Yearly Archives: 2006

اتنا ارزاں تو نہ تھا مُسلماں کا لہو

جموں کشمير اور فلسطين ۔ پھر شيشان ۔ افغانستان اور عراق اور اب لبنان ۔  ہر جگہ مُسلمان کا خُون بے دريغ بہايا جا رہا ہے ۔ مگر چاروں طرف ہُو کا عالم ہے ۔ کوئی نہيں جو چِلّائے کہ بس کرو يہ ظُلم ۔ ۔ ۔ مانا کہ آج کے مُسلمان کا دُنيا کی مُحبت ميں پڑنے سے ايمان کمزور ہو گيا ليکن کيا مُسلمانوں کا خُون سفيد ہو چکا ہے ؟   

چند سال قبل اسلام آباد کی ايک ناجائز کچی آبادی کے قريب ايک ديوار طوفان سے گِر گئی اور ايک عيسائی بچہ اس کے نيچے آ کر مر گيا تو  واشنگٹن کے در و ديوار ہِل گئے تھے اور اسلام آباد ميں ہاٹ لائين ٹيليفون کی گھنٹی بجنے لگی تھی ۔ پھر کيا تھا اسلام آباد کے بادشاہ کے حُکم پر وہاں ری اِنفورسڈ کنکريٹ کی ديوار بن گئی اور سرکاری زمين پر بنی ہوئی ناجائز بستی کو بھی جائز قرار دے ديا گيا ۔  

کيا ہزاروں بلکہ لاکھوں بے گناہ مُسلمان جن ميں ہزاروں معصوم بچے بھی شامل ہيں ايک عيسائی بچے کے برابر بھی نہيں کہ اُن کا بے جواز قتلِ عام کيا جائے اور اسلام آباد کے بادشاہوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہو ؟  کيا دنيا کے حُکمرانوں ميں سوائے دو تين کے ايک بھی مُسلمان نہيں ؟  اور کيا سوائے اُن چند ہزار کے جو اپنی جان ہتھيلی پر رکھ کر ظالم قاتلوں سے برسرِپيکار ہيں دُنيا کے ايک ارب مُسلمانوں ميں ايمان کی اتنی رمق بھی باقی نہيں رہی کہ اور کچھ نہيں تو وہ سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر ہی نکل آئيں ؟ 

ليکن کيسے ؟ اللہ تو اُنہيں نظر نہيں آتا مگر بُش کو تو وہ روزانہ ٹی وی پر ديکھتے ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مُسلمان اس لئے کہتے ہيں کہ مُسلمان گھرانے ميں پيدا ہوئے ورنہ اُن کے رول ماڈل اللہ کے رسُول حضرت محمد صلَّی اللہ علَيہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلَّم اور اُن کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہيں بُش اور اُس کے چيلے ہيں ۔

    *

میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

Hypocrisy Thy Name – –  http://iabhopal.wordpress.com یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔

صلاحِ عام

ميں نے ايک لائحہ عمل بنا رکھا ہے جس پر عمل کرنے کی ميں پوری کوشش کرتا ہوں ۔ سوچا کہ اِسے قارئين کی نذر کيا جائے کہ شائد کوئی مہربان اسے بہتر بنانے کيلئے اپنی عُمدہ تجويز سے مُجھے نوازيں ۔ يہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ميں سے کوئی عمل کسی قاری کو پسند آجائے اور وہ اُسے اپنا کر ميرے حق ميں دعائے خير کريں ۔

  بولنے اور لکھنے ميں ہميشہ شُستہ زبان استعمال کی جائے ۔ اس سے سُننے والے والے پر اچھا اثر پڑتا ہے  

کسی فرد کی ذاتی خامياں سب کے سامنے بيان نہ کی جائيں ۔ ايسا کرنے سے اشتعال پيدا ہوتا ہے ۔ ويسے بھی کسی کی ذاتی خامياں سرِعام بيان کرنا مہذّب انسان کو زيب نہيں ديتا    

کسی گروہ يا جماعت کے غلط اقدامات اُجا گر کرتے ہوئے ذاتيات کو بيچ ميں نہ آنے ديا جائے  ۔ کيونکہ اس سے بات کرنے يا لکھنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے

  اشتعال انگيزی کے جواب ميں صبر سے کام ليا جا ئے ۔ ايسا رويّہ اشتعال انگيزی کرنے والے کو اپنے رويّے پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے

