آدھی صدی سے زائد بيت گئی جب ميں سکول ميں پڑھتا تھا تو ماہِ رمضان ميں ريڈيو پر محمد رفيع کا گايا ہوا ايک گيت کئی بار سنايا جاتا تھا
۔ پچھلے رمضان ميں يہ گيت ميرے دماغ کی ہارڈ ڈِسک سے اَيکٹِو مَيموری ميں آگيا ۔ سو قارئين کے پيشِ خدمت ہے ۔ ہو سکتا ہے کچھ غلطی ہو گئی ہو يا کوئی مصرع رہ گيا ہو ۔ آخر پچاس سال کوئی تھوڑا عرصہ نہيں ہوتا ۔
مشہور مدتوں سے روائت ہے مومنو
رمضان کے مہينے کی برکت ہے مومنو
اِک شہر ميں تھا لڑکا کوئی سات سال کا
روزے کے رکھنے کا اُسے ارمان تھا بڑا
رمضان کا مہينہ جو آيا تو خوش ہوا
وہ اپنی ماں سے کہنے لگا کرکے التجاء
سحری کے وقت مجھ کو بھی لله جگانا تم
ميں بھی رکھوں گا روزہ مجھے بھی اُٹھانا تم
ماں کو پِسر کی بات کا نہ آيا کچھ خيال
لڑکا جو اُٹھا صبح تو اُس کو ہوا ملال
جس وقت ماں نے ديکھا بيٹے کا غم ميں حال
سمجھايا اُس کو اور کہا سُن اے ميرے لال
روزہ نہيں ہے فرض ابھی تجھ پہ غم نہ کر
دل کانپتا ہے ميرا تو آنکھوں کو نم نہ کر
لڑکا يہ بولا ماں سے نہيں مجھ سے کچھ نہاں
ميں نے سنا ہے بارہا رمضان کا بياں
قرآن اس مہينے ميں نازل ہوا ہے ماں
رمضان برکتوں کا مہينہ ہے بے گماں
جنّت ميں گھر ملے گا ہر اک روزہ دار کو
پائے گا دل ميں جلوۂِ پروردگار کو
القصہ جب رات ہوئی وہ نہ سو سکا
دل ميں تھا ايسا شوق کہ وہ جاگتا رہا
سحری کے وقت سحری کی اور روزہ رکھ ليا
خوش تھا کہ آج پورا ہوا دل کا مُدعا
سمجھايا ماں نے باپ نے لاکھوں کئے جتن
باز اپنے شوق سے مگر آيا نہ گُلبدن
ہر سمت جب پھيل گيا نُورِ آفتاب
ماں بيٹے سے يہ بولی کہ اب کھا لے تو شتاب
وہ بولا روزہ ٹوٹے گا ہو گا مجھے عذاب
ماں بولی تيرے بدلے ميں دوں گی وہاں جواب
کھانا تُو کھا لے ديکھ تو کيا ہو گيا ہے حال
بارہ بجے ہيں اور تُو بھوکا ہے ميرے لال
اس درجہ اُس کے سينے ميں روزے کا شوق تھا
ماں نے ہزاروں مِنتيں کيں کچھ نہ ہو سکا
بے تاب اپنی ماں کو ديکھا تو بول اُٹھا
جو کچھ بھی ہو آج کھانا نہ کھاؤں گا
يوں روزہ توڑ دينا گناہِ عظيم ہے
اب ميں ہوں اور ميرا خدائے رحيم ہے
اتنے وقتِ عصر ہوا پياس جو لگی
سوکھی زبان ۔ طاری ہوئی اُس پہ بے ہوشی
حرکتِ دل ميں آئی کمی بے کلی بڑھی
ہچکی سی آئی سانس بھی سينے ميں رک گئی
ماں باپ چيخ اُٹھے کہ معصوم چل بسا
مغموم ہم کو کر گيا محروم چل بسا
ہر سُو اذاں کی ہوئی اتنے ميں اک پُکار
افطار دونوں نے کيا روزہ بحالِ زار
پھر بارگاہِ حق ميں جھُکے ہو کے بے قرار
فارغ ہوئے نماز سے تھے دونوں اشکبار
ماں کی زبان پر تھی صدا شور و شَين کی
اور سامنے تھی لاش رکھی نورِعين کی
دونوں تھے اپنے بيٹے کے ماتم ميں مبتلا
اتنے ميں در سے دی کسی سائل نے يہ صدا
ميں روزہ دار ہوں جو کوئی کھانا کھلائے گا
دے گا اُسے نجات ہر اک رنج سے خدا
کانوں ميں پہنچی جس گھڑی سائل کی التجاء
گھر ميں جو کچھ پکا تھا وہ سائل کو ديديا
سائل کے بھيس ميں تھا فرشہ وہ بے گماں
غمگين اُن کو ديکھ کے پوچھا کہ اے مياں
کيوں چہرے سے تمہارے ہے اس طرح غم عياں
کہنے لگا ميں کيا کروں درد کا بياں
بيٹا ہمارا رنج و الم ہم کو دے گيا
تھا روزہ دار دل کا سکوں چھين لے گيا
بولا فقير اس پہ نہ کر رنج تُو ذرا
الله ہے کارساز دے گا اُسے جلا
بچے کی لاش مجھ کو بھی تو اک نظر دکھا
جب لاش ديکھی بچے کی سائل نے يہ کہا
ہو جا خدا کے فضل سے تو زندہ اس گھڑی
فضلِ خدا سے بچے نے پھر آنکھ کھول دی
ماں باپ نے جو ديکھا يہ منظر تو خوش ہوئے
بے ساختہ فقير کے قدموں ميں گر پڑے
بولا فقير شکر کرو فضلِ رب ہے يہ
رمضان کا مہينہ بڑا برکتوں کا ہے
غم سے نجات ملتی ہے ہر روزہ دار کو
وہ ديکھتا ہے جلوہءِ پروردگار کو
دائیں جانب جو روابط دیے گئے ہیں ان میں میرے نام سے منسوب ربط غلط ہے ، آپ درج زیل میں سے کوئی ربط دے دیجیے
http://urdublog.wordpress.com
http://icheetah.sitesled.com
قدير احمد رانا صاحب
بلاگسپاٹ والے بلاگز ميں پہلے ہی ٹھيک لکھا تھا ۔ ورڈپريس ميں اب اُردو والا اُردو اور انگريزی والا انگريزی ميں ٹيک کر ديا ہے ۔