Yearly Archives: 2006

نام کس نے رکھا ؟

آج کے دن 1940 عیسوی میں لاہور میں اُس مقام پر جہاں آجکل مینارِ پاکِستان ہے برِّ صغیر ہندوپاکستان کے مُسلمانوں نے قراردادِ مقاصد منظور کی جو قراردادِ پاکِستان ثابت ہوئی اور 14 اور 15 اگست 1947کی درمیانی شب 11 بج کر 57 منٹ پر پاکِستان بن گیا ۔ الحمدللہ ۔ پاکستان کو سنوارنا ہمارا کام ہے جس میں ہم ابھی تک ناکام ہیں ۔ نئی نسل کو بالخصوص اس کے لئے محنت کرنا چاہیئے ۔ مُسلمانوں نے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت “خلافتِ عُثمانیہ” دین سے دور ہو کر اپنی عیّاشیوں کے باعث ہی کھوئی تھی ۔ اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔دسویں جماعت پاس کرنے تک مجھے یہی معلوم تھا کہ پاکستان کا نام علّامہ اقبال نے تجویز کیا تھا ۔ بعد میں چوہدری رحمت علی کا نام لیا جانے لگا ۔ کالج کے زمانہ میں چوہدری رحمت علی میرے لئے ایک ہیرو تھے کہ انہوں نے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا ۔ چنانچہ مجھے چوہدری رحمت علی کے متعلق پڑھنے کا شوق ہوا جس نے مجھے تحریک پاکستان کی تاریخ کی طرف راغب کیا اور مندرجہ ذیل حقائق اُجاگر ہوئے ۔

تحریک خلافت (1919 ۔ 1924 عیسوی) کے دوران ہندؤں کی عہد شکنی کے باعث مسلمانوں کو اپنی جداگانہ حیثیت کا احساس ہو گیا تھا ۔ نومبر 1930 عیسوی میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس کے صدارتی خطبہ میں علّامہ محمد اقبال نے کہا کہ انڈیا کے اندر مسلم انڈیا کے قیام کا ہر ممکن جواز موجود ہے ۔ میرے نزدیک برٹش امپائر کے اندر یا باہر ایک ایسی خود مختار مربوط مسلم ریاست کی تشکیل کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدّر بن چکی ہے ۔ اس طرح مسلم ریاست کا ایک نامکمل نقشہ تو علّامہ نے پیش کر دیا لیکن اس وقت کوئی نام تجویز نہ ہوا ۔

اس زمانہ میں جو ہندوستانی مسلمان انگلستان میں زیرِ تعلیم تھے وہ اپنے لیڈروں کی ہر بات پر غور و عمل کرتے تھے ۔ ان میں محمد اسلم خٹک ۔ پیر احسن الدین ۔ چوہدری رحمت علی ۔ خواجہ عبدالرحیم اور محمد جہانگیر خان معروف ہیں ۔ محمد جہانگیر خان اس اِنڈین کرکٹ ٹیم کے رُکن تھے جس نے 1932 عیسوی میں انگلستان کا دورہ کیا تھا اور تعلیم کی خاطر وہ وہیں رُک گئے تھے ۔ اِن لوگوں کی جد و جہد کے عینی شاہد میاں عبدالحق تھے جنہوں نے اس زمانہ میں انگلستان کا دورہ کیا تھا ۔ ان کے جون 1970 عیسوی میں ندائے ملت لاہور میں چھپنے والے ایک مضمون سے اقتباس ۔

1932 کی ایک شام چوہدری رحمت علی ۔ پیر احسن الدین اور خواجہ عبدالرحیم دریائے ٹیمز کے کنارے سیر کر ہے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کی بات چل نکلی ۔ خواجہ عبدالرحیم نے تجویز پیش کی کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا جائے جس میں پنجاب سندھ سرحد بلوچستان اور کشمیر شامل ہوں اور اس کا نام پاکستان رکھا جائے ۔ وجہ تسمیہ یہ بتائی کہ پے پنجاب سے الف افغانیہ [صوبہ سرحد] سے کاف جموں کشمیر سے سین سندھ سے اور تان بلوچستان سے ۔ اس تجویز پر تبادلہ خیال ہوا اور طے پایا کہ یہ تجویز علامہ محمد اقبال جو ان دنوں لندن گئے ہوئے تھے کی خدمت میں پیش کی جائے ۔ اس سے چوہدری رحمت علی سمیت کیمبرج میں زیر تعلیم سب ہندوستانی مسلمانوں نے اِتفاق کیا تھا ۔ بعد میں کیمبرج کے ہندوسانی مسلمان طلباء نے اب یا کبھی نہیں کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا جس میں ہندوستان میں الگ مسلمان ملک کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا اور اس کا نام پاکستان بھی تجویز کیا گیا تھا ۔ اس کتابچے کی تالیف چوہدری رحمت علی سے کروائی گئی ۔ اس کتابچے پر دستخط کرنے والوں میں محمد اسلم خٹک ۔ چوہدری رحمت علی ۔ عنائت اللہ خان اور محمد صادق مانگرول شامل ہیں ۔ خواجہ عبدالرحیم چونکہ ہندوستان کی انگریزی حکومت کے ملازم تھے اسلئے اپنی ہی تجویز پر انہوں نے دستخط نہ کئے ۔”

