گمان غالب ہے کہ 12 ربیع الاوّل 1427 کو نشتر پارک میں ہونے والا سانحہ ہر لحاظ سے پہلا سانحہ ہے ۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں آج تک میلاد النّبی صلّی اللہ علیہ و سلّم کے دن کبھی قتلِ عام نہیں ہوا اور اس سے بڑا ظُلم کیا ہو گا کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی عبادت میں مشغول لوگوں کا قتلِ عام ۔ اگر اُن میں گناہ گار بھی تھے تو اُس وقت وہ اللہ کے دربار میں حاضر تھے ۔ اس سانحہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔ جس کسی نے بھی ظُلم کیا ہے وہ میرے خیال کے مطابق مُسلمان ہو ہی نہیں سکتا اور انتہائی درندہ صفت انسان ہے یا ہیں ۔ اللہ الرّحمٰن الرّحیم ہلاک ہونے والوں کی بخشش کرے اور اُن کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے ۔ آمین ۔
ماؤں پہ کیا گذری ہو گی جب اُنہوں نے اپنے خوشی خوشی رُخصت کئے ہوئے جگر گوشوں کی خون میں لت پت لاشیں دیکھی ہو ں گی ؟ بیویوں کے دِلوں پر کیسے کیسے خنجر چل گئے ہوں گے جب اُن کے سروں کے صاحب رضاکاروں نے لا کر اُن کے سامنے ڈھیر کر دیئے ہوں گے ؟ اُن نونہالوں کا کیا حال کیا ہوا ہو گا جن کی ننھی ننھی خواہشیں پوری کرنے والے ابّوُ نہ اب اُن سے بات کریں گے نہ اُن کو کہیں نظر آئیں گے ؟ ایک ایک کی طرف خیال جاتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔
لیکن ہمارے ملک میں عجیب عجیب قسم کے لوگ بستے ہیں ۔ کم از کم 50 انسان مر گئے یعنی 50 گھر اُجڑ گئے اور سینکڑوں بچے یتیم ہو گئے ۔ بجائے مرنے والوں کے بیوی بچوں کی ڈھارس بندھانے کے اُلٹا اُن کے زخموں پر نمک چھِڑک رہے ہیں ۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سب دہشت گرد تھے ۔ اُن کے خیال میں گویا اچھا ہوا کہ مر گئے ۔ ایک اسے جماعتِ اسلامی اور جمیعت عُلمائے اسلام کا کام کہتے ہیں ۔ سندھ کی حکومت نے تو حکومتِ پاکستان سے مطالبہ بھی کر دیا ہے کہ جماعتِ اسلامی دہشت گردوں کی جماعت ہے اسلئے اس پر فوراً پابندی عائد کی جائے ۔
مجھے جماعتِ اسلامی یا جمیعت عُلمائے اسلام یا سنّی تحریک سے کوئی دلچسپی نہیں مگر انسانوں کی اس طرح ہلاکت اور وہ بھی ناکردہ گناہ پر انسانی ہمدردی کا تقاضہ کرتی ہے ۔
Here are some links that I believe will be interested