خاور صاحب نے ايک تُمہيد کے بعد يہ سوال پوچھا ہے ۔ ” اس بيمارى كو پيدا كرنے والاكانٹا كہاں چُبھا ہے يا كتّا كہاں سے نكالنا چاہيئے ـ آپ سب مجھے بتائيں ـ سوال يہ ہے كہ ان رسوم كی پيدائش كی وجہ كيا ہے؟ ميرا يہ سوال خاص طور پر ہے اجمل صاحب ۔ ميرا پاكستان والے افضل صاحب ۔ جناب شيخو صاحب ۔ اپنا ڈيره والے منير احمد طاہرصاحب ۔ كيفے حقيقت والے ضياء صاحب سے”
منير احمد طاہر صاحب اظہارِخيال کر چکے ہيں ۔ ٹھيک ہی کہتے ہيں کہ ہمارے ملک ميں ہر چيز ہی اُلٹ ہے ۔
يہ ٹھيک ہے کہ مسئلہ بہت گھمبير ہو چکا ہے بلکہ دن بدن گھمبير تر ہوتا جا رہا ہے ۔ شيخ سعدی صاحب نے چھوٹی چھوٹی مگر بڑی فلسفيانہ کہانياں لکھی ہيں ۔ “ايک صبح ايک آدمی حکيم کے پاس جا کر پيٹ درد کی شکائت کرتا ہے ۔ حکيم پوچھتا ہے کہ رات کو کيا کھايا تھا ؟ مريض کہتا ہے کہ جلی ہوئی روٹی ۔ حکيم اپنے نائب سے کہتا ہے آنکھوں کا دارو لاؤ ميں اس کی آنکھوں ميں ڈالوں تا کہ يہ ديکھ کر روٹی کھايا کرے”۔
ايک اور چيز ہے کہ درخت کے پتے بيمار ہو جاتے ہيں تو اپنے لوگ پتوں پر ولائتی دوائياں چھڑکنا شروع کر ديتے ہيں يہ کوئی نہيں سوچتا کہ کيڑا درخت کے تنے ميں لگا ہے يا جڑوں کو ديمک چاٹ رہی ہے اور يہ کہ ديسی درخت ہے تو علاج بھی ديسی طريقہ سے ہو سکتا ہے ۔ ہماری قوم کی تمام بيمارياں غيرمُلکی جراثيم کا نتيجہ ہيں ۔ ديسی حکيم چاہے حکيم سعيد ہو ۔ ڈاکٹر غلام مرتضٰے ملک ہو يا ڈاکٹر عبدالقدير خان يا اُنہيں مار کے دفن کر ديتے ہيں يا زندہ درگور کر ديتے ہيں ۔
آپ کہيں گے کہ اِدھر اُدھر کی ہانک رہا ہے بتاتا نہيں کانٹا يا کُتا کہاں ہے ؟ غير مُلکی حکمرانوں کے مُلک چھوڑ دينے کے باوجود ان کی وضع کردہ لادينی تعليم يافتہ مسلمانوں کی اکثريت کو اپنے دين سے بيگانہ کر ديا تھا ۔ جس کے زيرِاثر وہ سمجھنے لگے تھے کہ اسلام موجودہ زمانہ کی ترقی کا ساتھ نہيں دے سکتا ۔ اسلئے وہ تغيّرپضير زمانہ کو اس کی خاميوں اور خرابيوں کے ساتھ قبول کرتے گئے ۔ تحريکِ پاکستان کی بُنياد بلاشُبہ اسلام تھا جس کا عينی گواہ ميں خود بھی ہوں ۔ بدقسمتی سے جو بحث پاکستان بننے کے اعلان کے بعد انہيں تعليم يافتہ ميں سے کچھ نے شروع کی تھی آج بھی جاری ہے کہ کيا پاکستان ايک سيکولر سٹيٹ ہونا چاہيئے تھی يا پھر اسے ہندوستان ميں بسنے والے مسلمانوں کيلئے عليحدہ مملکت ہونا چاہيئے ۔ يہ ايک بڑی غلطی ہے جس کا خميازہ قوم بھُگت رہی ہے ۔
چنانچہ يہ کانٹا غلام محمد اور اُس کے بابو ساتھيوں نے 1953 عيسوی میں چبھويا تھا ۔ اس کے بعدجس نے کانٹا نکالنے کے نام پر جراحی کی وہ تھوڑی سی روئی يا پٹی کا ٹکڑا يا جراحی کا اوزار اندر چھوڑ گيا ۔ آج کا نحيف مريض جب نوجوان اور توانا تھا کافی عرصہ تکليف برداش کر گيا ۔ رفتہ رفتہ زخم ميں پڑی پيپ کا زہر سارے جسم پر اثرانداز ہوا تو جسم لاغر ہوتا گيا اور تکليف بھی بڑھتی گئی ۔
دوسرے الفاظ ميں کُتا کنويں ميں پھينک ديا اور بعد ميں آنے والوں نے کُتے کو تو کنويں سے نہ نکلا البتہ پانی کے بوکے نکال نکال کر کنواں خشک کر ديا دوسرے مردہ کُتے کی سڑاند نے کنويں کو گندا بنا ديا ۔ جنابِ والا ۔ يہ مريض يا کنواں پاکستان ہے اور کاٹنا جو چبھويا گيا يا کتا جو گہرے کنوئيں ميں پھينکا گيا وہ اسے دينی اور دُنيوی عِلم سے دور کرنے کا عمل ۔
ہمارے ملک ميں تعليم کے ساتھ جو کچھ آدھی صدی سے ہوتا چلا آ رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ 1972 عيسوی تک تو صرف اتنا تھا کہ تعليم کی طرف توجہ نہ دی گئی مگر جو تھا وہ چلتا رہا ۔ گو دينی تعليم نہ ہونے کے برابر تھی ۔ 1972 تعليمی ادارے قوميا کر اعلٰی معيار قائم کرنے کے بہانے ان کا جو حشر کيا گيا وہ کسی دوشيزہ سے بدکاری کرنے سے کم نہ تھا ۔ اُس کے بعد دو معيار کے تعليمی ادارے بنانے کی حوصلہ افزائی کی گئی جو آج تک جاری ہے ۔ اس کا مقصد قوم کو دو طبقوں ميں تقسيم کرنا تھا ۔ حاکم اور محکوم ۔ سو يہ مقصد بڑے کرّوفر کے ساتھ حاصل کيا جا چکا ہے ۔
يہ کانٹا چبھونے کے بعد جراحی يہ ہوتی رہی کہ ايسے قانون اور اصول وضح کئے گئے جس کے نتيجہ ميں امير امير تر ہوئے اور متوسط طبقہ غريب ہوتا گيا اور اب معمولی استثنٰی کے ساتھ دو طبقے تقريباً بن گئے ہيں ۔ ايک بہت امير اور دوسرا غريب ۔ مگر اوّلالذکر طبقہ کی نقل ميں کچھ متوسط طبقہ نے اپنے لوازمات اپنی اوقات سے کہيں زيادہ بڑھا لئے ہيں جو اُنہيں بھی لوٹ مار پر اُکساتے رہتے ہيں ۔ علم سے بے بہرہ اور دين سے بيگانہ ہو کر اچھی زندگی گذارنے کے بہانے لوگ اپنے ہی بھائيوں کا گلا کاٹنے اور لوٹ مار ميں لگ چکے ہيں ۔ پہلے ہماری عِلمی حقيقتوں سے عاری اور فلمی دنيا ميں گُم رہنے والی قوم بے خيالی ميں ہندوانہ رسوم اپنائے جا رہی تھی اور ہمارے ملک کی آزاد خيال اين جی اوز اس سلسہ ميں اُن کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی تھيں ۔ اب موجودہ حکومت کی روشن خيالی نے وارے نيارے کر ديئے ہيں ۔ روشن خيالی کے نرغے ميں آئے ہوئے لوگ نہ صرف ہندوانہ اور مغربی رسوم اپنانا قابلِ فخر سمجھنے لگ گئے ہيں بلکہ رشوت اور لوٹ مار کو حق اور دھوکہ دہی و دوسری خرافات کو ہوشياری کا نام دے ديا ہے اور عُريانی اور جنسی اظہار کو ترقی کی نشانی قرار دے ديا ہے ۔
مثل مشہور ہے کہ آئينے ميں اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے اسلئے ہمارے حکمران جو عُلم کو اپنا غلام اور دِين کو اجنبی سمجھتے ہيں کو قوم کے مال پر عياشياں کرتے ہوئے سب عوام خوشحال نظر آتے ہيں ۔ جہاں تک قوم کا تعلق ہے کچھ کو لوٹ مار سے فرصت نہيں ۔ کچھ امير بننے کی دوڑ ميں سرگرداں ہيں اور کچھ ايک وقت کی روٹی مِل جانے کے بعد اپنے بچوں کے لئے دوسرے وقت کی روٹی کيلئے اتنے پريشان ہيں کہ گردوپيش کا ہوش نہيں ۔ نتيجہ ظاہر ہے کہ کوئی تحريک ظُلم اور اجاراداری کے خلاف نہيں اُٹھتی ۔
کانٹے يا کنويں کے کُتے کی نشاندہی ميں نے کر دی ہے ۔ کانٹا يا کُتا نکالا کيسے جائے ؟ يہ ايک تفصيلی موضوع ہے انشاءاللہ آئيندہ ۔
اجمل چچا
میں آپ کی بات سے 100 فیصد اتفاق کرتا ہوں اصل میں مہنگائی کی ہی اسی لیے گئی ہے تاکہ لوگ پیٹ پوجا سے فارغ ہی نہ ہو پائیں اور ہم اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے روشن خیالی کے جو بیج بو چکے ہیں ان کو تناور درخت بھی بنا سکیں۔۔
مسلہ تو وہیں کا وہیں رہا نہ۔ کیا ہماری بلاگنگ سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے؟ میں ایک عدد بلاگ بنانا چاہتا ہوں، لیکن میری تحریریں اتنی جاندار نہیں ہوتیں، اور میں اپنے خیالات کی تصویر تحریر میں صحیح نہیں ڈھال پاتا۔ میں آپ کو تو میل کر چکا ہوں، دوسرے تجربہ کار بلاگرز کی مدداور حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے۔۔
ياسر خان صاحب
ميں نے آپ سے پہلے بھی پوچھا کہ بلاگ بنانے ميں کوئی چيز مانع ہے تو بتائيے ہم اپنی خُداداد عقل کو استعمال ميں لا کر آپ کی مدد کی کوشش کريں گے ۔
جان ڈالنا اور نکالنا اللہ کا کام ہے يہ آپ اپنے ذمّہ لينے کی کوشش نہ کيجئے ۔ آپ لکھنا تو شروع کيجئے اللہ پر بھروسہ کر کے جب اللہ چاہے گا جان ڈال دے گا ۔ کوئی دقّت يا پريشانی ہے تو بندا حاضر ہے جو کچھ مجھ سے ہو سکا کروں گا ۔ تيرنا سيکھنے کيلئے پانی ميں اُترنا پڑتا ہے ۔