پنجاب يونيوسٹی ميں ناچ گانے کي باقاعدہ کلاسز کی محالفت کرنے پر سٹوڈنٹس کو يونورسٹی سے نکالنے کی تيارياں ۔ نيچے ديئے رابطہ پر کلک کر کے يا اسے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئےhttp://nawaiwaqt.com.pk/urdu/daily/oct-2006/15/columns3.php
Monthly Archives: October 2006
جھگڑے اور شرمندگی سے نجات
ہماری ہر بات اور عمل اپنا اثر رکھتے ہيں جس طرح پانی ميں پتھر پھينکا جائے تو لہريں پيدا ہوتی ہيں جو دور تک جاتی ہيں ۔ ہميں اپنی مرضی کے مطابق بولنے اور عمل کرنے کا حق ضرور ہے ليکن ہمارے بولے ہوئے الفاظ اور ہمارے عمل کے نتيجہ کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ جلدی ميں بولے ہوئے الفاظ نے متعدد بار پيار کرنے والے مياں بيوی يا دوستوں کے درميان ديوار کھڑی کی ہے ۔
بعض اوقات ہم کسی کے متعلق غلط سوچ قائم کرتے ہيں اور پھر غُصّے يا جذبات ميں آ کر جو منہ ميں آتا ہے کہہ ڈالتے ہيں ۔ ايسے ميں اگر ہم توقّف کريں تو جلد ہی غصہ يا جذبات دھيمے پڑ جاتے ہيں اور اس کی جگہ رحمدلی يا تدبّر لے ليتا ہے ۔ اسلئے غصے يا جذبات سے مغلوب ہو کر کچھ بولنا يا کوئی قدم اُٹھانا بڑی غلطی ہے۔ بہتر يہ ہے کہ غصہ يا جذبات کے زيرِ اثر نہ کوئی بات کی جائے اور نہ کوئی عملی کام ۔ عين ممکن ہے ايک آدھ دن ميں يا تو غصے کا سبب ہی ختم ہو جائے يا کوئی بہتر صورت نکل آئے ۔ بالفرضِ محال اگر صورتِ حال جوں کی توں رہتی ہے تو کم از کم بہتر اقدام کے بارے ميں سوچنے کا وقت تو مل گيا ہو گا ۔ زيادہ قياس يہی ہے کہ غصہ کھانے کی وجہ ہی نہيں رہی ہو گی ۔
سُورة 41 فُصِّلَت / حٰم السَّجْدَ آيت 34
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا
زمين ميرے پاؤں کے نيچے سے نکل گئی
پچھلے سال آج کے دن ميں کسی کام سے راولپنڈی کچہری گيا ہوا تھا ۔ وہاںگہری سوچ ميں گُم ايک دفتر سے دوسرے دفتر جا رہا تھا کہ ميرے پاؤں کے نيچے سے زمين زوردار جھٹکے کے ساتھ ايک طرف کو گئی ۔ ابھی سنبھل نہ پايا تھا کہ زمين دوسری طرف کو گئی ۔ جھٹکے ختم ہوئے تو بيٹے کا ٹيلفون خيريت پوچھنے کيلئے آيا ۔ تھوڑی دير بعد گھر کو روانہ ہوا ۔ راستہ ميں پھر بيٹے کا ٹيليفون آيا اور اُس نے بتايا کہ مرگلہ ٹاور گِر گيا تھا ۔ اسلام آباد گھر پہنچنے پر بيٹے نے بتايا کہ ہمارے گھر کے چار کمروں کی ديواروں ميں دراڑيں پڑ گئی تھيں ۔ ميرے وہم و گمان ميں بھی نہ تھا کہ ميرے مُلک کے شمالی علاقوں ميں قيامتِ صغرٰی بپا ہو چُکی ہے ۔
رات گئے معلوم ہوا کہ مظفرآباد اور باغ وغيرہ سے بالکل رابطہ نہيں ہو رہا ۔ کچھ رضاکار صورتِ حال معلوم کرنے چل پڑے ۔ آدھی رات کے بعد اُنہوں نے اپنے موبائل سے اطلاع دی کہ مظفرآباد کو جانے والی سڑک تباہ ہو گئی ہے ذرا سی روشنی ہو جانے پر وہ گاڑی وہيں چھوڑ کر پيدل آگے جائيں گے ۔ اگلے دن اُن کے ٹيليفون کا انتظار کرتے رہے ۔ اِسی دوران اطلاع ملی کہ صوبہ سرحد ميں بالا کوٹ تباہ ہو چکا ہے اور اس سے آگے شمالی علاقوں کی کچھ خبر نہيں ۔ عشاء کے بعد ٹيليفون آيا کہ ميں اکيلا ٹيليفون کرنے واپس آيا ہوں کيونکہ ٹيليفون کا نظام تباہ ہو چکا ہے مظفرآباد پہنچنے ميں تو وقت لگے گا جہاں تک ميں گيا ہوں سب گاؤں تباہ ہو چکے ہيں ۔
