امريکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کے پاکستان پر اثرات اب واضح ہونے لگ گئے ہيں ۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے امريکہ کی ضرورت سے زيادہ فراخدلی سے حمائت نے قوم کو ردِعمل کے طور پر انتہاء پسندی کی طرف مائل کر ديا ہے ۔ يہ حقيقت ہے کہ امريکی دعوؤں کے برعکس جنگجوؤں کی بھاری اکثريت کا دينی مدرسوں سے تعلق نہيں ہے ۔ بدقسمتی سے مغربی ذرائع ابلاغ نے قوموں اور افراد کو اس سانچے ميں ڈھالنے کا معمول بنا ليا ہے کہ ہر دہشتگردی کے پيچھے طالبان يا مُلّا کا ہاتھ ہے جبکہ حقيقت بالکل مُختلف ہے ۔ وزارتِ داخلہ نے 2005 عيسوی کے آخر ميں ايک تفتيشی رپورٹ مُرتب کی اس کے مطابق 22 خودکُش بمباروں ميں سے صرف 3 کا کسی مدرسہ سے تعلق تھا ۔ پاکستان بننے سے لے کر 11 ستمبر 2001 تک پاکستان ميں شائد ہی کو خودکُش بمباری کا واقعہ ہوا ہو ۔
ستمبر 2001 کے بعد سے پاکستان ميں سينکڑوں لوگوں کو جنگجو کا نام دے کر بغير کسی الزام کے قيد کيا گيا ہے اور اُن کے خاندانوں کو اُن کے متعلق بے خبر رکھا گيا ہے ۔ بےشمار پاکستانيوں کو بغير کسی ثبوت کے القاعدہ يا طالبان کے بہانے مشکوک خفيہ طريقہ سے امريکہ کے حوالے کر ديا گيا ۔ اس عمل سے عوام ميں اُن کيلئے ہمدردی پيدا ہوئی ۔ جو کچھ افغانستان اور عراق ميں ہوا ۔ پھر بالخصوص ابو غريب اور گوانٹانامو بے ميں اس نے جوانوں کے ذہنوں پر گہرے نقش چھوڑے ۔
ايک اور مسئلہ پاکستانی حکومت کی امريکہ کے غلط اقدامات کے سلسسہ ميں بيجا رفع دفع کی پاليسی ہے ۔ کئی مواقع پر ايف بی آئی نے پاکستان کے اندر مقامی سکيورٹی ايجنسيوں کی مدد سے کمانڈو آپريشن کئے اور پاکستانی شہريوں کو اُٹھا کر لے گئے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امريکی فوجيوں نے پاکستانی علاقہ ميں داخل ہو کر حملے کئے ۔
جمہوريت کی کمی ۔ اداروں کے غيراستحکام اور اقتدارِ اعلٰی ميں شگاف نے مسائل کو گھمبير بنا ديا ہے اور حکومت ديرپا مفيد اقدام کيلئے ضروری سياسی اور جمہوری چہرے سے محروم ہے جس کی وجہ سے حالات بہتر کرنے سے قاصر ہے۔
يہ جاويد رانا صاحب کے 17 جولائی 2006 کو ڈان ميں چھپنے والے مضمون کے کچھ اقتباسات کا ترجمہ ہے ۔
*
میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔
Hypocrisy Thy Name – – http://iabhopal.wordpress.com/ یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