بعد میں چوہدری رحمت علی نے اپنے طور پر برصغیر میں آٹھ دس ریاستیں ان ناموں سے تجویز کیں ۔ صدیقستان ۔ فاروقستان ۔ عثمانستان ۔ سیفستان ۔ ناصرستان ۔ موپستان ۔ راجستھان ۔ بنگستان ۔

محمد اسلم خٹک نے 21 دسمبر 1987 کو ایوانِ وقت راولپنڈی میں بتایا تھا کہ آکسفورڈ میں خیبر یونین آف سٹوڈنٹس کے ایک اِجلاس میں انہوں نے صدارت کی تھی جس میں انہوں نے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا اور یہ کہ اس اِجلاس میں چوہدری رحمت علی اور خواجہ عبدالرحیم بھی موجود تھے ۔

ڈاکٹر محمد جہانگیر خان ایم اے پی ایچ ڈی (کینٹ) بار ایٹ لاء ۔ ساکن ۔ 6 ۔ کنال بنک ۔ زمان پارک ۔ لاہور کے 25 اکتوبر 1983 کے تحریر کردہ حلف نامہ کے مطابق “محمد جہانگیر خان 1932 میں آل انڈیا کرکٹ ٹیم کے رکن کی حیثیت سے انگلستان گئے اور یونیورسٹی آف کیمبرج میں داخلہ لے کر وہیں رک گئے ۔ ان کی رہائش چوہدری رحمت علی کی رہائش گاہ سے صرف ایک سو گز کے فاصلہ پر تھی ۔ انہی دنوں لندن میں دوسری گول میز کانفرنس ہوئی جس میں مسلمانوں کی نمائندگی علامہ محمد اقبال نے کی ۔ لندن میں قیام کے دوران علامہ بیمار پڑ گئے ۔ چوہدری رحمت علی ۔ خواجہ عبدالرحیم اور محمد جہانگیر خان ان کی عیادت کے لئے لندن گئے ۔ وہاں چوہدری رحمت علی نے خواجہ عبدالرحیم کی طرف اشارہ کر کے علامہ اقبال سے کہا کہ پاکستان کا لفظ اس نے تخلیق کیا تھا اور اس کے اجزاء کی ترکیب بھی بتائی ۔ چوہدری رحمت علی نے علامہ سے استفسار کیا کہ کیا وہ بہتر نام تجویز کر سکتے ہیں ؟ علامہ نے کہا کہ اس کے اجزاء کی ترکیب ایک کاغذ پر لکھ کر سامنے دیوار پر لٹکا دیں میں کل آپ کو بتاؤں گا ۔ دوسرے دن پھر تینوں لندن علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو علامہ نے فرمایا کہ اس سے بہتر نام ان کے ذہن میں نہیں آیا اس لئے اسی کو رکھا جائے اور اس کے قائم ہونے کی دعا بھی کی” ۔

چنانچہ چوہدری رحمت علی کو نام تجویز کرنے والوں میں شامل تو کہا جا سکتا ہے لیکن ان کو نام کا خالق نہیں کہا جا سکتا ۔ چنانچہ نام کے خالق خواجہ عبدالرحیم ہی ثابت ہوتے ہیں ۔ ایک اور بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جموں کشمیر کے بغیر نام کے لحاظ سے بھی پاکستان ابھی نامکمل ہے ۔

بالکل تازہ خبر

پاکستان نے آج صبح پانچ سو کلومیٹر تک مار کرنے والے کروز میزائل کا دوسرا تجربہ کیا ہے جسے حتف سات ’بابر‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ تجربہ نہایت کامیاب رہا ۔ یہ میزائل ہر طرح کے جوہری اور روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ کروز میزائل نیچی پرواز کرنے والے گائیڈڈ میزائل ہوتے ہیں ۔ حکام کا کہنا ہے کہ بابر میزائل کی نشاندہی کسی بھی ریڈار سسٹم یا دفاعی سسٹم پر نہیں ہو سکتی ۔ یہ میزائل جنگی کشتی، آبدوز اور ہوائی جہاز کے ذریعے پھینکا جا سکتا ہے۔ یہ ہمارے دیسی سائنسدانوں اور انجینئیروں کی کاوش کا نتیجہ ہے اور مکمل طور پر پاکستان میں تیار کیا گیا ہے

شبّیر صاحب کا “اسلام اور رسمیں” پر تبصرہ

افتخار اجمل ۔ ۔ ۔ اسلام اور رسمیں کے عنوان سے شبّیر صاحب [شیپر] نے میری 15 مارچ کی تحریر پر تبصرہ کیا ہے ۔ میں اُن کا شکرگذار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے اُن نقاط کی وضاحت کا موقع فراہم کیا جو تحریر کی طوالت کے ڈر سے مجھ سے تشنہ رہ گئے تھے ۔ خیال ہے کہ اگر میری مندرجہ ذیل تواریخ کی تحاریر شبّیر طاحب کی نظر سے گذری ہوتیں تو شائد میری 15 مارچ کی تحریر پراگندہ اثر نہ چھوڑتی ۔ اگر آپ بلاگ سپاٹ براہِ راست نہیں کھول سکتے تب بھی ِاس تحریر کے لِنک کلِک کرنے سے کھُل جائیں گے
مؤرخہ 8 اگست 2005
مؤرخہ 11 اگست 2005
مؤرخہ 16اگست 2005
مؤرخہ 28 اگست 2005
مؤرخہ 25 ستمبر 2005
مؤرخہ 7 اکتوبر 2005
مؤرخہ 9 مارچ 2006

سب سے پہلے میں واضح کر دوں کہ میں نے کہیں یہ تاءثر دینے کی کوشش نہیں کی کہ سب ایسا کرتے ہیں ۔ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اکثریت ایسا نہیں کرتی ۔شبّیر صاحب کا یہ مفروضہ غالباً حالات سے صحیح واقفیت نہ ہونے کے باعث قائم ہوا ہے کہ پورا پاکستان میلاد النّبی کاجلوس یا محفلِ میلاد کرتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے ۔ جلوس میں زیادہ تر نوجوان اور وہ حضرات شرکت کرتے ہیں جو دین سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے ۔ ان نوجوانوں کو جوں جوں دینی علم حاصل ہوتا ہے وہ پیچھے ہٹتے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ حُبِ رسول اللہ صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم میں محبوب کے معبُود کے احکام اور محبوب کے قول و فعل کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی کے رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کے اسواءِ حسنہ اور اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی اور اُسکے رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی شان بیان کرنا نہ صرف مُستحب بلکہ عبادت ہے ۔ پھر کیوں نہیں ہم اِس فعل کےلئے ہر ماہ یا ہر ہفتے مجالس کرتے جس سے میرے جیسے کم عِلم لوگوں کو دین سے آگاہی حاصل ہو ۔ بجائے اسکے کہ ہم رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کے پاک نام سے منسوب کر کے ایسی محفلیں لگائیں جن میں ہم اُنہی کی تعلیمات کے خلاف کام کریں

محفلِ میلاد شائد کسی زمانہ میں عام لوگوں تک رسُول اللہ صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی حیاتِ مبارکہ کے متعلق آگاہی کے لئے شروع کی گئی ہوگی مگر ہمارے انحطاط کے ساتھ ساتھ وہ ایک رواج اور فیشن زیادہ اور حیاتِ طیّبہ کا سبق بہت کم رہ گئی ۔ اب ان محفلوں میں وہ چیزیں ہوتی ہیں جو اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی اور اُس کے رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی ہدایات کی خلاف ورزئی کے ذُمرے میں آتی ہیں ۔
واللہ اعلم بالصّواب ۔

جہاں تک فرقہ واریت کا تعلق ہے وہ کم عِلم مُلّاؤں [سب مُلّا نہیں] اور رسم پرستوں کی مہربانیوں کا نتیجہ ہیں اور اُن لوگوں کی پیداوار ہے جنہوں نے قرآن شریف اور احادیث مبارکہ پر عمل کئے بغیر جنّت میں جانے کے [غللط] شارٹ کَٹ وُضح کر لئے ہیں ۔

شبّیر صاحب نے پوچھا ہے “کیا مُردوں پر فاتحہ پڑھنا اور ان کی نذر دلوانہ بھی غیر اسلامی ہیں ؟”

” اُن کی نذر دِلوانہ” وضاحت طلب ہے ۔ میں عالمِ دین نہیں ہوں بہرحال میں نے جو پڑھا ہے اُس کے مطابق مرجانے والوں کےلئے دعائے مغفرت کرنا [جسے عام طور پر فاتحہ کہا جاتا ہے] یا اللہ کے نام پر خیرات کرنا ایک اچھا عمل ہے اور ایسا بلا قیدِ تاریخ یا دِن کرتے رہنا چاہیئے ۔ یہ عمل کسی کی صحتیابی یا کامیابی یا ویسے ہی کسی مسلمان [خاص کر اپنے رشتہ دار یا دوست ] کےلئےکیا جائے تو بھی ٹھیک ہے ۔ اگر کھانا پکا کر یا کھانے کی کوئی چییز محلہ داروں ۔ رشتہ داروں اور غریبوں میں بانٹ دی جائے تو اُس میں بھی کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ کوئی تخصیص نہ کی جائے ۔گڑبڑ اُس وقت ہوتی ہے جب اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی کے نام کی بجائے خیرات [یا نذر نیاز} کو کسی اور زندہ یا مردہ کے نام کر سے منسوب کیا جائے ۔

محسوس ہوتا ہے کہ شبّیر صاحب کو پاکستان سے گئے کافی عرصہ ہو گیا ہے ۔ ہمارے مُلک میں نقّالی اِتنی بڑھ چکی ہے کہ قرضہ اُٹھانا منظور ہے مگر بلند معیار کے اِظہار کے لئے شادی کا بندوبست 4 یا 5 سٹار ہوٹل میں ۔ ویسے میں نے 4 یا 5 سٹار ہوٹل اصطلاحی طور پر لکھا تھا ۔ لوگ ویڈنگ ہال میں یا گھر پر بھی شادی کا بندوبست کرتے ہیں ۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ کرتے کیا ہیں ۔ اِس سلسلہ میں شبّیر صاحب نے میرے بڑے بیٹے زکَرِیّا کی تحریر کا حوالہ دیا ہے لیکن شائد اُن کی نظر اِس حصّہ پر نہیں پڑی ۔” ایک فاسٹ فوڈ ریستوران میں گیا تو دو لوگوں کو دیکھ کر کچھ حیرت ہوئی۔ ایک تو کوئی میری عمر کا جوڑا تھا۔ لباس وغیرہ سے کچھ غریب لگتا تھا۔ خاتون نے چادر لی ہوئی تھی اور اسی کو نقاب کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔ وہ مزے سے ریستوران میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور گپیں ہانک رہے تھے۔ آج سے کچھ سال پہلے تک اس ریستوران میں شاید ایسے لوگ نظر نہ آتے۔ دوسرے دو سکول کے لڑکے تھے۔ انہوں نے جیسے بستے لٹکائے تھے اور جیسا لباس پہن رکھا تھا بالکل ایسا لگتا تھا کہ امریکہ میں اندرون شہر سے ہیں۔ یہ شاید rap کا اثر تھا ”

شبّیر صاحب اور دیگر سب قارئین کی خدمت میں التماس ہے کہ ” زَکَرِیّا ” صحیح ہے ۔ یہ نام قرآن شریف میں موجود ہے ۔ ” ذکریا اور ذکریہ” غَلَط ہیں ۔

عقلمند یا بیوقوف ؟

عقلمند دُوسروں کی غَلَطِیوں سے سِیکھتا ہےعام آدمی اپنی غَلَطِیوں سے سِیکھتا ہے بیوقوف اپنی غَلَطِی سے بھی کوئی سبق نہیں لیتا بہتر ہے کہ دُوسروں کی غَلَطِیوں سے سبق حاصل کریں کیونکہ اپنی غَلَطِیوں سے سِیکھنے کے لئے بہت لمبی عمر چاہیئے ۔

غیراِسلامی رسم کی زندہ مِثال

میں نے 15 مارچ کو مُسلمانوں کے غیر اِسلامی رسومات اپنانے کے متعلق لکھا تھا ۔ حُسنِ اِتفاق کہ خاور صاحب نے اِسی سلسلہ کی ایک حالیہ تصویر اپنے بلاگ پر شائع کر دی ۔ وہ تصویر نقل کر دی ہے ۔ غور کیجئے کہ ایک معروف پاکستانی خاتون جو بطور اِسلامی مضامین لکھنے والی مشہور ہیں کیا رسم ادا کر رہی ہیں ۔ 

