میں سوچا کرتا تھا کہ مسلمان تنزّل کا شکار کیوں ہیں جبکہ غیر مُسلم ترقی کر رہے ہیں ؟
مارچ 1983ء سے ستمبر 1985ء تک میں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا ۔ 1983ء میں جدید ٹیکنالوجی سے لَیس انسٹیٹوٹ کی منصوبہ بندی کے دوران متذکرہ بالا سوال نے میرا ذہن کئی دنوں سے پریشان کر رکھا تھا کہ ایک دن مجھے آواز آئی ” اگر تُو نے اللہ کے خوف کو دل میں بٹھا کر پڑھی تو وہ ہے تیری نماز“۔
بولنے والا میرا چپڑاسی محمد شکیل تھا جو چوتھی جماعت پاس سابق فوجی تھا ۔ اللہ کریم نے مجھے بابا شکیل کے ذریعہ وہ بات سمجھا دی تھی جو کوئی پڑھا لکھا مجھے نہ سمجھا سکا تھا ۔ بلا شُبہ بابا شکیل دُنیاوی عِلم اور مال سے محروم تھا لیکن اللہ نے اُسے دینی عِلم و عمل سے مالا مال کر رکھا تھا
اللہ سُبحانُہُ و تَعالٰی نے ہمیں ایک راستہ دِکھایا [صِراطُ المُستَقِیم] اور ہدائت کی کہ ہمارا کھانا ۔ پینا ۔ اُٹھنا ۔ بیٹھنا ۔ سونا ۔ جاگنا ۔ مِلنا ۔ جُلنا ۔ اِخلاق ۔ لین ۔ دین ۔ کاروبار غرضیکہ ہر عمل دین اِسلام کے مطابق ہونا چاہیئے ۔ ویسے تو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں کہتے ہیں ِاھدِنَا صِرَاطَ المُستَقِیم یعنی دِکھا ہم کو راہ سیدھی جو کہ ایک ہی ہو سکتی ہے لیکن اپنی عملی زندگی میں ہم نے تین راستے بنا رکھے ہیں ۔
1 ۔ خانگی یا خاندانی معاملات کو ہم ایک طریقہ سے حل کرتے ہیں ۔
2 ۔ دفتر یا کاروبار کے معاملات کو ہم کسی اور نظریہ سے دیکھتے ہیں ۔
3 ۔ دین کو ہم نے بالکل الگ کر کے مسجد میں بند کر دیا ہے اور مسجد سے باہر صرف کسی کی موت یا نکاح پر استعمال کرتے ہیں ۔
ہماری حالت اُس شخص کی سی ہے جو ایک مقام سے ایک سِمت چلا ۔ بعد میں اُسے ایک اور کام یاد آیا ۔ چونکہ دوسرے کام کا راستہ مختلف تھا چنانچہ وہ واپس ہوا اور دوسرے کام میں لگ گیا ۔ پھر اُسے تیسرا کام یاد آیا اور اِس کا راستہ پہلے دو کاموں سے مختلف تھا چنانچہ وہ پھر مُڑا اور تیسرے کام کی طرف چل دیا ۔ اِس طرح وہ جس مقام سے چلا تھا اُسی کے گرد مُنڈلاتا رہا اور کسی سمت میں زیادہ پیشقدمی نہ کر سکا ۔
متذکّرہ بالا آدمی کے بر عکس ایک شخص نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سارے کام ایک ہی طریقہ سے سرانجام دے گا چنانچہ وہ ایک ہی سِمت میں آگے بڑھتا گیا اور بہت آگے نکل گیا ۔ ملاحظہ ہوں دونوں صورتیں علمِ ہندسہ کی مدد سے ۔
غیرمُسلموں نے دین کو چھوڑ دیا اور اپنے خانگی اور کاروباری معاملات کو صرف نفع اور نقصان کی بُنیاد پر اُستوار کیا اور آگے بڑھتے چلے گئے گو دین کو چھوڑنے کے باعث اخلاقی اِنحطاط کا شکار ہوئے ۔ جب کہ بے عمل مسلمان نہ دین کے رہے نہ دُنیاوی کاموں میں ترقی کر سکے ۔ بقول شاعر ۔
نہ خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ۔ ۔ ۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ۔
بلکل بجا فرمایا ہے آپ نے ۔۔۔ واقعی راستہ صرف ایک ہی ہے اب یہ انسان پر ہے کہ وہ کس طرح اس راستے پر چلتا ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق اور ہمت دے ۔۔۔۔ آمین
Aap bhopali, main bhi bhopali. I live in Bhopal (india).
منير احمد طاہر صاحب
ميں بھی آمين ثم آمين کہتا ہوں
اِنڈِ سکرائب صاحب
ميں بھوپال ہوں بھوپالی نہيں ۔ بھوپال ايک قبيلہ ہے مگر ہو سکتا ہے اس کا بھوپال رياست سے کوئی تعلق ہو
بہت اعلی تجزیہ ۔
کامیابی اسی سے ملے گی۔
حقیقت میں دین اور دنیامیں کوئی تفریق نہیں۔
زندگی کے ہر کام کو اسلام کے بتائے ہوئے طریقے سے سرانجام دینا ہی دین ہے۔
راجہ صاحب
پسند کا شکريہ ۔ ميں سوچاکرتا تھا کہ پانچ وقت نماز پڑھتے ہيں اور ہيرا پھيری بھی کرتے ہيں ۔ پھر سمجھ آئی کہ اُن کی نماز خالص اللہ کيلئے نہيں ۔
ما شاء اللہ ۔۔۔ ہمارا سب کچھ دین کے ساتھ جڑا ہے تمام معاملات میں رہنمائی موجود ہے۔ تو منزل کی سمت سفر رکھیں
کھول ہوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کوایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہپہلی سیڑھی پر قدم۔رکھ آخری سیڑھی پہ آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں اک پل نہ ہو
جزاک اللہ