  کسی فرد کے بد زبانی کرنے پر خاموشی اختيار کی جائے ليکن اگر جواب دينا ضروری ہو تو تحمل اور شائستگی کے ساتھ جواب ديا جائے ۔ ايسا کرنا بد زبانی کرنے والے ميں بات سُننے کا رُحجان پيدا کرتا ہے

 *

میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

Hypocrisy Thy Name – – http://iabhopal.wordpress.com یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔

القاب و خطابات

جب ميں ليبيا کی حکومت کا الخبير لِلمصانع الحربی (Adviser Defence Industry) تھا (مئی 1976ء تا فروری 1983ء) تو ايک بہت بڑے ادارے کے نائب رئيس (Vice Chairman) عبدالرحمٰن براملی ايک دن ميرے پاس آکر کہنے لگے ” آپ نے کبھی پوچھا نہيں کہ براملی کا کيا مطلب ہے ؟” سو ميں نے پوچھا تو کہنے لگے ” برمِيل (Barrel / Drum) کا ترجمہ ہے اور برامِل اس کی جمع ہے ۔ ميرے بزرگ برامِل بنايا کرتے تھے ۔ اُس زمانہ ميں برامِل لکڑی سے بنتے تھے چنانچہ ميرے آباؤاجداد بڑھئی يا ترکھان تھے” گويا ايم ايس سی انجنيئرنگ اور اعلٰی عہدے پر فائز شخص اپنے آباؤاجداد کے بڑھئی يعنی ہُنرمند ہونے پر فخر کر رہا تھا

ہمارے مُلک ميں بہت سے القاب و خطابات رائج ہيں
سردار ۔ خان ۔ نواب ۔ نوابزادہ ۔ ملک ۔ پير ۔ پيرزادہ ۔ رئيس ۔ صاحبزادہ وغيرہ
کُمہار ۔ دھوبی ۔ درزی ۔ لوہار ۔ تيلی ۔ ميراثی وغيرہ

اوْلالذکر اعلٰی سمجھے جاتے ہيں اور ان پر فخر و تکبّر کيا جاتا ہے اور يہ القاب و خطابات قابض برطانوی حُکمرانوں نے زيادہ تر اُن لوگوں کو ديئے جنہوں نے قابض برطانوی حُکمرانوں کی خوشنوُدی حاصل کرنے کيلئے اپنے ہموطنوں کے خلاف کام کيا ۔ جبکہ آخر الذکر گھٹيا سمجھے جاتے ہيں ۔ اس رویّئے کو بھی برطانيہ کی غلامی کے دور ميں ہندوستان میں بسنے والے ہُنرمندوں کی تحقیر کیلئے رائج کیا گیا ۔ آج اِن لوگوں کو کمتر سمجھنے والوں کو فائيو سٹار ہوٹلوں ميں انسانيت کا پرچار کرتے شرم نہيں آتی

يہ نام نہاد اعلٰی اور گھٹيا القابات و خطابات انگريزوں نے ہندوستانی مُسلمانوں ميں تفرقہ ڈال کر ہندوستان پر اپنی حکومت مضبوط کرنے کيلئے باقائدہ طور پر رائج کئے تھے جن سے ہماری قوم اب تک چِمٹی ہوئی ہے ۔ لوگ اِن القابات و خطابات کے معاشرہ پر بلکہ اپنی عاقبت پر مُضر اثرات سے بے خبر اِن کا اِستعمال کرتے ہيں ۔ نمعلوم کيوں لوگ بھول جاتے ہيں کہ سب انسان برابر ہيں اور اُن کی اچھائی اُن کے نيک اعمال ہیں نہ کہ پيشہ يا دولت يا بڑے باپ کی اولاد ہونا ۔ کتنے ہی انقلاب آئے مگر کسی کو سمجھ نہ آئی

پيرس فرانس ميں رہنے والے خاور صاحب آئے دن ہميں ياد کراتے رہتے ہيں کہ وہ کميار ہيں (پنجابی ميں کُمہار کو کميار کہتے ہيں) ۔ ميں جب آٹھ نو سال کا تھا تو شہر کے کنارے ايک کُمہار صاحب کے پاس بيٹھ کر ديکھتا رہتا کہ وہ برتن کيسے بناتے ہيں ۔ ايک دن کُمہار صاحب نے مجھے پوچھا “برتن بناؤ گے ؟“ ميں تو کھِل گيا ۔ کُمہار صاحب نے تھوڑی سی مٹی چکّے پر لگائی اور ميرا ہاتھ پکڑ کر اُس سے لگايا اور اُوپر نيچے کيا تو چھوٹا سا گُلدان بن گيا

