زَکَرِيَّا نے آخر ميں پوچھا ہے “یہ فرق پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے جب اسلام کے اصولوں کے تحت ایک ہی خدا ہے۔ کیا اس سے فرق پڑتا ہے کہ ہم اسے اللہ کہیں یا خدا یا God ؟ آپ کا کیا خیال ہے؟ ”
چونکہ يہ صلاحِ عام کا معاملہ ہے اس لئے ميں نے اِس کی وضاحت ضروری سمجھی ۔ قارئين سے درخواست ہے کہ اگر اس سلسلہ ميں مزيد مُستند معلومات رکھتے ہوں تو مجھے مُستفيد فرمائيں ۔ شکريہ پيشگی ۔
ہمارے مُلک ميں آج سے 34 سال قبل تک سکولوں اور کالجوں ميں امتحان ميں نمبر لينے کے علاوہ طُلباء اور طالبات کو معلوماتِ عامہ اور تاريخی حقائق سے بھی روشناس کرايا جاتا تھا ۔ معلوماتِ عامہ کے امتحان بھی ہوا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ فرسٹ ايڈ ۔ رضاکارانہ خدمت اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کی تربيت دی جاتی تھی ۔ طلباء اور طالبات کو اساتذہ ہدايت کرتے تھے کہ وھ نصابی کُتب کے علاوہ ہم نصابی اور غير نصابی عُمدہ کُتب کا مطالعہ بھی کيا کريں ۔ 1972 عيسوی ميں تعليمی اصلاحات کے نام پر تعليم کا ستيا ناس شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ۔ ترقی کے نام پر جائزوناجائز مُختصر راستے [short cut] نکال لئے گئے ۔ اب لوگ ڈِگريوں کے حامل تو بن جاتے ہيں مگر تعليم يافتہ نہيں ہو پاتے سوائے اُن چند کے جنہيں خود علم حاصل کرنے کا شوق ہو ۔ فی زمانہ ناول اور ديگر فرضی کہانياں تو بہت پڑھی جاتی ہيں مگر اور تو کُجا نصابی کُتب کو بھی مکمل طور پر پڑھنے کی بجائے Notes پڑھ لئے جاتے ہيں ۔ البتہ بوجوہ يا بلاوجہ تنقيد کا عام رواج ہے ۔ مگر حال ” خود مياں فصيحت دِيگراں را نصيحت” والا ہے ۔
اللہ کو کسی اچھے نام سے پکارنے سے منع کرنا غَلَط ہے ۔اِس سلسلہ ميں ايک واقعہ ۔ حضرت موسٰی عليہ السّلام چلے جا رہے تھے کہ اُنہوں نے سُنا ايک گڈريا کہہ رہا تھا ” ميرے پيارے اللہ اگر تو ميرے پاس آئے ۔ ميں اپنی بکری کے دودھ سے تمہارا سر دھوؤں ۔ تمہارے سر سے جوئيں نکالوں اور تمہارے بالوں ميں کنگھی کرکے مِينڈِياں بناؤں”۔ اُس اَن پڑھ گُڈريئے کيلئے سب سے اچھی بات يہی تھی ۔ حضرت موسٰی عليہ السّلام نے اُسے ناراض ہو کر منع کيا اس پر اللہ تعالٰی کیطرف سے وحی نازل ہوئی “نہ منع کر ميرے بندے کو ۔ وہ جس طرح مجھے پُکارتا ہے پُکارنے دے” ۔ سُبْحَانَ اللہ ۔
اب آتے ہيں لفظ “خُدا” کے ماخذ اور استعمال کی طرف ۔ خُدا کا مطلب آقا يا حاکم ہے ۔ اِس سے مِلتا جُلتا عربی زبان کا لفظ “مولا” ہے ۔ ايک دلچسپ واقعہ ۔ ميں اور ايک پاکستانی ساتھی طرابلس[ليبيا] کے ايک بازار ميں جارہے تھے ۔ ايک لِيبی ايک دُکان کے سامنے کھڑا بلند آواز ميں کہہ رہا تھا ” اَينَ مَولا ؟ اَينَ مَولا ؟” ميرا ساتھی استغفار پڑھنے لگ گيا ۔ ميرے پوچھنے پر کہا ” کتنا بدتميز ہے ۔ کہہ رہا ہے اللہ کہاں ہے ؟ ” دراصل وہ لِيبی کہہ رہا تھا کہ دُکان کا مالک کہاں ہے ؟
لفظ ” اِلَہ” اور اللہ قديم زمانہ سے ہيں اللہ اور اِلَہ اٰلِ ابراہيم ميں استعمال ہوتے آئے ۔ عربی زبان ميں بھی آئے اور قرآن شريف ميں لکھے گئے ۔ اِلَہ کے معنی معبود کے ہيں يعنی جس کی عبادت کی جائے ۔ اللہ اِس کی تخصيص ہے يعنی صرف ايک معبود ۔ چنانچہ اللہ صرف مالک و خالقِ حقيقی کيلئے استعمال ہوتا ہے جو ايک اور يکتا ہے ۔ اُردو سے پہلے ہندوستان ميں فارسی رائج تھی ۔ لفظ خُدا فارسی کا نہيں بلکہ قديم يونانی زبان کا لفظ ہے جو فارسی اور پھر اُردو میں مُستعمل ہوا ۔ اُردو نئی زبان تھی جو تُرکی ۔ فارسی ۔ عربی ۔ سنسکرت اور گورمُکھی کا آميزہ تھی ۔ ميں اِس وقت کوئی دستاويزی ثبوت مہيّا نہيں کر سکتا مگر ميں نے يہ سب کچھ مُستند کُتب ميں پڑھا ہوا ہے ۔ خُدا يا god دوسرے بھی ہو سکتے ہيں ۔ انگريزی ميں تو اللہ کيلئے capital G لکھ کر اللہ کيلئے God اور اُن کے دوسرے خُداؤں کيلئے god لکھ کر ان ميں فرق پيدا کر ديا گيا ليکن اُردو ميں ايسا نہيں ہے ۔
پاکستان بننے سے پہلے ہی لفظ خُدا کے کئی اور استعمال شروع ہو چکے تھے مثلاً مجازی خُدا ۔ ناخُدا ۔ کتخُدا ۔ ايک ضرب المِثل “لکھے مُو سا پڑھے خود آ ” مطلب يہ کہ بالوں کے گُچھے يعنی کاڑا باڑا لکھے تو پھر لکھنے والا خود ہی آ کر پڑھے ۔ کو بنا ديا گيا “لکھے موسٰی پڑھے خُدا “۔ پاکستان بننے کے بعد سنسکرت اور گورمُکھی کے الفاظ کی جگہ عربی کے الفاظ کو فروغ حاصل ہوا ۔ يہ کوئی سوچی سمجھی تبديلی نہ تھی بلکہ غير محسوس طور پر ہوتی چلی گئی ۔ لفظ خُدا کی نسبت اللہ کا استعمال بھی زيادہ ہوا مگر لفظ خُدا بولا جاتا رہا ۔ ايک وقت آيا کہ اپنے آپ کو ترقی پسند کہنے والوں نے لفظ خُدا کا غَلَط استعمال شروع کيا اور انتہائی لَغو شاعری بھی کی گئی ۔ [ميں زيادہ لکھ کر اپنا دماغ پراگندہ نہيں کرنا چاہتا] ۔ اُن دنوں اللہ لکھنے کی تحريک اُٹھی اور کافی حد تک لوگوں نے اُسے قبول کيا ۔ ميں بچپن سے ہی “خُداحافظ” کے علاوہ زيادہ تر اللہ کہتا تھا ۔ جب پرويز مشرف کا دور شروع ہوا اور ہر طرف دين بيزار اور شُترِ بے مہار ثقافت کا دور دورہ شروع ہوا تو مُجھے گذشتہ ترقی پسند دور کی ياد آئی اور ميں نے خُدا حافظ کی جگہ بھی اللہ حافظ کہنا شروع کر ديا ۔
عربی زبان سے مسلمانوں کا لگاؤ عين فطری ہے ۔ پھر ايک زمانہ تھا آج سے 50 تا 70 سال قبل جب بہترين انگريزی ناولوں ميں عربی کے کئی الفاظ استعمال کئے گئے مثلاً اھلاً و سہلاً ۔ مرحبا ۔ معليش ۔ کتر خيرک وغيرہ ۔ عربی زبان کے لفظ دوسری زبانوں ميں بھی ہيں مثلاً تُرکی ۔ جرمن ۔ ہسپانوی ۔