اسلام اور رسمیں

ہم نے بہت سے رَسَم و رواج کو اپنا کر اُن میں سے بہت سے اِسلامی سمجھ لئے ہوئے ہیں ۔ اِن رَسَم و رواج کو ہم اللہ اور اس کے آخری نبی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں حالانکہ اِسلام [قرآن] رَسَم و رواج کی مخالفت کرتا ہے اور اِنسان کو صِرف اللہ اور اُس کے آخری نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے ۔ جوں جوں سائنس ترقی کرتی جارہی ہے ہماری رسُوم بھی ترقی کر رہی ہیں ۔ عرس ۔ چراغاں ۔ محفلِ میلاد ۔ کُونڈے بھرنا ۔ گیارہویں کا ختم ۔ میلادُالنّبی کا جلُوس ۔ مُحَرّم کا جلُوس ۔ شامِ غریباں ۔ قَبَروں پر چادریں چڑھانا ۔ انسانوں [پیروں] اور قبروں سے مرادیں مانگنا ۔ قبروں پر ناچنا [دھمال ڈالنا] ۔ قصِیدہ گوئی وغیرہ وغیرہ ۔ لمبی فہرست ہے ۔دس بارہ سال پہلے شادی سے پہلے قرآن خوانی کا رواج شروع ہوا ۔ ہمارے محلہ میں ایک لڑکی کی شادی ہونا تھی ۔ میری بیوی کو پیغام آیا کہ مہندی والے دِن قرآن خوانی اور درس ہوگا ۔ وہ خوش ہوئی کہ خرافات چھوڑ کر قرآن کی تلاوت کریں گے ۔ وہاں سے بیوی واپس آئی تو چہرہ سُرخ منہ پھُلایا ہوا ۔ پوچھا کیا ہوا ؟ کہنے لگی ” قرآن شریف ابھی بمشکل پڑھا کہ بلند آواز سے پاپ موسیقی شروع ہوگئی ۔ میں وہاں سے بھاگ آئی ہوں ۔ کھانے پینے کے لئے روک رہے تھے میں معذرت کر کے آگئی” ۔ شائد اِسی کو روشن خیالی کہتے ہیں ؟

پچھلے سال سے مَسجِد میں نِکاح پڑھانے کا فیشن شروع ہے ۔ مسجد میں نِکاح پڑھانا اچھی بات ہے لیکن ہوتا کیا ہے کہ پہلے دُولہا اور چند لوگ نماز مَسجِد میں پڑھتے ہیں ۔ نماز کے بعد نکاح پڑھایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد سب گھروں کو جا کے تیار ہو کر فور یا فائیو سٹار ہوٹل کا رُخ کرتے ہیں جہاں کھانے کے بعد ناچ گانے سمیت دنیا کی ہر خرافات ہوتی ہے ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم دھوکہ کس کو دیتے ہیں ؟

بھارتی فلمیں دیکھ دیکھ کر اُن میں دِکھائی گئی بہت سی ہِندُوانا رَسمیں بھی اپنا لی گئی ہیں ۔ مہندی کے نام سے دُولہا دُلہن کو اکٹھے بٹھا کر اُن کے سرّوں پر سے پیسے وارنا ۔ شادی شُدہ خوش باش عورتوں کا اُن کے سروں پر ہاتھ پھیرنا یا اُن کے گِرد طواف کرنا اور اُن کے اُوپر کچّے چاول پھینکنا ۔ [اب شائد کپڑوں کو گرہ لگا کر آگ کے گرد پھیرے لگانا اپنانا باقی رہ گیا ہے ] ۔ ایک نیک خاندان کی لڑکی کی منگنی اس لئے ٹوٹ گئی کہ ہونے والے دولہا کی والدہ شادی سے ایک دن پہلے مہندی کی رَسَم کرنا چاہتی تھیں جس میں وہ چار سوہاگنوں کی رَسَم بھی کرنا چاہتی تھیں ۔ لڑکی کی والدہ نے تَفصِیل پوچھی تو پتہ چلا کہ اس میں لڑکا اور لڑکی ساتھ ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور چار شادی شدہ عورتیں جن کے خاوند زندہ ہوتے ہیں اور وہ خوش باش ہوتی ہیں لڑکی لڑکے کے گرد طواف کرتی جاتی ہیں اور لڑکی لڑکے پر کچْے چاول پھینکتی جاتی ہیں ۔ لڑکی کے گھر والے غیر شرعی رسُوم کے مخالف تھے اس لئے منگنی ٹوٹ گئی ۔