مجھے ہُنر سیکھنے کا بچپن سے ہی شوق رہا ۔ چنانچہ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو میں نے بڑھئی کا کام سیکھ کر ایک لکڑی کی مسجد بنائی ۔ لوہار کا کام سیکھ کر ایک چھینی (Chisel) بنائی ۔ جب میں اسسٹنٹنٹ ورکس منیجر تھا (1963ء) تو میں نے گیس ویلڈنگ سیکھی ۔ میں نے درزی کا کام سیکھ کر اپنی قمیض اور شلوار سی ۔ میں نے کار کی ڈینٹنگ 1977ء میں سیکھی اور ایک دوست کی کار کی ڈینٹنگ کی ۔ موٹر مکینک کا کام میں نے 1983ء میں سیکھا جب میں جنرل منیجر تھا

پنجابی کا کميار يا اُردو کا کُمہارجو کوئی بھی ہے ایک ایسا ہُنرمند اور کاريگر ہے جس نے انسان کو مہذب بنايا ۔ اگر کميار يا کُمہار برتن نہ بناتا تو انسان آج بھی جانوروں کی طرح کھانا کھا رہا ہوتا ۔ اِسی طرح بڑھئی ۔ لوہار ۔ درزی ۔ تيلی وغيرہ سب ہُنرمند اور کاريگر ہيں ۔ اگر یہ نہ ہوتے تو انسان آج تک قدرتی غاروں میں یا درختوں پر رہ رہا ہوتا ۔ ننگ دھڑنگ پھر رہا ہوتا اور گھاس یا پتے کھا کر گذارہ کر رہاہوتا
بدقسمت ہيں وہ لوگ جو جھوٹی شان دِکھانے کے لئے اِن ہُنرمندوں کو اپنے سے کمتر سجھتے ہيں

>میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
  Hypocrisy Thy Name – http://iabhopal.wordpress.com – یہ منافقت نہیں ہے کیا

آپ کی فرمائش

You asked for it
کا بامحاورہ ترجمہ ہے ” آ بَيل مُجھے مار” ليکن ميں اس کا لفظی ترجمہ کرتا ہوں “آپ کی فرمائش”۔

داؤدی صاحب کی کاوش قابلِ تعريف ہے کہ اُنہوں نے مرزا غلام احمد قاديانی کے پيروکار ہونے کا حق ادا کيا ۔ حقيقت يہ ہے کہ آج تک احمديہ کميونِٹی اپنے دعوے منطقی طور پر ثابت نہيں کرسکی بلکہ صرف لفظی ہيراپھيری کا سہارہ ليا جاتا ہے ۔ بہر حال ميں اس بحث ميں اُلجھنے کی بجائے کچھ ايسے حقائق منظر پر لانا چاہتا ہوں جو عام لوگوں کے علم ميں نہيں ۔

احمديہ کميونٹی کے لوگ سيّدنا آدم عليہ السّلام کو پہلا نبی مانتے ہيں ليکن پہلا انسان نہيں مانتے ۔ اُن کے مطابق اگر پہلے انسان موجود نہ تھے تو سيّدنا آدم عليہ السّلام نبی کس لئے بنائے گئے ۔

پاکستان بننے سے پہلے احمديہ کميونِٹی نے اپنے پيشوا کی ہدائت پر حکومتِ برطانيہ کو ہزاروں دستخطوں کے ساتھ ياد داشت  پيش کی جس ميں بتايا گيا کہ احمدیہ کميونِٹی اُن لوگوں ميں سے نہيں جن کے ليڈر محمد علی جناح ہيں اور حکومتِ برطانيہ کيلئے احمديہ کميونِٹی کی خدمات کا خاکہ پيش کر کے مطالبہ کيا گيا کہ اِن خدمات کے صِلہ ميں قاديان احمديہ کميونِٹی کے حوالے کيا جائے ۔ اُدھر ہندو ليڈر لارڈ مؤنٹ بيٹن پر زور ڈال رہے تھے ۔ نتيجہ يہ ہوا کہ صرف قاديان نہيں بلکہ گورداسپور جو مُسلم اکثريت والا ضلع تھا کو بھارت ميں شامل کر ديا گيا اور بھارت نے اس کے راستے اپنی فوجيں جموں کشمير ميں داخل کر کے اس بھاری مُسلم اکثريت والی رياست پر قبضہ کر ليا اور يہ ناسُور اب تک پاکستان کے سينہ پر رِس رہا ہے ۔

 يہ تو بہت سے لوگ جانتے ہيں کہ احمديہ تحريک قابض برطانوی حکومت نے مسلمانوں ميں تفرقہ ڈال کر انہيں کمزور کرنے کيلئے بنائی ليکن بہت کم لوگ جانتے ہيں کہ بيسويں صدی کے شروع ميں احمديہ تحريک کو صيہونيوں کی پُشت پناہی حاصل ہوئی ۔ پھر جب صيہونيوں نے 14 مئی 1948 کو از خود “یہودی ریاست اسرائیل” کا اعلان کر دیا تو سب سے پہلا غيرمُلکی دفتر جو اسرائيل ميں قائم ہوا وہ احمديوں کا تھا ۔ يہ دفتر حيفہ ميں قائم کيا گيا تھا ۔  خيال رہے کہ صيہونيوں کی طرف سے رياست اسرائيل کا اعلان يک طرفہ اور بے جواز ہونے کے باعث اُن دنوں تمام عالمِ اِسلام سراپا احتجاج تھا اور مرزا غلام احمد قاديانی صاحب کے پيروکار صيہونيوں کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے تھے ۔

پُرانی بات ہے کہ قُدرت اللہ شہاب صاحب کو اقوامِ مُتحدہ کے حقائق معلو م کرنے والے مِشن کا  رُکن بنا کر اُن کا بھيس بَدَل کر اسرائيل بھيجا گيا ۔ اس مشن کے ارکان اسرائيل کی ہائی کمان کے دفاتر ميں گئے ۔ وہاں راہداری ميں چلتے ہوئے قُدرت اللہ شہاب صاحب نے ديکھا کہ ڈاکٹر عبدالسّلام [احمديہ] ايک اعلٰی صيہونی آفيسر کے کمرہ سے نکل کر دوسرے اعلٰی آفيسر کے کمرے ميں داخل ہوئے ۔ ڈاکٹر عبدالسّلام پاکستانی ہوتے ہوئے اسرائيل کيسے گئے اور اسرائيل کی ہائی کمان کے دفاتر ميں کيا کر رہے تھے يہ آج تک کسی نے نہيں بتايا ۔

پاکستان کے پہلے وزيرِ خارجہ ظفراللہ صاحب بھی احمدیہ تھے جنہوں نے پاکستان کے پہلے وزير اعظم لياقت علی خان صاحب کو 1948 ميں جموں کشمير ميں جنگِ آزادی جب آخری مراحل ميں داخل ہو چکی تھی فائر بندی پر راضی کيا جس کا نتيجہ آج تک پاکستان بھُگت رہا ہے ۔

ميں نے داؤدی صاحب کے بلاگ پر لکھا     

آپ کی نقل کردہ تحرير سے ميرے ذہن ميں کچھ سوالات اُبھرے ہيں ان کی وضاحت فرمائيں گے آپ ؟

اول ۔ پہلا نبی کون تھا اور کيا پہلا نبی پہلا انسان بھی تھا يا کہ انسان پہلے نبی سے قبل موجود تھے ؟

دوم ۔ خاتمُ النَّبیين سے کيا مُراد ہے ۔ آخری نبی يا کچھ اور ؟
سوم ۔ اگر دين مکمل ہو گيا تھا تو پھر مرزا غلام احمد صاحب قاديانی کا کيا رول تھا ؟
چہارم ۔ قران شريف کی کونسی آيت کے مطابق جہاد حکومت کے حُکم سے فرض ہوتا ہے انفرادی طور پر نہيں ہوتا ؟
پنجم ۔ قرآن شريف کی کس آيت کے مطابق حضرت عيسٰی عليہ السّلام نے اس دنيا ميں وفات پائی ؟

