مزيد بابت خُدا حافظ اور عربی کا قصور ؟

سيّدہ مہر افشاں صاحبہ نے ميری تحرير پر تبصرا کرتے ہوئے لکھا “- – ليکن ايک بات ميری سمجھ ميں نہيں آتی جو اللہ حافظ کہنا چاہتے ہيں اُن پر اِتنی تنقيد اور جو خُدا حافظ کہنے کيلئے صفحوں پر صفحے سياہ کئے جاتے ہيں کيا وہ شدّت پسندی ميں مُبتِلا نہيں ہيں ؟ جب يہ طے ہو گيا کہ جس کو جو اچھا لگے وہ وہی کہے تو احمد بشير ۔ انتظار حسين اور دوسرے اُن جيسی سوچ رکھنے والوں کو کيا کہا جائے ۔ ۔ ۔ ؟ “

احمد بشير اور اِنتظار حسين صاحبان کے مضامين جن پر مہر افشاں صاحبہ نے رائے طلب کی ہے ميں نے اپنے بڑے بيٹے زَکَرِيّا کی تحرير پر سپاہی صاحب [sepoy] کے تبصرہ کے حوالہ سے پڑھے تھے ۔ ميں ايسے لوگوں کو بُرا نہيں کہتا کيونکہ اوّل تو يہ فرض اللہ نے مجھے تفويض نہيں کيا۔ دوم ۔ اگر ايسے لوگ نہ ہوتے تو ميرے دِل ميں عِلمِ دين کی جُستجُو کيسے پيدہ ہوتی؟ سوم ۔ اُنہيں بُرا کہنے سے اُن کا تو کُچھ نہيں بگڑے گا البتہ ميری زبان مَيلی ہو گی ۔

احمد بشير صاحب نے اللہ حافظ کہنے کی مُخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہيں کہ اُنہوں نے پاکستان ۔ برطانيہ ۔ متحدہ عرب امارات اور امريکہ کے کئی شہروں ميں بہت سے احباب سے ٹيلفون پر بات کی اور سب نے کلام کے اختتام پر اللہ حافظ کہا ۔ ثقافت اور رسم و رواج کے حامی جمہوريت کے دِلدادہ بھی ہوتے ہيں مگر سو فيصد جمہور کا فيصلہ احمد بشير صاحب نہ ماننے پر بضد ہيں ۔ پوٹھوہاری زبان کا ايک مقولہ ہے ” تُساں نا آکھا سِر مَتھّے اَساں نا پرنالہ اُتھے نا اُتھے” [ترجمہ: آپ کہتے تو صحيح ہيں مگر ہم وہی کريں گے جو ہم کر رہے ہے] مزيد احمد بشير صاحب فرماتے ہيں کہ “خُدا” فارسی کے لفظ “خُود” سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ہے “خُود بخُود پيدا ہوا “۔ سُبْحان اللہ ۔ ميں نے اپنی سابقہ تحرير ميں مثال دی تھی ” لکھے مُو سا پڑھے خود آ ” کو بنا ديا گيا “لکھے موسٰی پڑھے خُدا “۔ معلوم ہوتا ہے احمد بشير صاحب نے کہيں يہ پڑھ رکھا ہو گا ۔ ورنہ فارسی سے استنباط نہ کرتے ۔