يہ بات غور طلب ہے کہ اللہ سُبْحَانُہَ و تعالٰی نے فرمايا ہے کہ مجھے ميرے اچھے ناموں سے ياد کرو ۔ اللہ تعالٰی کے نام قرآن شريف ميں مرقوم ہيں ليکن لفظ “خُدا” قرآن شريف ميں مرقوم نہيں ہے حالانکہ قرآن شريف ميں کئی ايسے الفاظ ہيں جو عربی زبان کے نہيں ہيں ۔ اِس کی وجہ شائد اُن کا عام فہم ہونا ہی ہے ۔ ويسے بھی ديکھا جائے تو جو بات قرآن شريف ميں مرقوم ہے وہ افضل ہے ۔ اس لئے اللہ حافظ کہنا افضل ہے خُدا حافظ کہنے سے ۔ ليکن خُدا حافظ کہنا معيوب يا قابلِ مذمّت بالکل نہيں ۔
وما علينا الالبلاغ ۔ اللہ سُبْحَانُہَ و تعالٰی ہميں دين اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے ۔ آمين ۔
Jazak Allah Ajmal sahab aap nay bohat achay tareeqay say is baat ki wazahat ki hay,
laikin aik baat meri samajh main naheen aati jo Allah hafiz kahna chatay hain unper itni tanqeed or jo khuda hafiz kahnay kay liay safhon per safhay siah kiay jatay hain kia woh shidat pasandi main mubtila naheen hain jab yeh tay ho gaya kay jis ko jo acha lagay woh wahi kahay to Ahmad basheer Intizar Hussain or dosray un jaisi sonch rakhnay walon ko kia kaha jaay………..
مہر افشاں صاحبہ
شکريہ ۔ اللہ آپ کو جزائے خير دے ۔ آپ کی تحرير کا مکمل جواب انشاء اللہ جلد مگر اس جگہ کی بجائے پوسٹ کی صورت ميں
منر احمد طاہر صاحب
شکريہ ۔ جزاک اللہِ خيرً
سبحان اللہ جناب اجمل صاحب ۔۔۔۔ نہایت ہی خوبی سے تعمیری باعث کی ہے آپ نے ۔۔۔۔ میں آپ سے متفق ہوں کہ خداحافظ کہنے میں کوئی حرج نہیں، مگر اللہ حافظ کہنا زیادہ افضل ہے۔ ویسے میری یہ شروع سے ہی عادت رہی ہے کہ میں اللہ حافظ ہی کہتا اور لکھتا ہوں۔
جناب، میرے علم میں لفظ “مُطالِعَہ” ہے، لیکن لفظ مطالع غالباً نظر سے نہیں گذرا۔
اسی طرح واقع یعنی “سِیچُوئِیٹیڈ” اور واقعہ یعنی “اِنسِی ڈِینٹ”۔ براہ ِ کرم تصدیق کریں۔
آپ نے بہت اچّھے پیرائے میں یہ نازک موضوع چھیڑا ھے۔
اگر ھم انگریزی میں دین کی تعلیم دینا چاہیں تو اسے “گَوڈ” بلائیں گے۔
اگر ھم عربی میں دین کی تعلیم دینا چاہیں تو اسے “الٰہ” یعنی معبود کہیں گے۔
اسی طرح جب اردو کی بات آئے گی تو ہم اسے خدا کہیں گے۔
یہاں یہ تمام الفاظ اپنی اپنی زبان سے تعلّق رکھتے ہیں نہ کی اللّہ کی وحدانیت سے۔
میرے محدود معلومات میں، خود عربی میں خدا کیلئے لفظ “الٰہ” بھی ہے۔ اسی لئے کلمۂ طیّبہ میں “لا الٰہَ اِلّا اَللّہ” آتا ھے۔
لَا = نہیں، الٰہَ = مَعبود، اِلّا = سِوا، اللّہ = اَللّہ
لہٰذا، اللّہ ایک اسم ِ خاص ہے، اور اس کا متبادل اور زبانوں میں قطعی نہیں ھے۔
وہیں ایک مومن کا معبود کیلئے اپنی/کسی زبان میں مروّج لفظ کا استعمال اللّہ ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یہ زبان کا لحاظ ھے نہ کہ نیّت کی کھوٹ، جس طرح “دین و دنیا” میں ھم لفظ دین سے مراد “دین ِ اسلام” لیتے ہیں۔
میں زکریّا صاحب سے “خدا حافظ” کے معاملہ میں قدرے متّفق ہوں؛