داؤدی صاحب نے احمديہ کميونِٹی کی لمبی چوڑی ويب سائٹ کا يو آر ايل لکھ کر ٹہلا ديا اور مزيد لکھا

لیکن خاکسار کو اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ آپ اس سائٹ کو کبھی وزٹ نہیں کریں گے

جس ويب سائٹ کا اُنہوں نے حوالہ ديا وہ ميں بہت پہلے پڑھ چکا تھا اِس کے باوجود ميں نے کھول کر ديکھی ۔

ميں جب آٹھويں جماعت ميں پڑھتا تھا  ميرے ايک ہمجماعت دوست کے والدين احمديہ تھے مگر دودھيال احمديہ نہ تھے ۔ وہ ميرے ساتھ نماز پڑھتا تھا اور گھر سے احمديہ لٹريچر پڑھ کر مجھے سناتا رہتا تھا ليکن اِنہماک کے ساتھ احمديت کا مطالع ميں نے 1953 عيسوی ميں شروع کيا جب ميں لاہور ميں ايک احمديہ خاندان کہ ہاں دس دن مہمان رہا ۔ اُن دنوں ختمِ نبُوّت تحريک کے بعد مارشل لاء لگا کر سينکڑوں مسلمانوں کو گوليوں سے ہلاک کيا جا چکا تھا اور روزانہ شام 5 بجے سے صبح 8 بجے تک کرفيو ہوتا تھا ۔ خيال رہے کہ اُس دور کے گورنر جنرل غلام محمد صاحب احمدي تھے ۔ اپنے ميزبان کی لائبريری ميں پڑی تقريباً تمام کتابيں ميں نے پڑھ ليں جن سے ميں احمديت کی حقيقت کو پا گيا ۔ مرزا غلام احمد کے بيانات جن کو وہ وحی کہتے ہيں باہمی تضاد کا پلندہ تھے ۔ ايک اور تجربہ جو مجھے ہوا يہ ہے کہ مرزا غلام احمد قاديانی صاحب کے جو بيانات 50 سال قبل ميں نے پڑھے تھے اُن ميں سے کچھ اب غائب ہو چکے ہيں اور کچھ ميں ترميم ہو چکی ہے ۔

میرا انگريزی کا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے“ یہاں کلِک کر کے یا مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔
https://iabhopal.wordpress.com/
 

اے اِنسان

اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ  ہ  وَ اِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ   ہ   وَ اِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ   ہ   وَ اِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ   ہ   عَلِمَتْ نَفْسً مَّا قَدَّمَتْ وَأخَّرَتْ   ہ   يَا أيُّھَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (سورة 82 الانفِطار ۔ آیات 1 تا 6)۔

ترجمہ
جب  آسمانی کُرّے پھَٹ جائیں گے اور جب سیّارے گِر کر بِکھر جائیں گے اور جب سمندر [اور دریا]  اُبھر کر بہہ جائیں گے اور جب قَبریں زیر و زبَر کر دی جائیں گی تو ہر شخص جان لے گا کہ کیا عمل اُس نے آگے بھیجا اور [کیا]  پیچھے چھوڑ آیا تھا ۔ اے انسان ۔ تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا

 میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے Hypocrisy Thy Name – –  http://iabhopal.wordpress.com – – یہ منافقت نہیں ہے کیا

ہماری ثقافت يا کلچر کیا ہے ؟

کئی سالوں سے ثقافت یا کلچر کا بہت شور و غوغا ہے ۔ آخر ہماری ثقافت ہے کیا اور کہیں ہے بھی کہ نہیں ؟  یہ ثقافت یا کلچر ہوتی کیا بلا ہے ؟  آج سے پچاس سال پہلے جب میں گیارہویں یا بارہویں جماعت میں پڑھتا تھا تو میرا ثقافت کے ساتھ پہلا تعارف کچھ اِس طرح ہوا ۔ اپنے ایک ہم جماعت کے گھر گیا وہ نہ ملا ۔ دوسرے دن اس نے آ کر معذرت کی اور بتایا کہ رشیّن کلچرل ٹروپے [Russian Cultural Troupe] نے پرفارمینس [performance] دینا تھی ۔ میں دیکھنے چلا گیا ۔ میں نے پوچھا کہ پھر کیا دیکھا ؟  کہنے لگا ” اہُوں کلچر کیا تھا نیم عریاں طوائفوں کا ناچ تھا ” ۔