اِنتظار حسين صاحب نے Prof Ralph Russell کی تحرير کی بنياد پر اُردو کے اعلٰی و عُمدہ ترين اداروں [مُقتدرہ قومی زبان پاکستان اور دارُالترجمہ عُثمانيہ يونيورسٹی حيدرآباد دکن بھارت] اور ان اداروں ميں کام کرنے والے عُمدہ اُردودانوں کو غلط قرار ديتے ہيں تو پھر اِنتظار حسين صاحب کے ساتھ بحث کرنے کی کون جُراءت کرے ۔ اِنتظار حسين صاحب کہتے ہيں کہ جب انگريزی سے اُردو ميں ترجمہ کرتے ہوئے عربی اور فارسی کے اُصُول اپنانا ہيں تو انہيں انگريزی ہی ميں رہنے ديا جاۓ ۔ جو شخص يہی بھول جائے کہ اُردو کے ماں باپ عربی اور فارسی ہيں اُسے کوئی کيا کہے ۔ مزيد خُدا حافظ کہنے کے متعلق احمد بشير صاحب کی تائيد ميں کہتے ہيں کہ ” خُدا ايک پاک نام ہے جسے مسلمان شعراء ۔ مفکّرِين اور عُلماء نے مذہبی احساسات اور سوچ کو جذب کر کے استعمال کيا ہے اور عام مسلمانوں کی مُجتمع سوچ بھی يہی ہے” ۔ يہ اِستدلال ميری سمجھ ميں نہيں آيا کہ سارے مذہبی احساسات اور سوچ صرف لفظ خُدا ميں کيوں کر جذب ہو کر رہ گئے اور لفظ اللہ ميں کيوں نہ ہو سکے ؟ احمد بشير اور اِنتظار حسين صاحبان کا يہ اِستدلال بھی صحيح نہيں کہ جنرل ضياءالحق کے دور ميں لوگوں نے اللہ حافظ کہنا شروع کيا ۔ کيا مارشل لاء کا کوئی حُکمنامہ تھا کہ سب اللہ حافظ کہيں ؟

حقيقت يہ ہے کہ لوگ پہلے بھی اللہ حافظ کہتے اور لکھتے تھے پھر جب 1970 عيسوی ميں پاکستان کی طِبّبی ۔ فنّی اور عسکری جماعتيں سرکاری طور پر عرب ملکوں کو لمبے دورانيوں کيلئے جانا شروع ہوئيں ۔ 1973 عيسوی سے مہنگائی اور بے روزگاری کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا گيا چنانچہ انفرادی طور پر بھی لوگوں نے عرب ممالک کا رُخ کيا جس کے باعث عربی کے کئی الفاظ اُردو ميں ضم ہوئے ۔ لوگوں نے اپنے بچوں کے نام بھی عربی ميں رکھنے شروع کئے ۔ کئی لوگوں کے تلفُّظ ميں بھی تبديلی آئی ۔ اس کے علاوہ عربی کھانے بھی پاکستان ميں رائج ہوئے مثلاً فُول مدمّس ۔ شورما ۔ جُبنہ بيضاء ۔ بقلاوہ وغيرہ ۔

ميری زندگی ميں کچھ لوگوں کا اس طرح کا رويّہ پہلا واقع نہيں ۔ اللہ جلِّ شانُہُ کی کرم نوازی ہے کہ مجھے بہت سے تجربوں سے گُذارا اور ثابت قدم رکھا ۔ اِن مخالف رويّوں بلکہ تجربوں نے اپنے مالک و خالقِ حقيقی کو پہچاننے ميں ميری مدد کی ۔ ميرا سب سے کٹھن وقت وہ تھا جب 51 سال قبل ميں گارڈن کالج راولپنڈی ميں ايف ايس سی کا طالب علم تھا اور بائبل کی کلاس ميں امريکن اُستاد کے مذہبی حملہ کے سامنے سوائے ايک طالب علم [مصطفٰے صدّيقی] کے ميرے سميت مسلمان کہلانے والوں کی پوری جماعت گُنگ ہو کر رہ گئی تھی ۔ اس حادثہ کے زيرِ اثر ميں نے انجيل مکمل [زبور ۔ تورات اور انجيل] کا اچھی طرح مطالعہ کيا پھر قرآن شريف سمجھنے کے پيچھے پڑ گيا ۔ اُن دنوں راولپنڈی ميں قرآن شريف کی اُردو ميں تفسير تو کيا مُستند دينی کُتب بھی ناياب تھیں چنانچہ ميں نے اچھے عالِموں کو ڈھونڈنے اور اُن سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ اس سعی ميں مجھ پر عياں ہوا کہ جو بہت سے لوگ بظاہر عالِم تھے اُن ميں حقيقی عالِم خال خال ہی تھے باقی اسلئے مسجد يا گدّی سنبھالے بيٹھے تھے کہ اُن کے بزرگوں کا يہی پيشہ انگريزوں کے وقت سے چلا آرہا تھا بہرحال کچھ عالِم مل گئے جنہوں نے ميرا قِبلہ درُست کيا ۔

