے کے لئے معطل کر دیا گیا ہے ۔ خیال رہے کہ میئر سرکاری ملازم نہیں بلکہ عوام کا منتخب نمائندہ ہوتا ہے ۔ کن لِوِنگسٹون چونکہ کیس ہار گیا ہے اسلئے اُسے اپنے اخراجات بھی دینا پڑیں گے جو تقریباً 80000 پونڈ بنتے ہیں ۔

یہ کاروائی اُسی ٹونی بلیئر صاحب نے کی ہے جو توہین آمیز خاکوں کو جائز حق قرار دے چکے ہیں ۔

ایک شخص کی معمولی دِل آزاری کرنے والے کو اِتنی بڑی سزا اور جس نے ۱یک ارب بیس کروڑ مسلمانوں کے پیغمبر کی بلاوجہ اور ناجائز توہین کی وہ حق پر ہیں ۔ یہی ہیں فرنگیوں کے اسلوب

ہند و پاکستان سے تعلق رکھنے والوں سے اِلتماس

نہ تو کارواں کی تلاش ہے ۔ نہ تو راہگزر کی تلاش ہے
میرے عشقِ خانہ خراب کو اِک نامہ بَر کی تلاش ہےہند و پاکستان بالخصوص ہندوستان سے تعلق رکھنے والے صاحبِ عِلم آگے بڑھیں اور بکھَیر دیں پھُول اپنے عِلم کے اپنی معلومات کے ؟

1 ۔ قدیم زمانہ میں ہندوستان میں تین ایسے حکمران ہوئے جنہیں راجہ بھَوج کہا گیا ۔ اُن میں سے کِسی کا نام بھَوج نہیں تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا راجہ بھَوج رَسُول اللہ صلّی اللہُ علیہِ و اٰلِہِ و سلَّم کی پیدائش سے پہلے ہو گذرا تھا ۔ آخری راجہ بھَوج کا دورِ حکومت گیارہویں صدی عیسوی میں تھا ۔ اِس آخری راجہ بھَوج نے جنوبی ہندوستان کے ایک علاقہ میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے دو پہاڑوں کے درمیان ایک پال [ڈیم] بنوایا ۔ چنانچہ اُس علاقہ کا نام بھَوجپال پڑ گیا جس میں سے ج بعد میں حذف ہو گیا اور وہ علاقہ بھَوپال کے نام سے آج بھی موجود ہے ۔

سوال یہ ہے کہ بھَوج کا مطلب کیا ہے اور اُن تین حکمرانوں کو بھَوج کیوں کہا گیا ؟

2 ۔ موجودہ صورتِ حال مجھے معلوم نہیں ۔ ہند و پاک کی آزادی سے پہلے مَندروں میں بھَوجن دیا جاتا تھا یا بھَوجن بانٹا جاتا تھا ۔ البتہ آجکل بَھوجن عام کھانے کو کہا جا رہا ہے ۔ میری تحقیق کے مطابق بھَوجن اِسم مَفعُول ہے اور اِس کا اِسم فاعل بھَوج ہے ۔

سوال یہ ہے کہ لفظ بھَوجن کا مَنبع کیا ہے اور مَندر میں بانٹے جانے والے کھانے کو بھَوجن کیوں کہا گیا ؟

سب سے اِلتماس ہے کہ اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ لمحات نکال کر اِس حقیقت کو اُجاگر کرنے میں میری مدد فرمائیے ۔ میں آپ کا پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں اور تبصرہ کے بعد پھر آپ کا شکریہ ادا کروں گا ۔