ہم میں سے جو نماز پڑھتے ہیں وہ صرف فرض یا واجب رکعتوں میں ایک دن میں بیس مرتبہ اِھدِنَا صِرَاطَ المُستَقِیم کہتے ہیں جس کا مطلب ہے دِکھا ہم کو راہ سیدھی ۔ [اگر سُنتیں اور نفل بھی شامل کر لئے جائیں تو پانچ نمازوں میں 48 بار کہتے ہیں] ۔
کبھی ہم نے سو چا ہے کہ ہم مانگتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں ؟

اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

مگر ۔ ۔ ۔

تَبدِیلی کو کُھلے بَندھوں خُوش آمدَید کہیئے مگر
اپنی اِقدار کی قَبَر پر نہیںجِئیں عُمدہ اور باعِزت زِندگی تاکہ
بُڑھاپے میں ماضی پَر نَظَر ڈالیں تو دُوسری بار لُطف اَندوز ہوں

کُچھ کھَو جائے تو ۔ ۔ ۔
اِس سے حاصل کردہ سبق نہ کھوئیے

 

دین اسلام اور ہمارے اطوار

دین کا مطلب ہے مسلک یعنی راستہ ۔ طریقہ ۔ دستور یا آئین ۔ دین اسلام زندگی گذارنے کا ایک مکمل راستہ ۔ طریقہ ۔ دستور یا آئین ہے ۔ قرآن اور حدیث میں ہر کام کے بنیادی اصول موجود ہیں ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہمارا ہر فعل (گھر یا بازار یا دفتر یا مسجد یا سفر میں کوئی جگہ بھی ہو) دین کے مطابق ہونا چاہیئے مگر ہم لوگوں نے سب کے الگ الگ طریقے اور راستے خود سے بنا لئے ہیں ۔ پھر جب ہمیں ناکامی ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری دین پر ڈال دیتے ہیں ۔

قرآن شریف کا ادب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھیں اور اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن ہم لوگ قرآن شریف کا ادب اس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں ۔ کیا قرآن شریف یا حدیث میں اس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟ ادب تو ہمیں تمام نافع علوم کا کرنا چاہیئے اور ایسی کتابوں کو سنبھال کر رکھنا چاہیئے نمائش کے لئے نہیں علم سیکھنے کے لئے ۔ میں نے تو ساری عمر تاریخ جغرافیہ سائنس ریاضی کی کتابوں کا بھی احترام کیا ۔

ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو دین پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں ؟ ہم لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصول خود سے وضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں ۔ کتنی خام خیالی ہے یہ !

* ہم کلمہ پڑھتے ہیں “اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے پیامبر ہیں” لیکن اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا پسند نہیں کرتے
* ہم اللہ کی بجائے اللہ کے بنائے ہوئے فانی انسانوں سے ڈرتے ہیں
* ہم دعویٰ تو کرتے ہیں کہ مُسلم بُت شکن ہیں مگر اپنے گھروں میں مُورتیوں سے سجاوٹ کرتے ہیں
* ننانوے نام تو ہم اللہ کی صِفات کے گِنتے ہیں لیکن اپنی حاجات حاصل کرنے فانی انسانوں اور مُردوں کے پاس جاتے ہیں
* کچھ ایسے بھی ہیں جو 1400 سال سے زائد پرانے دین کو آج کی ترقّی یافتہ دنیا میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں ۔

ہماری بے عملی کا نتیجہ ہے کہ آج غیر مُسلم نہ صرف مسلمانوں کو پاؤں نیچے روند رہے ہیں بلکہ کھُلم کھُلا توہینِ رسالت کرنے لگے ہیں فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو (جو قابلِ تغیّر ہیں) رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے دین کو رَد کرنے کے لئے ہمیں اِتنی عُجلت ہوتی ہے کہ اسے سمجھنے کی کوشش تو کُجا ۔ صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں ۔

میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر عربی نہ بھی آتی ہو پھر بھی قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں بھی تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن کیا قرآن شریف صرف پڑھنے کے لئے ہے عمل کرنے کے لئے نہیں ؟

جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فرفر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا ۔

اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

اِس سِلسہ ميں جہانزیب اشرف صاحب اور خاور صاحب کی 21 فروری کی تحریریں پڑھنے کے لائق ہیں