اب اپنے ملک کے چند تجربات جو روز مرّا کا معمول بن چکے ہیں

ميرے دفتر کے تين پڑھے لکھے ساتھی آفيسروں نے چھٹی کے دن سير کا پروگرام بنايا اور مجھے بھی مدعُو کيا  ۔ صبح 8 بجے ايک صاحب کے گھر پہنچ کر وہاں سے روانگی مقرر ہوئی ۔ وہ تينوں قريب قريب رہتے تھے ۔ ميرا گھر اُن سے 40 کلوميٹر دور تھا ۔ ميں مقررہ مقام پر5 منٹ کم 8 بجے پہنچ گيا تو موصوف سوئے ہوئے تھے ۔ دوسرے دونوں کے گھر گيا تو اُنہيں بھی سويا پايا ۔ مجھے ايک گھينٹہ انتظار کرانے کے بعد اُنہوں نے 9 بجے سير کا پروگرام منسوخ کر ديا اور ميں اپنا سا مُنہ لے کر 3 گھينٹے ضائع اور 80 کلوميٹر کا سفر کر کے واپس گھر آ گيا  ۔ 

چند سال قبل ميں لاہور گيا ہوا تھا اور قيام گلبرگ ميں تھا ۔ رات کو بستر پر دراز ہوا تو اُونچی آواز ميں ڈھما ڈھا موسيقی ساتھ بے تحاشہ شور ۔ سونا تو کُجا دماغ پھٹنے لگا ۔ انتہائی کَرب ميں رات گذری ۔ صبح اپنے مَيزبان سے ذِکر کيا تو بيزاری سے بولے “ہماری قوم پاگل ہو گئی ہے ۔ يہ بسنت منانے کا نيا انداز ہے “۔ محلہ میں کوئی شیرخوار بچہ ۔ بوڑھا یا مریض پریشان ہوتا ہے تو اُن کی بلا سے ۔

آدھی رات کو سڑک پر کار سے سکرِیچیں ماری جا تی ہیں ۔ اُن کی بلا سے کہ سڑک کے ارد گرد گھروں میں رہنے والے بِلبلا کر نیند سے اُٹھ جائیں ۔ ہمارے گھر کے پيچھے والی سڑک پر رات گيارہ بارہ بجے کسی مالدار کی ترقی يافتہ اولاد روزانہ اپنی اِسی مہارت کا مظاہرہ کرتی تھی ۔ اللہ نے ہم پر بڑا کرم کيا کہ وہ خاندان يہاں سے کُوچ کر گيا ۔  
ایک جگہ بھِیڑ اور شور و غُوغا سے متوجہ ہوۓ پتہ چلا کہ کوئی گاڑی ایک دس بارہ سالہ بچّے کو ٹکر مار کر چلی گئی ہے ۔ بچہ زخمی ہے ۔ کوئی حکومت کو کوس رہا ہے کوئی گاڑی والے کو اور کوئی نظام کو مگر بچّے کو  اُٹھا کر ہسپتال لیجانے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ يہ کام شائد اللہ تعالٰی نے مجھ سے اور ميرے جيسے ايک اور غير ترقی يافتہ [؟ ؟ ؟]  سے لينا تھا ۔

ایک مارکیٹ کی پارکنگ میں گاڑیاں عمودی پارک کی جاتی ہیں ۔ کار پارک کر کے چلا ہی تھا کہ ایک صاحب نےمیری کار کے پیچھے اپنی کار پارک کی اور چل دیئے ۔ ان سے مؤدبانہ عرض کیا کہ جناب آپ نے میری گاڑی بلاک  کر دی ہے پارکنگ میں بہت جگہ ہے وہاں پارک کر دیجئے ۔ وہ صاحب بغیر توجہ دیئے چل ديئے ۔ ساتھ چلتے ہوئے مزید دو بار اپنی درخواست دہرائی مگر اُن پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ آخر اُن کا بازو پکڑ کر کھینچا اور غُصہ دار آواز میں کہا “گاڑی ہٹائیے اپنی وہاں سے” ۔ تو وہ صاحب اپنی ساتھی کو وہیں ٹھیرنے کا کہہ کر مُڑے اور اپنی کار ہٹائی