جس طرح “فِی اَمان اللّہ” کو “فِی اَمان خُدا” کہنا نا معقول ہوگا، اسی طرح “خدا حافظ” کو “اللّہ حافظ” کہنا بھی تنگ نظری سے کم نہیں۔
بہ دل ِ نخواستہ پوچھنا پڑتا ھے کہ جب مسلمان “تَھینک یُو” کہتے ہیں تو کیا وہ شِرک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
آخر میں صرف یہ کہنا چاھوں گا کہ اردو پر یہ جبر شاید ھم اس لئے کررہے ہیں کہ صرف یہی چیز ھمارے بَس میں ھے!
اُردودان صاحب
الفاظ کی تصحيح کا شکريہ ۔ ميرا خيال ہے ميرے کليدی تختہ کی “ہ” والی کليد کمزور ہو گئی ہے ۔ اب اسے زور سے دبايا کروں گا ۔
آپ نے صحيح فرمايا ۔ اِلَہ کا مطلب معبود ہے اور انسان شيطان کے کہے ميں آ کر معبود غلط بھی بنا ليتا ہے ليکن اللہ صرف ايک ہے ۔ جہانتک اللہ حافظ کہنے کا تعلق ہے يہ ارادتاً کی نسبت غيرارادی طور پر زيادہ ہوا ہے ۔ اس سلسلہ ميں ميری آج کی تحرير ميں مزيد وضاحت ہو جاتی ہے ۔ ويسے تو اُردو پر بہت جبر بلکہ تشدّد ہو رہا ہے ليکن يہ اُس ميں شامل نہيں ۔
اس بارے میں میرا تبصرہ آپ میرے بلاگ پر دیکھ سکتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ ارادی ہوا ہے یا غیرارادی مگر پچھلے کچھ سالوں میں اللہ حافظ نہ ہونے سے بڑھ کر مکمل طور پر حاوی ہو گیا ہے۔
دوسرے میں کئی لوگوں کو سم چکا ہوں کہ دوسروں کو خدا کا لفظ استعمال کرنے سے منع کر رہے ہوتے ہیں۔
ہم اردو دان کے خيالات کي تائيد کرتے ہيں ۔ جہاں تک ہميں ياد ہے پاکستان میں لوگوں نے کوئي بيس سال پہلے اللہ حافظ فيشن کے طور پر استعمال کرنا شروع کيا جو بعد ميں ايک تحريک کي شکل اختيار کرگيا۔
Main samajhti hoon kay ager Waldain ya buzurg apnay bachon ko Khuda ki jagah Allah kahnay ki talqeen kertay hain to yeh koi aisi mayoob baat naheen hay kay isay issue bana lia jaay or is per narazgi ya napasandedgi ka izhaar kia jaay
زکريا بيٹے
جيسا کہ ميں نے لکھا ہے خُدا کا مطلب حاکم يا آقا ہے ۔ تو اللہ کو حاکم يا آقا کہنا غلط تو نہ ہو گا ۔ میں نے يہ بھی لکھا ہے کہ خُدا حافظ کہنے سے روکنا نہيں چاہيئے ۔
افضل صاحب
يہ ٹھيک ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک ميں ہر چيز فيشن کے طور پر اپنائی جاتی ہے ۔
مہر افشاں صاحبہ
اپنے بچوں کی تربيت اور دوسروں کو تلقين کرنے ميں فرق ہے ۔ خوامخواہ دوسرے کو ٹوکنا اچھی بات نہيں ۔
مہر افشاں صاحبہ
ميرے بيٹے زکريا کی عادت اللہ نے تقريباً ميری طرح ہی بنائی ہے اور اس ميں ميرا بھی قصور ہے ۔ نوجوانی ميں ميں بھی اسی طرح براہِ راست بات کيا کرتا تھا اور بعض اوقات اپنی معلومات کی خاطر حقيقت کا اُلٹ کہتا تھا ۔ والدين اور اولاد کے تعلق کو ميں بھی ذاتی سمجھتا ہوں ۔
ابو: آپ کے لئے میں نے اپنے بلاگ پر لغت سے کچھ چیک کیا تھا۔ باقی کا تبصرہ یہاں مہر افشاں کے لئے ہے۔