اس کے بعد مقامی فلاحی جماعتوں نے تيزی سے امدادی کاروائياں شروع کر ديں اور پہلی کھيپ 10 اکتوبر 2005 کو صبح سويرے روانہ کر دی گئی جو جہاں سڑک تباہ ہو گئی تھی اس سے آگے کندھوں پر ليجائی گئ اور مظفرآباد کے راستہ ميں رہائشی متاءثرين ميں بانٹ دی گئی ۔ اسی طرح پہلی کھيپ جو بالاکوٹ بھيجی گئی وہ ٹرک مانسرہ سے کچھ آگے رک گيا اور آگے پيدل کندھوں پر سامان پہنچايا گيا ۔
اب ايک سال بعد صورتِ حال يہ ہے کہ متاءثرين کی غالب اکثريت ابھی تک خيموں ميں رہ رہی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ايسے واقعات سے لوگ عبرت پکڑتے ہيں مگر ہماری قوم شائد سب حدود پار کر چُکی ہے ان پر کوئی اثر ہوا نظر نہيں آتا ۔ امدادی رضاکار ادارے شکائت کرتے ہيں کہ حکومت کے ذريعہ تقسيم ہونے والی امداد کا بيشتر حصہ متاءثرين کو نہيں مِل رہا ۔ حکومت نے بحالی کا ايک خصوصی ادارہ بنايا ہوا ہے جس کا سربراہ حاضرسروس جرنيل ہے ۔ ناجانے اُن کی کيا ذمہ داری ہے جو امداد خُردبُرد ہو رہی ہے ۔ امداد خُردبُرد کرنے والوں ميں حکومت کے اہلکاروں کے علاوہ مقامی لوگ بھی شامل ہيں اور متاءثرين بے سہارا لوگ ہيں ۔
مسلم رضاکار اداريے امدادی کاروائياں جاری رکھے ہوئے ہيں ۔ اِنفرادی اِمداد بھی جاری ہے ۔ غير مُلکی امدادی ادارے صرف چند رہ گئے ہيں اور انہوں نے ايک اور مسئلہ کھڑا کيا ہوا ہے ۔ پاکستانی اور بين الاقوامی مسلم رضاکاروں نے بچوں اور بالغوں سب کيلئے تعليم کا بندوبست کيا ہوا ہے جس ميں وہ قرآن کی تعليم بھی ديتے ہيں ۔ ان کو قرآن کی تعليم اعتراض ہے کہ يہ لوگ متاءثرين کو دہشت گرد بنا رہے ہيں ۔ اس کے بر عکس کچھ غيرمُلکی ادارے متاثرين کو عيسائيت کی ترغيب ديتے رہے ہيں جس پر اجتمائی احتجاج بھی ہوا تھا ۔
يہاں کلِک کر کے يا مندرجہ ذيل لِنک اپنے براؤزر ميں لکھ کر تازہ ترين صورتِ حال پڑھيئے
ماں باپ ايسے ہوتے ہيں ؟؟؟
ہم نے سنا اور ديکھا بھی کہ اولاد اگر بدچلن ہو تو والدين ان کی سرزنش کريں گے پٹائی بھی کريں گے ليکن اُن کی برائيوں يا عيوب کی تشہير نہيں کريں گے بلکہ جہاں غيروں کا معاملہ ہو تو اپنے بچوں کا دفاع کريں گے ۔ يہ بھی سنا تھا کہ کسی قوم کے سردار يا حاکم قوم کے ماں باپ ہوتے ہيں ۔
قائدِاعظم نے مسلمانانِ ہند کو اپنے پيارے بچوں کا سلوک ديا تو آج تک قوم اُن کو ياد کرتی ہے اور دوائيں ديتی ہے ۔ اُن کے بعد جو بھی ملک کا سربراہ بنا اُس نے خواہ اپنی قوم کے ساتھ خود کيسا ہی سلوک کيا ہو ليکن غيروں کے سامنے اپنی قوم کی برائياں نہيں کيں بلکہ اپنی قوم کی تعريفيں ہی کيں ۔
ہمارے موجودہ بادشاہ سلامت نے تو وہ کر دکھايا جو کبھی خواب ميں بھی نہ ديکھا تھا اپنی ہی قوم کے سينکڑوں افراد کو بغير کسی جُرم کے ثبوت کے دشمنوں کے حوالے کيا قوم کے ہيرو کو دشمنوں کی خوشنودی کی خاطر بلاثبوت نہ صرف قيد ميں ڈالا بلکہ اُس کی تضحيک اور بدنامی کی قوم کے دين کا مذاق اُڑاتا رہا اپنے ہی ملک کے مردوں ۔ عورتوں اور بچوں کو غيروں کی طفننِ طبع کی خاطر دہشت گرد قرار دے کر اُن پر بم برسائے پھرکتاب کی صورت ميں ناکردہ گناہ بھی اپنی قوم کے سر تھوپ کر قوم کے خلاف ايف آئی آر کاٹ دیخود تعريفی سے بھری جھوٹ کا پلندہ اِس کتاب کی نقاب کُشائی مُلک و قوم کے دشمن کے مُلک ميں کر کے دُشمنوں سے دادِ تحسين وصول کی ۔ رہی سہی کسرآئی ايس آئی کو مشکوک بنا کر پوری کر دی گويا پوری فوج کو بھی مشکوک بنا ديا کيا بادشاہ سلامت خود اس قوم اور اس فوج کا حصہ نہيں ہيں ؟کیا ان کو تھپکياں دينے والے غيرلوگ دل ميں ان کے بيانات پر ہنستے نہيں ہوں گے ؟ سکول کے زمانہ ميں ضرب المثل پڑھی تھی کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے ۔ اس کا مطلب اُس وقت تو سمجھ نہ آيا تھا مگر اب اچھی طرح سمجھ آ گيا ہے ۔ گنجے کو ناخن مل گئے سو اس نے اپنے سر کو خارش کر کر کے لہو لہان کر ليا ہے ۔ ايک تاريخی واقعہ ياد آيا ۔ جنوبی ہندوستان کے صادق نامی شخص نے اپنے لوگوں کے ساتھ غداری کر کے انگريزوں کی مدد کی جس سے وہ جيت گئے ۔ اس کے نتيجہ ميں جب اسے جان سے مارا جانے لگا تو اس نے احتجاج کيا ۔ جواب ملا کہ جو شخص اپنی قوم کا وفادار نہيں وہ کسی غير کا کيسے وفادار ہو سکتا ہے ۔ يہ کہہ کر اسے موت کے گھاٹ اتار ديا گيا ۔
شور ہر سال اُٹھتا ہے مگر ۔ ۔ ۔
سالہا سال سے ہر سال يہ شور شعبان کے آخری ہفتہ ميں نمودار ہوتا ہے ۔ عيد الفطر تک گرما گرم بحث ہوتی ہے اور عيد الفطر کے بعد ايسا ہوتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہيں ۔ موضوع ہوتا ہے چونکہ سائنس اب بہت ترقّی کر گئی ہے اسلئے علمِ سائنس کے ذريعہ چاند کی پہلی تاريخ کا حساب لگا کر روزہ رکھا جائے اور روئتِ ہلال کی کوئی ضرورت نہيں ۔
اس ميں کوئی شک نہيں کہ اجرامِ فلکی کی حرکات ديکھنا اب آسان ہوگيا ہے ليکن جب يہ جديد طريقے معلوم نہيں ہوئے تھے يعنی چھ سات صدياں قبل تو بھی چاند ستاروں کی حرکت کا صحيح حساب لگايا جاتا تھا ۔ اگر ايسا نہ ہوتا تو بادبانی جہاز ميں دنيا کے ايک سرے سے دوسرے سرے تک تاجر کيسے سفر کرتے تھے جن کا رہبر اجرامِ فلکی ہی ہوتے تھے ؟ صرف کولمبس کو مثال بنانا غَلَط ہے جو کہ ہندوستان جانے کيلئے نکلا اور امريکہ پہنچ گيا ۔
کہا جاتا ہے سو ڈيڑھ سو سال پہلے تک مسلمان سائنسدانوں کی بنائی ہوئی جنتری موجود تھی جس ميں چاند کی صحيح تاريخيں ہوتی تھيں اور اس ميں شاذ و نادر ہی تبديلی کی ضرورت پڑتی تھی ۔ مسئلہ دراصل يہ نہيں ہے کہ روئتِ ہلال ايک بوسيدہ يا غير سائنسی خيال ہے يا اسلام سائنسی تحقيق اور اس کے استعمال کی اجازت نہيں ديتا ۔ مسئلہ مسلمانوں کی دينی اور دنياوی علم سے دُوری ہے جس کے نتيجہ ميں لوگ گروہوں ميں بٹ کر ضدی بن گئے ہيں اور ہر گروہ اللہ اور اس کے رسول کی ہدائت کے خلاف دوسرے گروہ کی اچھائياں ديکھنے اور سيکھنے کی بجائے اس کی بُرائياں اُجاگر کرنے ميں لگا رہتا ہے جس کے نتيجہ ميں اتحاد کا فُقدان ہے ۔ ديگر اپنی گروہ بندی کی خاطر ان گروہوں نے مُختلف بدعتيں بھی اپنا لی ہيں