پھَل لینے گئے ۔ دکاندار سے کہا “بھائی داغدار نہ دینا بڑی مہربانی ہو گی” ۔ دکاندار بولا “جناب ہماری ایسی عادت نہیں” ۔ اس نے بڑی احتیاط سے چُن چُن کے شاپنگ بیگ میں ڈال کر پھَل تول دیئے ۔ گھر آ کر دیکھا تو 20 فيصد داغدار تھے ۔ ۔ ۔ دراصل اُس نے صحیح کہا تھا “ہماری ایسی عادت نہیں” یعنی اچھا دینے کی ۔

< پندرہ سولہ سال پہلے کا واقع ہے جب میں جنرل منیجر [گریڈ 20] تھا ہسپتال میں دوائی لینے کے لئے ڈسپنسری کے سامنے قطار میں کھڑا تھا چپڑاسی سے آفسر تک سب ایک ہی قطار میں کھڑے تھے ۔ ایک صاحب [گریڈ 19] آۓ اور سیدھے کھِڑکی پر جا کر چِلّائے" اوۓ ۔ یہ دوائیاں دو" ڈسپنسر نے سب سے پہلے اسے دوائیاں دے دیں ۔ ایک آفیسر کسی غیر ملک کا چند دن کا دورہ کر کے آۓ ۔ میں نے پوچھا کیسا ملک ہے ؟  بولے " کچھ نہ پوچھیئے ۔ وہاں تو روٹی لینے کے لئے لوگوں کی قطار لگی ہوتی ہے" ۔ کہہ تو وہ صحیح رہے تھے مگر غلط پیراۓ میں ۔ میں اُس ملک میں تقریباً سات سال رہ چکا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں تو بس پر چڑھنے کے لئے بھی لوگ خود سے قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہسپتال میں دوائی لینے کے لئے بھی ۔ کیونکہ وہ لوگ ایک دوسرے کے حق کا احترام کرتے ہیں ۔ والدین اور اساتذہ نے ہمیں تربیت دی تھی کہ جب کسی سے ملاقات ہو جان پہچان نہ بھی ہو تو سلام کرو ۔ کبھی کسی کو سلام کیا اور اس نے بہت اچھا برتاؤ کیا اور کبھی صاحب بہادر ہميں حقير جان کر اکڑ گئے ۔ کوئی ہفتہ پہلے ميں کار پر جا رہا تھا ۔ ايک چوک پر ميں درمیانی لين ميں تھا جو سيدھا جانے کيلئے تھی ۔ ايک لين ميرے بائيں طرف تھی جو بائيں جانب مُڑنے کيلئے تھی ۔ بتی سبز ہونے پر چل پڑے ۔ ميں چوک يا چوراہا يا چورنگی ميں داخل ہوا ہی چاہتا تھا کہ ايک کار ميری بائيں جانب سے بڑی تيزی سے ميرے سامنے سے گُذر کر داہنی طرف کو گئی ۔ ديکھا تو وردی ميں ملبوس ايک کرنل اُس کار کو چلا رہے تھے ۔ سُنا تھا کہ فوج ميں بڑا ڈسِپلِن  ہوتا ہے ۔     بازار میں آپ روزانہ دیکھتے ہیں کہ بلا توقف  نقلی چیز  اصل کے بھاؤ بیچی جا رہی ۔ ہم ہیں تو مسلمان مگر ہم نے ناچ گانا ۔ ڈھول ڈھمکْا اور نیو ایئر نائٹ اپنا لی ہے ۔ بسنت پر پتنگ بازی کے نام پر راتوں کو ہُلڑبازی ۔ اُونچی آواز میں موسیقی ۔ شراب نوشی ۔ طوائفوں کا ناچ غرضیکہ ہر قسم کی بد تمیزی جس میں لڑکیاں يا عورتيں بھی لڑکوں کے شانہ بشانہ ہوتی ہیں ۔ [ابھی ہولی اور کرسمس باقی رہ گئی ہيں] کیا یہی ہے ہماری ثقافت یا کلچر ؟   کیا پاکستان اِنہی کاموں کے لئے حاصل کيا گيا تھا ؟  کیا یہی ترقی کی نشانیاں ہیں ؟ یا اللہ ہمیں صحیح راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما ۔ آمین ۔ میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔
Hypocrisy Thy Name
http://iabhopal.wordpress.com – – یہ منافقت نہیں ہے کیا