لیلٰی و قیس [مجنوں] ۔ شیریں و فرہاد ۔ ہیر و رانجا ۔ سوہنی و مہیں وال ۔ سسّی و پُنُوں ۔ سہتی و مُراد وغیرہ کے عِشقیہ افسانے کون نہیں جانتا ۔ لیلٰی کو حاصل نہ کر سکنے کے نتیجہ میں شہزادہ قیس پاگل [مجنوں] ہو گیا اور جنگلوں میں بھٹکتا رہا ۔ شیریں کی قُربت کیلئے فرہاد پتھر کے پہاڑوں میں نہر کھودتا رہا ۔ ہیر کو حاصل کرنے کیلئے تخت ہزارہ کے شہزادے نے رانجا کا روپ دھار کر ہیر کے باپ کا کمّی [غلام] بننا قبول کیا ۔ سوہنی کے عشق میں ایک زمیندار سب کچھ چھوڑ کر سوہنی کے باپ کا مہیں وال [بھنسیں چرانے والا] بنا ۔ سسّی کو پانے کیلئے شہزادہ پُنّوں صحراؤں کی گردش میں گم ہو گیا ۔ بلوچستان کے نواب کا بیٹا مُراد جھنگ سے گذرتے ہوئے سہتی کے عشق میں گرفتار ہوا ۔ سہتی کے خاندان کے بلوچوں میں لڑکی بیاہنے سے انکار کے باوجود جھنگ میں ہی الغوزہ بجاتا رہا ۔
اُردو کاایک مصدر ہے تسلیم کرنا ; یعنی مان لینا ۔ اِ سکا اِسم فاعل ہے مُسلِم چنانچہ مُسلم وہ ہوتا ہے جو تسلیم کرے یا مانے ۔ اب فرض کیجئے کہ ایک شخص کو بُخار ہے اور وہ تسلیم کرتا ہے یا مانتا ہے کہ بُخار پَیناڈول کھانے سے بخار اُتر جائے گا تو ضروری بات ہے کہ وہ پَیناڈول کھا لے گا ۔ اور اگر نہیں کھائے گا تو اِس کا مطلب ہو گا کہ وہ کہہ تو رہا ہے کہ مانتا ہوں کہ پيناڈول سے بخار اُتر جائے گا لیکن حقیقتا میں مانتا نہیں ہے ۔
مُسلِم کے لُغوی معنی تو اُوپر لکھ دیئے مگر اِصطلاحی طور پر مُسلِم یا مُسلمان اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی کی اطاعت قبول کرتا ہے یعنی اللہ کا ہر حُکم مانتا یا کم از کم ماننے کا دعویدار ہوتا ہے ۔ ايک مُسلم يا مُسلمان اللہ کا حُکم تب ہی ماننے کے قابل ہو گا جب اُسے معلوم ہو گا کہ اللہ کا حُکم کیا ہے ۔ اللہ کے حُکم کو جاننے کے لئے اُسے قرآن الحکیم کو پڑھ کر اسکے معنی سمجھنا پڑیں گے ۔
قرآن شریف میں سب سے پہلی شرط اللہ کو یکتا معبود ماننے کی ہے ۔ مندرجہ بالایعنی محبوب یا معشوق وقتی اور محدود فائدہ والے لوگ ہیں ۔ معبود وہ ہوتا ہے جِسے دل اور عقل دونوں اپنا محبوب مانيں چنانچہ معبود کا درجہ محبوب یا معشوق سے بہت بُلند ہوتا ہے مگر معبود کے لئے مُسلم یا مُسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے کيا کرتے ہيں کبھی سوچا ہم نے ؟
چلئے ليلٰی مجنوں شيريں فرہاد کے تو پُرانے قصّے ہیں ۔ آجکل لوگوں کا عام طور پر رویّہ یہ ہوتا ہے کہ جس کسی سے کسی وقتی فائدہ کی اُمید ہو اُس کی خدمت کے بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں اور اُسے خوش رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش میں جو سب کو فائدہ پہنچانے والا ہے اور بے حساب فائدہ پہنچاتا ہے اُس کو بھول جاتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ ہم مُسلمان ہیں ۔
آج کے مُسلمان کا حال يہ ہے کہ تجارت ۔ لين دين ۔ انصاف ۔ رشتہ داروں سے سلوک ۔ محلہ داروں سے سلوک ۔ غريبوں يا مِسکينوں سے سلوک سب ميں اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے اصولوں کی بجائے صرف اپنی خودغرضی ياد رکھتا ہے ۔ يہ بھی خيال نہيں کرتا کہ اگر کوئی دوسرا اس کے ساتھ ايسا کرے تو وہ کيا محسوس کرے گا ۔ يہ کوتاہ انديشی ہے جسے ہوشياری سمجھ ليا گيا ہے ۔
اللہ ہمیں قرآن الحکیم کو پڑھنے ۔ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
ما شاء اللہ : )