آج کے دن 1940 عیسوی میں لاہور میں اُس مقام پر جہاں آجکل مینارِ پاکِستان ہے برِّ صغیر ہندوپاکستان کے مُسلمانوں نے قراردادِ مقاصد منظور کی جو قراردادِ پاکِستان ثابت ہوئی اور 14 اور 15 اگست 1947کی درمیانی شب 11 بج کر 57 منٹ پر پاکِستان بن گیا ۔ الحمدللہ ۔ پاکستان کو سنوارنا ہمارا کام ہے جس میں ہم ابھی تک ناکام ہیں ۔ نئی نسل کو بالخصوص اس کے لئے محنت کرنا چاہیئے ۔ مُسلمانوں نے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت “خلافتِ عُثمانیہ” دین سے دور ہو کر اپنی عیّاشیوں کے باعث ہی کھوئی تھی ۔ اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔دسویں جماعت پاس کرنے تک مجھے یہی معلوم تھا کہ پاکستان کا نام علّامہ اقبال نے تجویز کیا تھا ۔ بعد میں چوہدری رحمت علی کا نام لیا جانے لگا ۔ کالج کے زمانہ میں چوہدری رحمت علی میرے لئے ایک ہیرو تھے کہ انہوں نے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا ۔ چنانچہ مجھے چوہدری رحمت علی کے متعلق پڑھنے کا شوق ہوا جس نے مجھے تحریک پاکستان کی تاریخ کی طرف راغب کیا اور مندرجہ ذیل حقائق اُجاگر ہوئے ۔
تحریک خلافت (1919 ۔ 1924 عیسوی) کے دوران ہندؤں کی عہد شکنی کے باعث مسلمانوں کو اپنی جداگانہ حیثیت کا احساس ہو گیا تھا ۔ نومبر 1930 عیسوی میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس کے صدارتی خطبہ میں علّامہ محمد اقبال نے کہا کہ انڈیا کے اندر مسلم انڈیا کے قیام کا ہر ممکن جواز موجود ہے ۔ میرے نزدیک برٹش امپائر کے اندر یا باہر ایک ایسی خود مختار مربوط مسلم ریاست کی تشکیل کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدّر بن چکی ہے ۔ اس طرح مسلم ریاست کا ایک نامکمل نقشہ تو علّامہ نے پیش کر دیا لیکن اس وقت کوئی نام تجویز نہ ہوا ۔
اس زمانہ میں جو ہندوستانی مسلمان انگلستان میں زیرِ تعلیم تھے وہ اپنے لیڈروں کی ہر بات پر غور و عمل کرتے تھے ۔ ان میں محمد اسلم خٹک ۔ پیر احسن الدین ۔ چوہدری رحمت علی ۔ خواجہ عبدالرحیم اور محمد جہانگیر خان معروف ہیں ۔ محمد جہانگیر خان اس اِنڈین کرکٹ ٹیم کے رُکن تھے جس نے 1932 عیسوی میں انگلستان کا دورہ کیا تھا اور تعلیم کی خاطر وہ وہیں رُک گئے تھے ۔ اِن لوگوں کی جد و جہد کے عینی شاہد میاں عبدالحق تھے جنہوں نے اس زمانہ میں انگلستان کا دورہ کیا تھا ۔ ان کے جون 1970 عیسوی میں ندائے ملت لاہور میں چھپنے والے ایک مضمون سے اقتباس ۔
“ 1932 کی ایک شام چوہدری رحمت علی ۔ پیر احسن الدین اور خواجہ عبدالرحیم دریائے ٹیمز کے کنارے سیر کر ہے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کی بات چل نکلی ۔ خواجہ عبدالرحیم نے تجویز پیش کی کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا جائے جس میں پنجاب سندھ سرحد بلوچستان اور کشمیر شامل ہوں اور اس کا نام پاکستان رکھا جائے ۔ وجہ تسمیہ یہ بتائی کہ پے پنجاب سے الف افغانیہ [صوبہ سرحد] سے کاف جموں کشمیر سے سین سندھ سے اور تان بلوچستان سے ۔ اس تجویز پر تبادلہ خیال ہوا اور طے پایا کہ یہ تجویز علامہ محمد اقبال جو ان دنوں لندن گئے ہوئے تھے کی خدمت میں پیش کی جائے ۔ اس سے چوہدری رحمت علی سمیت کیمبرج میں زیر تعلیم سب ہندوستانی مسلمانوں نے اِتفاق کیا تھا ۔ بعد میں کیمبرج کے ہندوسانی مسلمان طلباء نے اب یا کبھی نہیں کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا جس میں ہندوستان میں الگ مسلمان ملک کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا اور اس کا نام پاکستان بھی تجویز کیا گیا تھا ۔ اس کتابچے کی تالیف چوہدری رحمت علی سے کروائی گئی ۔ اس کتابچے پر دستخط کرنے والوں میں محمد اسلم خٹک ۔ چوہدری رحمت علی ۔ عنائت اللہ خان اور محمد صادق مانگرول شامل ہیں ۔ خواجہ عبدالرحیم چونکہ ہندوستان کی انگریزی حکومت کے ملازم تھے اسلئے اپنی ہی تجویز پر انہوں نے دستخط نہ کئے ۔”
بعد میں چوہدری رحمت علی نے اپنے طور پر برصغیر میں آٹھ دس ریاستیں ان ناموں سے تجویز کیں ۔ صدیقستان ۔ فاروقستان ۔ عثمانستان ۔ سیفستان ۔ ناصرستان ۔ موپستان ۔ راجستھان ۔ بنگستان ۔
محمد اسلم خٹک نے 21 دسمبر 1987 کو ایوانِ وقت راولپنڈی میں بتایا تھا کہ آکسفورڈ میں خیبر یونین آف سٹوڈنٹس کے ایک اِجلاس میں انہوں نے صدارت کی تھی جس میں انہوں نے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا اور یہ کہ اس اِجلاس میں چوہدری رحمت علی اور خواجہ عبدالرحیم بھی موجود تھے ۔
ڈاکٹر محمد جہانگیر خان ایم اے پی ایچ ڈی (کینٹ) بار ایٹ لاء ۔ ساکن ۔ 6 ۔ کنال بنک ۔ زمان پارک ۔ لاہور کے 25 اکتوبر 1983 کے تحریر کردہ حلف نامہ کے مطابق “محمد جہانگیر خان 1932 میں آل انڈیا کرکٹ ٹیم کے رکن کی حیثیت سے انگلستان گئے اور یونیورسٹی آف کیمبرج میں داخلہ لے کر وہیں رک گئے ۔ ان کی رہائش چوہدری رحمت علی کی رہائش گاہ سے صرف ایک سو گز کے فاصلہ پر تھی ۔ انہی دنوں لندن میں دوسری گول میز کانفرنس ہوئی جس میں مسلمانوں کی نمائندگی علامہ محمد اقبال نے کی ۔ لندن میں قیام کے دوران علامہ بیمار پڑ گئے ۔ چوہدری رحمت علی ۔ خواجہ عبدالرحیم اور محمد جہانگیر خان ان کی عیادت کے لئے لندن گئے ۔ وہاں چوہدری رحمت علی نے خواجہ عبدالرحیم کی طرف اشارہ کر کے علامہ اقبال سے کہا کہ پاکستان کا لفظ اس نے تخلیق کیا تھا اور اس کے اجزاء کی ترکیب بھی بتائی ۔ چوہدری رحمت علی نے علامہ سے استفسار کیا کہ کیا وہ بہتر نام تجویز کر سکتے ہیں ؟ علامہ نے کہا کہ اس کے اجزاء کی ترکیب ایک کاغذ پر لکھ کر سامنے دیوار پر لٹکا دیں میں کل آپ کو بتاؤں گا ۔ دوسرے دن پھر تینوں لندن علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو علامہ نے فرمایا کہ اس سے بہتر نام ان کے ذہن میں نہیں آیا اس لئے اسی کو رکھا جائے اور اس کے قائم ہونے کی دعا بھی کی” ۔
چنانچہ چوہدری رحمت علی کو نام تجویز کرنے والوں میں شامل تو کہا جا سکتا ہے لیکن ان کو نام کا خالق نہیں کہا جا سکتا ۔ چنانچہ نام کے خالق خواجہ عبدالرحیم ہی ثابت ہوتے ہیں ۔ ایک اور بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جموں کشمیر کے بغیر نام کے لحاظ سے بھی پاکستان ابھی نامکمل ہے ۔