اُنہی دنوں ايک ترقی پسند تحريک اُبھری جو اپنی چکاچوند کے باعث بہت جلد پھيل گئی ۔ ميں بھی اس ميں شامل ہو گيا ۔ اس کے رہبروں نے ترقی کے لبادے ميں اسلام کے بخيئے اُدھيڑنے شروع کئے تو اُن کی اصليت اُجاگر ہوئی ۔ 1956 عيسوی ميں انجنئرنگ کالج ميں داخل ہوا تو لاہور ميں مجھے کچھ مُستند دينی کُتب دستياب ہوئيں اور ميں نے انہماک کے ساتھ دين کو سمجھنا شروع کيا ۔ بعد ميں اپنی زندگی کے مراحل طے کرتے ہوئے کبھی اسلامی سوشلِزم کبھی ترقی پسند اسلام وغيرہ ديکھتا رہا اور اب ساڑھے چھ سال سے روشن خيال اسلام ديکھ رہا ہوں ۔

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

5 thoughts on “مزيد بابت خُدا حافظ اور عربی کا قصور ؟

  1. میرا پاکستان

    ماشااللہ معمول کي طرح آپ کي تحرير معلومات کا خزانہ ہے اور اميد ہے پڑھنے والوں کے علم ميں ضرور اضافہ ہو گا۔
    ہم اس بارے ميں ايک بات ذرا ہٹ کر کرنا چاہيں گے۔ موجودہ دور ميں مسلمان تنزلي کي جانب گامزن ہيں اور بڑي بڑي خرافات ميں اپنے آپ کر غرق کر چکے ہيں جن ميں اخلاقيات کي گراوٹ سب سے زيادہ ہے۔ تو کيا ان حالات ميں ضروري ہے کہ ہم اس طرح کي لاحاصل بحثوں ميں وقت ضائع کريں۔ آئيں کوشش کريں کہ اگر بحث کيلۓ موضوع پکڑنا ہي ہو تو وہ پکڑيں جس سے مسلمان ايک بار پھر دنيا اور آخرت دونوں ميں کامياب ہوں

  2. اجمل

    افضل صاحب
    آپ نے ٹھيک فرمايا کہ بحث ميں نہيں اُلجھنا چاہيئے ۔ اللہ تعالٰی نے بھی بحث ميں اُلجھنے سے منع فرمايا ہے

  3. Mehar Afshan

    Bahas say qata e nazar jab hum namaaz perhnay kharay howay to achanak hamaray dil main yeh baat aai kay namaz to saray musalman arabi main perhtay hain khowah woh koi zaban boltay hoon yani Allah ko yeh pasand hay kay sari dunia kay musalman is zaban main us ki ibadat kerain,phir yeh khayal bhi aaya kay Quran paak to hum urdu tarjuma kerkay perh laytay hain gokay us ka woh lutf jo Arabi jaan ker perhnay main hay woh naheen aata laikin phir bhi kuch asar to hota hi hay mager namaz main woh baat naheen aati jo aik arabi zaban bolnay or samajhnay walay ki ibadat main hoti ho gi, Nabi e paak kay mutabiq kay Quran perho to lagay kay tum per nazil ho raha hay or namaz perho to jano tum Allah say baatain ker rahay ho woh tumharay samnay mojod hay,
    Yani dunyawi faiday kay liay hum English seekhna zarori samajhtay hain to aakhrawi faiday kay liay Arabi seekhna us say ziada zarori hay,
    Ajmal sahab aap or Zakria is hawalay say apni raay dain to khoshi hogi,

  4. پاکی منڈا

    انکل اجمل میں آپ کا بلاگ پڑہتا ہوں۔ آپ کی ایک بہت اچھی عادت ہے، اور بعض اوقات یہ نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے کے آپ بات بہت جلد مان جاتے ہیں۔

    خیر بحث اچھی تھی۔۔ میرے بلاگ پر بھی ایک نظر ہو جائے میں ابھی نیا لکھنے والا ہوں۔۔
    http://www.pkblogs.com/pakimunda

  5. اجمل

    آپ ميرا بلاگ پڑھتے ہيں يہ ميری خوش نصيبی ہے اور اللہ سُبحانُہُ کا کرم اس کا سبب ہے ۔ آپ کہتے ہيں ميں بات بہت جلد مان جاتا ہوں جبکہ چند لوگ کہتے ہيں کہ ميں ضدّی ہوں ۔ اب ميں کيا کہوں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.