مہر افشاں: معلوم نہیں آپ والدین اور اولاد کا ذکر کیوں کر رہی ہیں۔ ان کا تعلق فرق ہوتا ہے۔ یہاں تو عام لوگوں کی بات ہو رہی تھی جو خدا کہنے سے ٹوکتے ہیں۔
Ji Zakaria kion kay hum apnay bachon ko aisa kernay kay liay kahtay hain,baqi dosron ko bhi ager narm alfaaz main kaha jaay to koi muzaiqa naheen hay(hamaray khayaal main)kion kay yeh to sabit ho hi gaya hay kay Allah ko Allah pukarna usay pasand hay,jis ka suboot kalmaae tayaba hay,
اوپر جو تبصرہ گمنام ہے وہ میرا ہے۔ معلوم نہیں میرا نام کیوں نہیں لکھا آیا حالانکہ میرا بلاگ کا ربط بھی موجود ہے۔
مہر افشاں: یہ بالکل ثابت نہیں ہوا۔ عربی انسانوں کی زبان ہے اور قرآن عربی میں اس لئے ہے کہ وہ عربوں میں نازل ہوا۔ اسی طرح تورات اور انجیل دوسری زبانوں میں۔ اسی لئے ان میں اللہ کی بجائے اور الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی کوئی زبان نہیں ہے بلکہ وہ انسانوں کو سمجھانے کے لئے ان کی زبان استعمال کرتا ہے۔
زکريا بيٹے
وہ ميں نے کل صبح سويرے پڑھ ليا تھا ليکن مجھے راولپنڈی جانا تھا اسلئے جواب نہ لکھا ۔
Zakria hum is bahas main naheen perna chahtay ager aap kay nazdeek yeh sahi hay to aap kay liay yahi sahi hoga or hamaray liay jo sahi hay woh hamaray liay sahi hoga, kion kay is say hamaray ya aap kay deen per koi asar naheen perta,haan hum is baat say itifaaq kertay hain kay Allah ki koi zabaan naheen or her zabaan Allah hi ki hay(yani wahi unka takhleeqkaar hay),
Ajmal sahab hum nay Zakria ki kisi baat ka bura naheen mana, hamaray baray humain yeh moqa detay thay kay jo tumhain sahi lagay zaroor kaho to humain apnay choton ko bhi yeh haq zaroor dena chahiay:)
Waisay humnay aik hadees perhi thi kay Aap SAAWW nay fermaya, jab Allah Taala kisi baat ki wahi kerta hay to kalaam kerta hay jis kay roob o haibat say aasmaano main bhonchaal or kapkapi ki kafiat paida hojati hay phir jab aasmaan walay(Ferishtay) suntay hain to bayhoosh hoker sijday main gir pertay hain sab say pahlay Hazrat Jibraeel sar uthatay hain un say Allah Taala apni wahi main say jo chahita hay guftugu fermata hay phir woh tamaam Farishtoon per say guzartay hain Farishtay pochtay hain hamaray Rab nay kia fermaya woh kahtay hain Haq fermaya or wahi buland martaba or bara hay,sab Farishtay yahi kahtay hain phir Jibraeel us wahi ko jahaan Allah Izojal ka hukum hota hay pohnchatay hain,
Yeh hadees mustanad hay,
is say yeh to pata chalta hay kay Allah paak kalaam kertay hain,mager kis zabaan main kertay hain yeh hum naheen jantay,