اس کُرّہءِ ارض کا ہر علاقہ سورج اور چاند کے ساتھ مُختلف زاويئے بناتا ہے ۔ يہ زاويئے سورج کے گرد ايک چکّر کے دوران بدلتے رہتے ہيں اور زمين کے محور کی زمين کی مُجسّم حرکت کی سطح کے ساتھ جھُکاؤ کا بھی ان زاويئوں پر زمين کے مُختلِف مقامات پر مُختلِف اوقات ميں مُختلِف اثر پڑتا ہے جو روئتِ ہلال کا قياس بذريعہ رياضی مُشکِل بنا ديتا ہے ۔
دنيا ميں اس وقت کوئی دنیا میں اس وقت کوئی مستند جنتری نہيں جو نظامِ شمسی کی سو فيصد صحيح عکاسی کرتی ہو ۔ گريگوريئن جنتری جو عام استعمال ميں ہے اس کے مطابق مہينے ہيں 11 مہينوں ميں 30 يا 31 دن ہوتے ہيں ايک ميں تين بار 28 دن اور چوتھی بار 29 دن ہوتے ہيں ۔ جغرافيہ دان جانتے ہيں کہ اس کے باوجود مزيد تصحيح کی ضرورت ہے جو آج تک نہيں کی گئی مزيد يہ مہينے بھی نظامِ شمسی کی صحيح ترجمانی نہيں کرتے ۔
اللہ سُبحانُہُ نے فرمايا ہے ۔
الْبَقَرہَ ۔ آيت 189 سورت 2
لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج [کے تعیّن] کے لئے وقت کی علامتیں ہیں
سورت 6 الْأَنْعَام آیت 96
وہی صبح [کی روشنی] کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے [ربّ] کا مقررہ اندازہ ہے
سورت التَّوْبَہ آيت 36
بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا
سنّت نيا چاند ديکھنے کی تلقين کرتی ہے ۔ ترکِ سُنّت نہيں کيا جا سکتا کيونکہ اللہ تعالٰی نے رسول کی اطاعت کا حُکم ديا ہے [ميں اُن عقيدوں کی حمائت نہيں کرتا جو قرآن اور سنّت سے ماورا مختلف فرقوں نے اپنے اُوپر مسلّط کر لئے ہوئے ہيں] ۔ اجرامِ فلکی کے علم کے ماہرين بھی يہرائے رکھتے ہيں کہ کبھی ايسا ہوتا ہے کہ رياضی کے قاعدے سے تو نيا چاند طلوع ہونا چاہيئے ليکن عملی طور پر ايسا نہيں ہوتا ۔ اس کی معروف وجہ يہ ہے کہ ہلال اتنا باريک ہوتا ہے کہ وہ کسی طريقہ سے نظر نہيں آ سکتا دوسرے ايسی صورتِ حال انتہائی قليل وقت کيلئے ہوتی ہے اور ايسا سراب کے اثر سے بھی ہو سکتا ہے چنانچہ يہ روئت مشکوک ہوتی ہے ۔ ايسی صورت ميں چاند نظر نہيں آيا ہی کہا جانا چاہيئے ۔ ايسا تو کيا جا سکتا ہے کہ اجرامِ فلکی کے علم کے ذريعہ کم از کم دس سالوں کی ايک جنتری بنا لی جائے پھر اس جنتری کا جائزہ ليا جاتا رہے اور جب حقيقی صورتِ حال کی بناء پر ضرورت پڑے اس ميں ترميم کی جاتی رہے
ميں اپنی حاصل کردھ تعليم اور تجربہ کی بنياد پر وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عملی رياضی کے استعمال سے بنائے ہوئے پرزہ ميں بھی حقيقی عملی صورتِ حال کی بنياد پر ترميم کرنا پڑتی ہے ۔ دوسرے انسان کے بنائے ہوئے وقت کے پيمانے يعنی سيکنڈ ۔ منٹ ۔ گھينٹہ ۔ دن ۔ مہينہ اور سال نظامِ شمسی کے قدرتی پيمانے سے مماثلت نہيں رکھتے ۔ چنانچہ سُنّت کے علاوہ اس بنياد پر بھی صرف رمضان يا عيدين کيلئے نہيں بلکہ ہر ماہ روئتِ ہلال کا مناسب بندوبست ہونا چاہيئے اور اس کيلئے تعليم يافتہ اور تجربہ کار عُلماء اور ماہرينِ علمِ اجرامِ فلکی کی ايک مستقل کميٹی بنانا چاہيئے ۔ پہلی تاريخ اُسی دن ہو جس سے پچھلی شام چاند نظر آ جائے يا نظر آ جانا چاہيئے تھا مگر بادل دھند يا گرد کی وجہ سے نظر نہ آيا واللہ علم بالصواب