ہماری ہر بات اور عمل اپنا اثر رکھتے ہيں جس طرح پانی ميں پتھر پھينکا جائے تو لہريں پيدا ہوتی ہيں جو دور تک جاتی ہيں ۔ ہميں اپنی مرضی کے مطابق بولنے اور عمل کرنے کا حق ضرور ہے ليکن ہمارے بولے ہوئے الفاظ اور ہمارے عمل کے نتيجہ کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ جلدی ميں بولے ہوئے الفاظ نے متعدد بار پيار کرنے والے مياں بيوی يا دوستوں کے درميان ديوار کھڑی کی ہے ۔
بعض اوقات ہم کسی کے متعلق غلط سوچ قائم کرتے ہيں اور پھر غُصّے يا جذبات ميں آ کر جو منہ ميں آتا ہے کہہ ڈالتے ہيں ۔ ايسے ميں اگر ہم توقّف کريں تو جلد ہی غصہ يا جذبات دھيمے پڑ جاتے ہيں اور اس کی جگہ رحمدلی يا تدبّر لے ليتا ہے ۔ اسلئے غصے يا جذبات سے مغلوب ہو کر کچھ بولنا يا کوئی قدم اُٹھانا بڑی غلطی ہے۔ بہتر يہ ہے کہ غصہ يا جذبات کے زيرِ اثر نہ کوئی بات کی جائے اور نہ کوئی عملی کام ۔ عين ممکن ہے ايک آدھ دن ميں يا تو غصے کا سبب ہی ختم ہو جائے يا کوئی بہتر صورت نکل آئے ۔ بالفرضِ محال اگر صورتِ حال جوں کی توں رہتی ہے تو کم از کم بہتر اقدام کے بارے ميں سوچنے کا وقت تو مل گيا ہو گا ۔ زيادہ قياس يہی ہے کہ غصہ کھانے کی وجہ ہی نہيں رہی ہو گی ۔
سُورة 41 فُصِّلَت / حٰم السَّجْدَ آيت 34
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا